6۔ 1 ثَرَیٰ کے معنی ہیں السافلین یعنی زمین کا سب سے نچلا حصہ
[٤] زمین اور آسمان کے درمیان کیا کچھ ہے :۔ زمین و آسمان کے درمیان بھی اللہ کی بیشمار مخلوق موجود ہے۔ مثلا ہوا، بادل، اڑنے والے پرندے اور ہوائی جہاز، ایتھر، آسمان سے زمین کی طرف اترنے والے فرشتے اور زمین سے آسمان کی طرف پرواز کرنے والے فرشتے، بد روحیں، فضا میں بروقت گردش کرنے والے سیارے، ٹوٹنے والے ستارے یہ چیزیں تو وہ ہیں جن کا ہمیں کسی نہ کسی طرح علم ہے۔ اور جو انسان کے علم میں نہیں آئیں ان کی تعداد اور ان کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔- [٥] اللہ کی مخلوق کہاں کہاں ہے ؟ ثریٰ کے لغوی معنی صرف گیلی مٹی ہے جو زمین کی تہوں میں ہے۔ اور یہ لفظ عموما ً ثریا (کہکشاں) کے مقابلہ میں آتا ہے۔ ثریا سے مراد انتہائی بلنی اور ثریٰ سے مراد انتہائی پستی یا گہرائی لی جاتی ہے۔ گویا چار چیزیں یہاں مذکور ہوئی۔ ایک آسمان اور ان میں رہنے والی مخلوق، دوسرے زمین اور اس پر رہنے والی مخلوق تیسرے آسمانوں اور زمین کے درمیان کی مخلوق اور چوتھے زمین کا اندرونی حصہ اور وہاں کی موجود مخلوق۔ ہر طرح کی مخلوق کا خالق ومالک اللہ ہی ہے اور وہ سب اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں۔
لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ ۔۔ : ” الثَّرٰى“ گیلی مٹی کے نیچے سے مراد زمین کا سب سے نچلا حصہ ہے، یعنی وہ عرش پر مستوی ہو کر آسمانوں سے لے کر زمین کی آخری گہرائی تک ہر چیز کی تدبیر ہی نہیں کر رہا بلکہ ان سب کا مالک بھی وہ اکیلا ہی ہے۔ ملک بھی اسی کا ہے، ملکیت بھی اسی کی۔ حاکم بھی وہی ہے، مالک بھی وہی۔ ہر چیز کا وجود، حرکت، سکون، تغیر یا ثبات سب کچھ اسی کے امر سے ہے۔
وَمَا تَحْتَ الثَّرٰى، ثریٰ ، نمناک گیلی مٹی کو کہتے ہیں جو زمین کھودنے کے وقت نکلتی ہے مخلوقات کا علم تو صرف ثریٰ تک ختم ہوجاتا ہے، آگے اس ثریٰ کے نیچے کیا ہے اس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، اس نئی تحقیق و ریسرچ اور نئے نئے آلات اور سائنس کی انتہائی ترقی کے باوجود اب سے چند سال پہلے زمین کو برما کر ایک طرف سے دوسری طرف نکل جانے کی کوشش سے مدتوں تک جاری رہی۔ ان سب تحقیقات اور انتھک کوششوں کا نتیجہ اخبارات میں سب کے سامنے آ چکا ہے کہ صرف چھ میل کی گہرائی تک یہ آلات جدیدہ کام کرسکے، آگے ایک ایسا غلاف حجری ثابت ہوا جہاں کھودنے کے سارے آلات اور سائنس جدید کے سب افکار عاجز ہوگئے یہ صرف چھ میل تک کا علم انسان حاصل کرسکا ہے جبکہ زمین کا قطر ہزاروں میل کا ہے اس لئے اس اقرار کے سوا چارہ نہیں کہ ماتحت الثریٰ کا علم حق تعالیٰ ہی کی مخصوص صفت ہے۔
لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰى ٦- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- الثری۔ ثری خاک نمناک، گیلی مٹی۔ سیلی زمین کو کہتے ہیں۔ عام زمین کے نیچے گیلی مٹی ہے اور گیلی مٹی سے بھی نیچے سے مراد زمین کی اتھاہ گہرائیاں ہیں۔
(٦) آسمان و زمین اس کی ملکیت ہیں اور تمام عجائبات اور تمام مخلوقات اور جو چیزیں تحت الثری ہیں یعنی جو چیزیں ساتویں زمین کے نیچے ہیں کیوں کہ ساتوں زمینیں پانی پر ہیں اور پانی مچھلی پر ہے اور مچھلی صخرہ پر ہے۔
آیت ٦ (لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰی ) ” - الثَّرٰی کے معنی گیلی مٹی کے ہیں ‘ یعنی گیلی مٹی کے نیچے بھی جو کچھ ہے وہ بھی اللہ ہی کی ملکیت ہے۔