Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٨] فرعون سے موسیٰ (علیہ السلام) کی پہلی ملاقات کے بعدیہاں درمیان کے کئی مراحل کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی دوران موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو اپنی رسالت کی دلیل میں کئی نشانیاں بھی دکھلاویں۔ جن کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے جب ملک پر کوئی آفت نازل ہوتی تو وہ سیدنا موسیٰ سے کہتا کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو۔ اگر یہ آفت دور ہوگئی تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے۔ پھر جب سیدنا موسیٰ کی دعا سے وہ آفت دور ہوجاتی۔ تو وہ وعدہ خلافی کرتا اور پھر سے اکڑ جاتا تھا اور ایسا معاملہ کئی بار پیش آتا رہا۔ اور حقیقت یہ تھی کہ فرعون کو سیدنا موسیٰ کی رسالت کا یقین تو ہوچکا تھا مگر وہ اپنے اقتدار سے کسی قیمت پر الگ ہونے کو تیار نہ تھا۔ لہذا ہر بار انکار کردیتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا ۔۔ : یہ آیت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی باہمی گفتگو ذکر کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کو دوبارہ آگے بیان کرنے سے پہلے جملہ معترضہ کے طور پر آئی ہے، یعنی فرعون کفر میں اتنا پکا تھا کہ ہماری تمام نشانیاں دیکھنے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دل سے سچا سمجھنے کے باوجود ایمان نہیں لایا، حتیٰ کہ اس نے آخری نشانی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی کہ سمندر پھٹ گیا اور اس کے پانی کا ہر حصہ ایک بہت بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل ان راستوں سے بخیریت گزر گئے (شعراء : ٦٣ تا ٦٦) ، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لایا، بلکہ اپنے رب ہونے کے جھوٹے دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لیے پوری فوج کو لے کر سمندر میں داخل ہو کر غرق ہوا، مگر غرق ہونے سے پہلے تک وہ جھٹلاتا اور انکار ہی کرتا رہا۔ دیکھیے سورة قمر (٤١، ٤٢) اور یونس (٩٠ تا ٩٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرَيْنٰہُ اٰيٰتِنَا كُلَّہَا فَكَذَّبَ وَاَبٰى۝ ٥٦- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - أبى- الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا .- قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه 116]- ( اب ی )- الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٦) اور ہم نے اس فرعون کو اپنی نشانیاں یعنی یدبیضاء عصا، طوفان، جراد، قمل، ضفادع، دم، قحط، سالی اور پھلوں کی کمی دکھلائیں مگر اس نے ان تمام نشانیوں کو جھٹلایا اور کہنے لگا کہ یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں اور اسلام لانے سے انکار کیا اور ان نشانیوں کو تسلیم نہیں کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :29 یعنی آفاق و اَنفُس کے دلائل کی نشانیاں بھی ، اور وہ معجزات بھی جو حضرت موسیٰ کو دیے گئے تھے ۔ قرآن میں متعدد مقامات پر حضرت موسیٰ کی وہ تقریریں بھی موجود ہیں جو انہوں نے فرعون کو سمجھانے کے لیے کیں ۔ اور وہ معجزات بھی مذکور ہیں جو اس کے پے در پے دکھائے گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani