58۔ 1 موعد مصدر ہے یا اگر ظرف ہے تو زمان اور مکان دونوں مراد ہوسکتے ہیں کوئی جگہ اور دن مقرر کرلے۔ 58۔ 2 مکان سوی۔ صاف ہموار جگہ، جہاں ہونے والے مقابلے کو ہر شخص آسانی سے دیکھ سکے یا ایسی برابر کی جگہ، جہاں فریقین سہولت سے پہنچ سکیں۔
[٤٠] موسیٰ (علیہ السلام) خود بھی ایسا مقابلہ چاہتے تھے تاکہ عام لوگوں کے ذہنوں پر جو فرعون کے جھوٹے پروپیگنڈا کے اثرات پڑ رہے ہیں تھے وہ زائل ہوسکیں۔ اور لوگ خود حق اور باطل میں امتیاز کرسکیں۔
فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا ۔۔ : ” مَوْعِدًا “ ظرف زمان بھی ہوسکتا ہے، مکان بھی اور مصدر میمی بھی، یعنی ہمارے ساتھ وہ وقت بھی طے کرلو جس میں مقابلہ ہوگا اور جگہ بھی، البتہ جگہ ایسی ہونی چاہیے جو قبطیوں اور بنی اسرائیل دونوں کے لیے برابر ہو، تاکہ کسی کو آنے میں دشواری پیش نہ آئے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ” مَكَانًا سُوًى“ کا مطلب برابر اور ہموار زمین ہے، جہاں سب مقابلہ دیکھ سکیں۔
مَكَانًا سُوًى، فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگروں کے مقابلہ کے لئے یہ خود تجویز کیا کہ ایسے مقام پر ہونا چاہئے جو آل فرعون اور حضرت موسیٰ و بنی اسرائیل کے لئے مسافت کے اعتبار سے برابر ہو تاکہ کسی فریق پر زیادہ دور جانے کی مشقت نہ پڑے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو قبول کر کے دن اور وقت کی تعیین اس طرح فرما دی :
فَلَنَاْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِہٖ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُہٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى ٥٨- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - خُلف ( عهد شكني)- والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] - ( خ ل ف ) خُلف - الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے
(٥٨) تو جیسا تم جادو لے کر آئے ہو ہم بھی تمہارے مقابلہ میں ایسا ہی جادو لے کر آتے ہیں تو موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے اور اپنے درمیان مقابلہ ا ایک وقت مقرر کرلو جس کی ہم میں سے کوئی خلاف ورزی نہ کرے کسی ہموار میدان میں یا یہ کہ منصفانہ برابر طریقہ پر اپنے اور ہمارے درمیان مقرر کرلو۔
(فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُہٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَکَانًا سُوًی ) ” - ایک کھلے میدان میں ہم سب جمع ہوجائیں۔ وہاں تم بھی اپنی یہ نشانیاں پیش کرو ‘ اور ہمارے جادو گر بھی اپنے جادو کے کمالات دکھائیں۔ فرعون کا خیال تھا کہ اس کے بلائے ہوئے جادوگر اس سے بہتر جادو دکھا دیں گے اور اس طرح موسیٰ کا دعویٰ باطل ثابت ہوجائے گا۔