Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 اس سے مراد نو روز یا کوئی اور سالانہ میلے یا جشن کا دن ہے جسے وہ عید کے طور پر مناتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤١] جادوگرو کا مقابلہ اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دو شرطیں فرعون کا یہ چیلنج دراصل موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی آواز تھی۔ مگر ایسا کھلے میدان میں مقابلہ کرانا ان کے وسائل سے خارج تھا۔ فرعون نے چیلنج کیا تو آپ نے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے فورا ً قبول کر یا۔ اور ساتھ دو باتیں یا شرائط اور بھی کہہ ڈالیں۔ ایک تو یہ مقابلہ صرف کھلے میدان میں ہی نہیں بلکہ جشن سالانہ کے دن ہونا چاہئے۔ جبکہ لوگ ہر طرف سے کھیچنے کر دارالسلطنت میں میلہ دیکھنے آتے ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس مقابلہ کو دیکھ سکیں۔ اور دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ دن کی صاف روشنی میں چاشت کے وقت ہونا چائیے تاکہ لوگوں کو اس منظر مقابلہ کے دیکھنے اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَةِ ۔۔ : ” ضُـحًي “ وہ وقت جب سورج نکلنے کے بعد اس کی حرارت کا آغاز ہوتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) تو خود چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوں، تاکہ ان تک حق کا پیغام پہنچے اور وہ معجزات الٰہی کو اور حق کی فتح کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ چناچہ ” يَوْمُ الزِّيْنَةِ “ اور دوپہر کا وقت مقرر کردیا گیا، تاکہ لوگ چھٹی کی وجہ سے فارغ ہوں اور دوپہر تک تمام علاقوں سے ہر شخص آسانی سے پہنچ جائے، دن کی روشنی زیادہ سے زیادہ ہو اور اگر مقابلہ طول پکڑ جائے تو مغرب تک لمبا وقت مل جائے۔ ” يَوْمُ الزِّيْنَةِ “ مصریوں کے ہاں معروف دن تھا، یہ اس دن منایا جاتا جب نیل کی طغیانی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی اور دور تک پانی پھیل جاتا، جس کے بعد فصلوں کی کاشت کا آغاز ہوتا۔ ابن عاشور (رض) نے اس کا اندازہ پندرہ ستمبر لگایا ہے۔ تفصیل ” التحریر والتنویر “ میں دیکھیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جگہ کا ذکر نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ” يَوْمُ الزِّيْنَةِ “ میں تمام لوگوں کا جشن منانے کے لیے کسی خاص جگہ جمع ہونا معروف تھا، جیسا کہ حکومتوں نے بڑے بڑے سٹیڈیم بنا رکھے ہوتے ہیں، اس لیے زینت کا دن اور وقت طے کرنے کے بعد جگہ کے ذکر کی ضرورت نہ تھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَةِ وَاَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُـحًي، یعنی یہ مقابلہ یوم الزینتہ میں ہونا چاہئے۔ مراد عید یا کسی میلے وغیرہ کے اجتماع کا دن ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ وہ کونسا دن تھا ؟ بعض نے کہا کہ آل فرعون کی کوئی عید مقرر تھی جس میں وہ زینت کے کپڑے پہن کر شہر سے باہر نکلنے کے عادی تھے، بعض نے کہا کہ وہ نیروز کان تھا کسی نے کہا کہ یوم السبت یعنی ہفتہ کا دن تھا جس کی یہ لوگ تعظیم کرتے تھے، بعض نے کہا کہ وہ عاشورا، یعنی محرم کی دسویں تاریخ تھی۔- فائدہ :- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دن اور وقت کی تعیین میں بڑی حکمت سے کام لیا کہ دن ان کی عید کا تجویز کیا جس میں سب چھوٹے بڑے ہر طبقے کے لوگوں کا اجتماع پہلے سے متعین تھا جس کا نتیجہ لازمی یہ تھا کہ یہ اجتماع بہت بڑا پورے شہر کے لوگوں پر مشتمل ہوجائے اور وقت ضحی یعنی چاشت کا رکھا جو آفتاب کے بلند ہونے کے بعد ہوتا ہے جس میں ایک مصلحت تو یہ ہے کہ سب لوگوں کو اپنی ضروریات سے فارغ ہو کر اس میدان میں آنا آسان ہو۔ دوسری مصلحت یہ بھی ہے کہ یہ وقت روشنی اور ظہور کے اعتبار سے سارے دن میں بہتر ہے ایسے ہی وقت میں دلجمعی اور سکون کے ساتھ اہم کام کئے جاتے ہیں اور ایسے وقت کے اجتماع سے جب لوگ منتشر ہوتے ہیں تو بات دور دور تک پھیل جاتی ہے چناچہ اس روز جب حق تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعونی ساحروں پر غلبہ عطا فرمایا تو ایک ہی دن میں پورے شہر میں بلکہ دور دور تک اس کی شہرت ہوگئی۔