Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 بعض روایات میں دفنانے کے بعد تین مٹھیاں (یا بکے) مٹی ڈالتے وقت اس آیت کا پڑھنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے، لیکن سنداً یہ روایات ضعیف ہیں۔ تاہم آیت کے بغیر تین لپیں ڈالنے والی روایت، جو ابن ماجہ میں ہے، صحیح ہے، اس لئے دفنانے کے بعد دونوں ہاتھوں سے تین تین مرتبہ مٹی ڈالنے کو علماء نے مستحب قرارا دیا ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب الجنائر صفحہ 152۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧] انسان کا ذہن سے تعلق :۔ اس آیت میں انسان پر وارد ہونے والی تین کیفیتات کا ذکر کیا گیا ہے اور ان تینوں کا تعلق زمین سے ہے۔ اللہ نے انسان کو زمین یا مٹی سے پیدا کیا اور اس کی تمام تر ضروریات اسی سے متعلق کردیں۔ پیدائش سے لے کر موت تک یہ ایک مرحلہ ہوا۔ دوسرا مرحلہ موت سے قیامت تک ہے۔ اس مرحلے میں انسان اسی زمین میں دفن ہوتا ہے اور اکثر لوگوں کی میت مٹی بن کر مٹی ہی میں رل مل جاتی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ انبیاء کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی سب لوگوں کو مٹی کھاجاتی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کے جسم کو تو بہرحال نہیں کھاتی اور بعض دوسرے لوگ بھی ایسے ہوسکتے ہیں جن کے اجسام ان کی قبروں میں محفوظ ہوں۔ اور تیسرا مرحلہ بعث بعد الموت ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ اس مٹی میں ملے ہوئے ذرات کو جمع کرکے سب لوگوں کو زندہ کرکے اپنے حضور حاضر کرے گا۔ گویا پہلے دو مراحل تیسرے مرحلہ کے لئے دلیل کا کام دیتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ ۔۔ : یعنی تم سب کے باپ آدم (علیہ السلام) کا پتلا مٹی سے بنایا گیا اور تمہاری غذائیں اور ضرورت کی تمام چیزیں بھی مٹی سے نکلتی ہیں۔ یہ پہلا مرحلہ ہے جو موت تک چلتا ہے۔ دوسرا مرحلہ یہ کہ موت کے بعد دوبارہ مٹی میں جاؤ گے، پھر کوئی انسان قبر میں دفن ہو یا نہ ہو، بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کے اجزا مٹی میں جائیں گے۔ تیسرے مرحلے میں قیامت کے دن انھی اجزا کو دوبارہ روح پھونک کر زندہ کردیا جائے گا، فرمایا : (قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُوْنَ ) [ الأعراف : ٢٥ ] ” فرمایا تم اسی میں زندہ رہو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے نکالے جاؤ گے۔ “ بعض روایات میں دفن کے وقت مٹی کی پہلی مٹھی ڈالتے ہوئے ” مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ “ ، دوسری مٹھی ڈالتے ہوئے ” وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ “ اور تیسری مٹھی ڈالتے وقت ” وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى“ پڑھنے کا ذکر ہے، مگر وہ روایات ضعیف ہیں، البتہ آیت پڑھے بغیر تین مٹھی مٹی ڈالنا مسنون ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے : ( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی عَلٰی جِنَازَۃٍ ثُمَّ أَتٰی قَبْرَ الْمَیِّتِ فَحَثٰی عَلَیْہِ مِنْ قِبَلِ رَأْسِہٖ ثَلاَثًا ) [ ابن ماجہ، الجنائز، باب ما جاء في حثو التراب في القبر : ١٥٦٥، صحیح ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنازے پر نماز پڑھی، پھر میت کی قبر پر آئے اور اس کے سر کی طرف (مٹی کی) تین مٹھیاں ڈالیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ہر انسان کے خمیر میں نطفہ کے ساتھ اس جگہ کی مٹی بھی شامل ہوتی ہے جہاں وہ دفن ہوگا :- مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ مِنْهَا کی ضمیر زمین کی طرف راجع ہے اور معنے یہ ہیں کہ ہم نے تم کو زمین کی مٹی سے پیدا کیا مخاطب اس کے سب انسان ہیں حالانکہ عام انسانوں کی پیدائش مٹی سے نہیں بلکہ نطفہ سے ہوئی بجز آدم (علیہ السلام) کے کہ ان کی پیدائش براہ راست مٹی سے ہوئی تو یہ خطاب یا تو اس بناء پر ہوسکتا ہے کہ انسان کی اصل اور سب کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں ان کے واسطے سے سب کی تخلیق مٹی کی طرف منسوب کردینا کچھ بعید نہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ ہر نطفہ مٹی ہی کی پیداوار ہوتا ہے اس لئے نطفہ سے تخلیق درحقیقت مٹی ہی سے تخلیق ہوگئی۔ امام قرطبی نے فرمایا کہ الفاظ قرآن کا ظاہر یہی ہے کہ ہر انسان کی تخلیق مٹی ہی سے تخلیق ہوگئی۔ امام قرطبی نے فرمایا کہ الفاظ قرآن کا ظاہر یہی ہے کہ ہر انسان کی تخلیق مٹی سے ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ہر انسان کی تخلیق میں حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے مٹی شامل فرماتے ہیں اس لئے ہر ایک انسان کی تخلیق کو براہ راست مٹی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔- امام قرطبی نے فرمایا کہ الفاظ قرآن کا ظاہر یہی ہے کہ ہر انسان کی تخلیق مٹی سے عمل میں آئی ہے اور حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث اس پر شاہد ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ہر پیدا ہونے والے انسان پر رحم مادر میں اس جگہ کی مٹی کا کچھ جزء ڈالا جاتا ہے جس جگہ اس کا دفن ہونا اللہ کے علم میں مقدر ہے۔ یہ حدیث ابو نعیم نے ابن سیرین کے تذکرہ میں روایت کر کے فرمایا ہے ہذا حدیث غریب من حدیث عون لم نکتبہ الا من حدیث عاصم بن نبیل و ہو احد الثقات الاعلام من اہل بصرہ، اور اسی مضمون کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی منقول ہے اور عطا خراسانی نے فرمایا کہ جب رحم میں نطفہ قرار پاتا ہے تو جو فرشتہ اس کی تخلیق پر مامور ہے وہ جا کر اس جگہ کی مٹی لاتا ہے جس جگہ اس کا دفن ہونا مقرر ہے اور یہ مٹی اس نطفہ میں شامل کردیتا ہے اس لئے تخلیق نطفہ اور مٹی دونوں سے ہوتی ہے اور اسی آیت سے استدلال کیا۔ مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ (قرطبی)- تفسیر مظہری میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کی ناف میں ایک جزء مٹی کا ڈالا جاتا ہے اور جب مرتا ہے تو اسی زمین میں دفن ہوتا ہے جہاں کی مٹی اس کے خمیر میں شامل کی گئی تھی اور فرمایا کہ میں اور ابوبکر و عمر ایک ہی مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں اور اسی میں دفن ہوں گے۔ یہ روایت خطیب نے نقل کر کے فرمایا ہے کہ حدیث غریب ہے اور ابن جوزی نے اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے مگر شیخ محدث میرزا محمد حارثی بدخشی نے فرمایا کہ اس حدیث کے بہت سے شواہد حضرت ابن عمر، ابن عباس، ابو سعید، ابوہریرہ (رض) سے منقول ہیں۔ جن سے اس روایت کو قوت پہنچتی ہے اس لئے یہ حدیث حسن (لغیرہ) سے کم نہیں (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مِنْہَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْہَا نُعِيْدُكُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُكُمْ تَارَۃً اُخْرٰى۝ ٥٥- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - تارة- أَنْ يُعِيدَكُمْ فِيهِ تارَةً أُخْرى[ الإسراء 69] ، وقال تعالی: وَمِنْها نُخْرِجُكُمْ تارَةً أُخْرى [ طه 55] ، أي مرّة وكرّة أخری، هو فيما قيل من تار الجرح : التأم .- ( تا ر ۃ ) تارۃ - کے معنی ایک مرتبہ کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ نُخْرِجُكُمْ تارَةً أُخْرى [ طه 55] پھر ہم دوسری مرتبہ نکالیں گے ۔ بقول بعض یہ تا رالجرح سے مشتق ہے جس کے معنی زخم کا بھرجانا اور مندمل ہوجانا کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٥) اور اسی طرح اسی زمین سے ہم نے تمہیں کو پیدا کیا یعنی تم سب کو حضرت آدم (علیہ السلام) کے ذریعے پیدا کرلیا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے اور وہ مٹی اسی زمین کی تھی اور اسی زمین میں تم دفن کیے جاؤ گے۔- اور مرنے کے بعد پھر قبروں سے قیامت کے دن ہم تمہیں کو دوبارہ نکالیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :28 یعنی ہر انسان کو لازماً تین مرحلوں سے گزرنا ہے ۔ ایک مرحلہ موجودہ دنیا میں پیدائش سے لے کر موت کا ۔ دوسرا مرحلہ موت سے قیامت تک کا ۔ اور تیسرا قیامت کے روز دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کا مرحلہ ۔ یہ تینوں مرحلے اس آیت کی رو سے اسی زمین پر گزرنے والے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani