7۔ 1 یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے یا اَخْفَیٰ کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔
[٦] خفی اور سر کا لغوی فرق :۔ اخفٰی کا لفظ یسر سے زیادہ ابلغ ہے۔ یسر کا معنی پوشیدہ یا راز کی بات ہے۔ جو آپ کسی دوسرے سے کہہ دیں اور اسے تاکید کردیں کہ وہ اور کسی کو نہ بتلائے۔ اور اخفیٰ سے مراد وہ بات خیال ہے جو کسی کے دل میں آئے لیکن وہ کسی سے بھی اس کا ذکر تک نہ کرے۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ کی وسعت قدرت و تصرف اور اختیار بیان کی گئی تھی۔ اس آیت میں لا محدود وسعت علم کا بیان ہوا ہے۔ یعنی قریش کو بتلایا جارہا ہے کہ اللہ تمہاری سب سازشوں، شرارتوں اور کارستانیوں سے پوری طرح واقف ہے۔
وَاِنْ تَجْــهَرْ بالْقَوْلِ ۔۔ : یعنی اگر تم اونچی آواز سے بات کرو تو وہ اسے بالاولیٰ سنتا ہے، کیونکہ وہ تو سر (پوشیدہ بات) کو جانتا ہے اور اخفی (اس سے زیادہ پوشیدہ) کو بھی۔ سر سے مراد وہ بات ہے جو تنہائی میں چپکے سے کہی جائے اور اخفیٰ (اس سے زیادہ چھپی بات) وہ ہے جو ابھی دل میں ہو اور زبان پر نہ آئی ہو۔
يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي، سِر سے مراد وہ چیز ہے جو انسان نے اپنے دل میں چھپائی ہوئی ہے کسی پر ظاہر نہیں اور اخفیٰ سے مراد وہ بات ہے جو ابھی تک تمہارے دل میں بھی نہیں آئی آئندہ کسی وقت دل میں آوے گی حق تعالیٰ ان سب چیزوں سے واقف و باخبر ہیں کہ اس وقت کسی انسان کے دل میں کیا ہے اور کل کو کیا ہوگا۔ کل کا معاملہ ایسا ہے کہ خود اس شخص کو بھی آج اس کی خبر نہیں کہ کل کو میرے دل میں کیا بات آوے گی۔ (قرطبی)
وَاِنْ تَجْــہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي ٧- جهر - جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع .- أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] - ( ج ھ ر ) الجھر - ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ - أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا - سرر (كتم)- وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس 54] ، أي : کتموها - ( س ر ر ) الاسرار - اور تسارالقوم کے معنی لوگوں کا باہم ایک دوسرے کو بات چھپانے کی وصیت کرنے یا باہم سر گوشی کرنے کے ہیں اور آیت ۔ وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس 54] ( پچھتائیں گے ) اور ندامت کو چھپائیں گے ۔ تو یہاں اسروا کے معنی چھپانے کے ہیں ۔ - خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔
(٧) اور صخرہ بیل کے دونوں سینگوں پر ہے اور بیل ثری کے اوپر ہے اور ثری اس تر مٹی کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کو اس کے نیچے جو چیزیں ہیں اس کا بھی علم ہے اور وہ بھی اس کی ملکیت میں شامل ہیں اور اس کے علم کی یہ شان ہے کہ اے مخاطب اگر تم کسی بات یا فعل کو علانیہ طور پر کرے تو وہ چپکے سے کہی ہوئی بات اور کی ہوئی بات کو اور بلکہ اس سے بھی زیادہ پوشیدہ بات کو جانتا ہے یعنی جو ابھی تک دل میں بات ہے ابھی تک اس کو ظاہر نہیں کیا ہوگا اس کو بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
آیت ٧ (وَاِنْ تَجْہَرْ بالْقَوْلِ ) ” - اللہ کو پکارتے ہوئے ‘ اس سے دعایا مناجات کرتے ہوئے اگر تم لوگ اپنی آوازوں کو بلند کرو یا آہستہ رکھو ‘ اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا :
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :3 یعنی کچھ ضروری نہیں ہے کہ جو ظلم و ستم تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر ہو رہا ہے اور جن شرارتوں اور خباثتوں سے تمہیں نیچا دکھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ان پر تم بآواز بلند ہی فریاد کرو ۔ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم پر کیا کیفیت گزر رہی ہے ۔ وہ تمہارے دلوں کی پکار تک سن رہا ہے ۔
5: اور زیادہ چھپی ہوئی باتیں وہ ہیں جو زبان سے کہی ہی نہیں گئیں، بلکہ جن کا صرف خیال دل میں آیا۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں سے بھی باخبر ہے۔