- جادو کی حقیقت اور اس کی اقسام اور شرعی احکام :- یہ مضمون پوری تفصیل کے ساتھ سورة بقرہ ہاروت و ماروت کے قصہ میں معارف القرآن جلد اول ص ٢١٧ سے ٢٢٣ تک بیان ہوچکا ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَۃِ وَاَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًي۝ ٥٩- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - ضحی - الضُّحَى: انبساطُ الشمس وامتداد النهار، وسمّي الوقت به . قال اللہ عزّ وجل : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس 1] ، إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات 46] ، وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی 1- 2] ، وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات 29] ، وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى- [ طه 59] ، وضَحَى يَضْحَى: تَعَرَّضَ للشمس . قال : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] ، أي : لك أن تتصوّن من حرّ الشمس، وتَضَحَّى: أَكَلَ ضُحًى، کقولک : تغدّى، والضَّحَاءُ والغداءُ لطعامهما، وضَاحِيَةُ كلِّ شيءٍ : ناحیتُهُ البارزةُ ، وقیل للسماء : الضَّوَاحِي ولیلة إِضْحِيَانَةٌ ، وضَحْيَاءُ : مُضيئةٌ إضاءةَ الضُّحَى.- والأُضْحِيَّةُ- جمعُها أَضَاحِي وقیل : ضَحِيَّةٌ وضَحَايَا، وأَضْحَاةٌ وأَضْحًى، وتسمیتها بذلک في الشّرع لقوله عليه السلام : «من ذبح قبل صلاتنا هذه فليُعِدْ»- ( ض ح و ) الضحی ٰ- ۔ کے اصل معنی دہوپ پھیل جانے اور دن چڑھ آنے کے ہیں پھر اس وقت کو بھی ضحی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس 1] سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات 46] ایک شام یا صبح وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی 1- 2] آفتاب کی روشنی کی قسم اور رات کی تاریکی کی جب چھاجائے ۔ وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات 29] اور اسکی روشنی نکالی ۔ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى[ طه 59] اور یہ لوگ ( اس دن چاشت کے وقت اکٹھے ہوجائیں ۔ ضحی یضحیٰ شمسی یعنی دھوپ کے سامنے آنا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ۔ یعنی نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاؤ گے ۔ تضحی ضحی کے وقت کھانا کھانا جیسے تغدیٰ ( دوپہر کا کھانا کھانا ) اور اس طعام کو جو ضحی اور دوپہر کے وقت کھایا جائے اسے ضحاء اور غداء کہا جاتا ہے ۔ اور ضاحیۃ کے معنی کسی چیز کی کھلی جانب کے ہیں اس لئے آسمان کو الضواحی کہا جاتا ہے لیلۃ اضحیانۃ وضحیاء روشن رات ( جس میں شروع سے آخر تک چاندنی رہے )- اضحیۃ - کی جمع اضاحی اور ضحیۃ کی ضحایا اور اضحاۃ کی جمع اضحیٰ آتی ہے اور ان سب کے معنی قربانی کے ہیں ( اور شرقا قربانی بھی چونکہ نماز عید کے بعد چاشت کے وقت دی جاتی ہے اس لئے اسے اضحیۃ کہاجاتا ہے حدیث میں ہے (9) من ذبح قبل صلوتنا ھذہ فلیعد کہ جس نے نما زعید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کردیا وہ دوبارہ قربانی دے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تمہارے مقابلہ کے مقابلہ کے وعدہ کا وقت وہ دن ہے جس میں تمہارا بازار لگتا ہے یا یہ کہ تمہارے میلے اور خوشی کا دن یا یہ کہ نیروز اور جس میں تمام شہروں سے دن چڑھے لوگ جمع ہوتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (قَالَ مَوْعِدُکُمْ یَوْمُ الزِّیْنَۃِ ) ” - ان کے ہاں یہ کوئی تہوار تھا جس کے سلسلے میں وہ لوگ بڑی تعداد میں کسی میدان میں جمع ہو کر جشن مناتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حکمت سے کام لیتے ہوئے اسی تہوار کے اجتماع کو مقابلے کے لیے مخصوص کرلیا۔- (وَاَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًی ) ” - یہ ضحی کا وقت وہی ہے جس وقت ہم عیدین کے موقع پر نماز ادا کرتے ہیں۔ یعنی جب دھوپ ذرا سی اٹھ جائے اس وقت لوگوں کو جمع کرلیا جائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :31 فرعون کا مدعا یہ تھا کہ ایک دفعہ جادوگروں سے لاٹھیوں اور رسیوں کا سانپ بنوا کر دکھا دوں تو موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کا جو اثر لوگوں کے دلوں پر ہوا ہے وہ دور ہو جائے گا ۔ یہ حضرت موسیٰ کی منہ مانگی مراد تھی ۔ انہوں نے فرمایا کہ الگ کوئی دن اور جگہ مقرر کرنے کی ضرورت ہے ۔ جشن کا دن قریب ہے ، جس میں تمام ملک کے لوگ دار السلطنت میں کھنچ کر آ جاتے ہیں ۔ وہیں میلے کے میدان میں مقابلہ ہو جائے تاکہ ساری قوم دیکھ لے ۔ اور وقت بھی دن کی پوری روشنی کا ہونا چاہیے تاکہ شک و شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہ رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

22: یہ کوئی تہوار تھا جس میں فرعون کی قوم جشن منایا کرتی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن کا انتخاب اس لیے فرمایا تاکہ ایک بڑا مجمع موجود ہو اور اس کے سامنے حق کی فتح کا مظاہرہ ہوسکے