Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فرعون کے ساحر اور موسیٰ علیہ السلام ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ لکڑی کا سانپ بن جانا ، ہاتھ کا روشن ہو جانا وغیرہ دیکھ کر فرعون نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور تو جادو کے زور سے ہمارا ملک چھیننا چاہتا ہے ۔ تو مغرور نہ ہو جا ہم بھی اس جادو میں تیرا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ دن اور جگہ مقرر ہو جائے اور مقابلہ ہو جائے ۔ ہم بھی اس دن اس جگہ آ جائیں اور تو بھی ایسا نہ ہو کہ کوئی نہ آئے ۔ کھلے میدان میں سب کے سامنے ہار جیت کھل جائے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے منظور ہے اور میرے خیال سے تو اس کے لئے تمہاری عید کا دن مناسب ہے ۔ کیونکہ وہ فرصت کا دن ہوتا ہے سب آ جائیں گے اور دیکھ کر حق و باطل میں تمیز کرلیں گے ۔ معجزے اور جادو کا فرق سب پر ظاہر ہو جائے گا ۔ وقت دن چڑھے کا رکھنا چاہئے تاکہ جو کچھ میدان میں آئے سب دیکھ سکیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان کی زینت اور عید کا دن عاشورے کا دن تھا ۔ یہ یاد رہے کہ انبیاء علیہ السلام ایسے موقعوں پر کبھی پیچھے نہیں رہتے ایسا کام کرتے ہیں جس سے حق صاف واضح ہو جائے اور ہر ایک پرکھ لے ۔ اسی لئے آپ نے ان کی عید کا دن مقرر کیا اور وقت دن چڑھے کا بتایا اور صاف ہموار میدان مقرر کیا کہ جہاں سے ہر ایک دیکھ سکے اور جو باتیں ہوں وہ بھی سن سکے ۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ فرعون نے مہلت چاہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انکار کیا اس پر وحی اتری کہ مدت مقرر کر لو فرعون نے چالیس دن کی مہلت مانگی جو منظور کی گئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 جب فرعون کو دلائل واضح کے ساتھ وہ معجزات بھی دکھلائے گئے، جو عصا اور ید بیضا کی صورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کئے گئے تھے، تو فرعون نے اسے جادو کا کرتب سمجھا اور کہنے لگا اچھا تو ہمیں اس جادو کے زور سے ہماری زمین سے نکالنا چاہتا ہے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩] فرعون کے اس قول سے اس کی بدحواسی پورے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ ورنہ اس کے ملک میں سینکڑوں جادوگر موجود تھے۔ جو لوگوں کو اور اسے بھی اپنی شعبدہ بازیاں دکھلاتے اور انعام و اکرام حاصل کرکے چلے جاتے تھے۔ ان میں سے کسی کے متعلق کبھی فرعون کو ایسا خیال نہ آیا تھا کہ یہ قحط بھی لاسکتے ہیں اور فرعون کو ملک بدر بھی کرسکتے ہیں۔ اور جو موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہنے کا ڈھونگ رچا رکھا تھا تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ اس کی رعایا ان سے متاثر ہو کر ان پر ایمان نہ لے آئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اَجِئْتَنَا ۔۔ : فرعون نے یہ بات تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد نہیں کہی، کیونکہ اگر ایسا ہو تو جادوگروں سے ہونے والا یہ مقابلہ طوفان، جراد، قمل وغیرہ حتیٰ کہ سمندر پھٹنے کے واقعہ کے بعد ماننا پڑے گا، کیونکہ ” اٰیٰتِنَا کُلَّھَا “ میں یہ سب شامل ہیں۔ اس لیے قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی صراحت کے مطابق فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اور ید بیضا والا معجزہ دیکھ کر یہ بات کہی۔ دیکھیے سورة اعراف (١٠٦ تا ١٢٦) اور شعراء (٣٠ تا ٥١) ۔ (ابن عاشور)- لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا : ہر باطل پرست اور جابر و ظالم حکمران جب داعی حق کے سامنے لاجواب ہوجاتا ہے تو اس کی دعوت ٹھکرانے کے لیے یہی ہتھکنڈا استعمال کرتا ہے، یعنی اسے اقتدار کا بھوکا ہونے کا طعنہ دیتا ہے، گویا اقتدار پر قابض رہنا اس کا تو پیدائشی حق ہے مگر کسی دوسرے کے لیے اس کے قریب پھٹکنا بھی جائز نہیں۔- ” بِسِحْرِكَ “ میں ” جادو “ کی اضافت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے آنے والی ضمیر (کاف) کی طرف کرنے میں ان معجزوں کی تحقیر مراد ہے کہ تو اپنے اس بےقدر و قیمت جادو کے ذریعے سے ہمیں سرزمین مصر سے نکالنا چاہتا ہے۔ تیرے اس جادو کی ہمارے کامل اور ماہر فن جادوگروں کے جادو کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى۝ ٥٧- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٧) مزید کہنے لگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے جادو سے ہمیں مصر سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :30 جادو سے مراد عصا اور ید بیضا کا معجزہ ہے جو سورہ اعراف اور سورہ شعراء کی تفصیلات کے موجب حضرت موسیٰ نے پہلی ہی ملاقات کے وقت بھرے دربار میں پیش کیا تھا ۔ اس معجزے کو دیکھ کر فرعون پر جو بد حواسی طاری ہوئی اس کا اندازہ اس کے اسی فقرے سے کیا جا سکتا ہے کہ ’ تو اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے کبھی یہ واقعہ پیش آیا تھا اور نہ بعد میں کبھی پیش آیا کہ کسی جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے کوئی ملک فتح کر لیا ہو ۔ فرعون کے اپنے ملک میں سینکڑوں ہزاروں جادوگر موجود تھے جو تماشے دکھا دکھا کر انعام کے لیے ہاتھ پھیلاتے پھرتے تھے ۔ اس لیے فرعون کا ایک طرف یہ کہنا کہ تو جادوگر ہے ، اور دوسری طرف یہ خطرہ ظاہر کرنا کہ تو میری سلطنت چھین لینا چاہتا ہے ، کھلی ہوئی بد حواسی کی علامت ہے ، دراصل وہ حضرت موسیٰ کی معقول و مدلل تقریر ، اور پھر ان کے معجزے کو دیکھ کر یہ سمجھ گیا تھا کہ نہ صرف اس کے اہل دربار ، بلکہ اس کی رعایا کے بھی عوام و خواص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے ۔ اس لیے اس نے جھوٹ اور فریب اور تعصبات کی انگیخت سے کام نکالنے کی کوشش شروع کر دی ۔ اس نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے اور ہماری سلطنت کا ہر جادوگر اسی طرح لاٹھی کو سانپ بنا کر دکھا سکتا ہے ۔ اس نے کہا کہ لوگو ، ذرا دیکھو ، یہ تمہارے باپ دادا کو گمراہ اور جہنمی ٹھہراتا ہے ۔ اس نے کہا کہ لوگو ، ہوشیار ہو جاؤ ، یہ پیغمبر ویغمبر کچھ نہیں ہے ، اقتدار کا بھوکا ہے ، چاہتا ہے کہ یوسف کے زمانے کی طرح پھر بنی اسرائیل یہاں حکمراں ہو جائیں اور قبطی قوم سے سلطنت چھین لی جائے ۔ ان ہتھکنڈوں سے وہ دعوت حق کو نیچا دکھانا چاہتا تھا ۔ ( مزید تشریحات کے لیے تفہیم القرآن ، جلد دوم کے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں ، الاعراف حواشی 87 ، 88 ، 89 ۔ یونس ، حاشیہ 75 ۔ اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ہر زمانے میں برسر اقتدار لوگوں نے داعیان حق کو یہی الزام دیا ہے کہ وہ دراصل اقتدار کے بھوکے ہیں اور ساری باتیں اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں ۔ اس کی مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیت 110 ، 123 ۔ یونس ، آیت 78 ۔ المومنون ، آیت 24 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani