مقابلہ اور نتیجہ ۔ جب کہ مقابلہ کی تاریخ مقرر ہو گئی ، دن وقت اور جگہ بھی ہو گئی تو فرعون نے ادھر ادھر سے جادوگروں کو جمع کرنا شروع کیا اس زمانے میں جادو کا بہت زور تھا اور بڑے بڑے جادوگر موجود تھے ۔ فرعون نے عام طور سے حکم جاری کر دیا تھا کہ تمام ہوشیار جادوگروں کو میرے پاس بھیج دو ۔ مقررہ وقت تک تمام جادوگر جمع ہوگئے فرعون نے اسی میدان میں اپنا تخت نکلوایا اس پر بیٹھا تمام امراء وزراء اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے رعایا سب جمع ہو گئی جادوگروں کی صفوں کی صفیں پرا باندھے تخت کے آگے کھڑی ہو گئیں ۔ فرعون نے ان کی کمر ٹھونکنی شروع کی اور کہا دیکھو آج اپنا وہ ہنر دکھاؤ کہ دنیا میں یادگار رہ جائے ۔ جادوگروں نے کہا کہ اگر ہم بازی لے جائیں تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا ؟ کہا کیوں نہیں؟ میں تو تمہیں اپنا خاص درباری بنا لوں گا ۔ ادھر سے کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں تبلیغ شروع کی کہ دیکھو اللہ پر جھوٹ نہ باندھو ورنہ شامت اعمال برباد کر دے گی ۔ لوگوں کی آنکھوں میں خاک نہ جھونکو کہ درحقیقت کچھ نہ ہو اور تم اپنے جادو سے بہت کچھ دکھا دو ۔ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں جو فی الواقع کسی چیز کو پیدا کر سکے ۔ یاد رکھو ایسے جھوٹے بہتانی لوگ فلاح نہیں پاتے ۔ یہ سن کر ان میں آپس میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ۔ بعض تو سمجھ گئے اور کہنے لگے یہ کلام جادوگروں کا نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کے رسول ہیں ۔ بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ جادوگر ہیں مقابلہ کرو ۔ یہ باتیں بہت ہی احتیاط اور راز سے کی گئیں ۔ ( ان ھذن ) کی دوسری قرأت ( ان ھذین ) بھی ہے مطلب اور معنی دونوں قرأت وں کا ایک ہی ہے ۔ اب با آواز بلند کہنے لگے کہ یہ دونوں بھائی سیانے اور پہنچے ہوئے جادوگر ہیں ۔ اس وقت تک تو تمہاری ہوا بندھی ہوئی ہے بادشاہ کا قرب نصیب ہے مال و دولت قدموں تلے لوٹ رہا ہے لیکن آج اگر یہ بازی لے گئے تو ظاہر ہے کہ ریاست ان ہی کی ہو جائے گی تمہیں ملک سے نکال دیں گے عوام ان کے ماتحت ہو جائیں گے ان کا زور بند بندھ جائے گا یہ بادشاہت چھین لیں گے اور ساتھ ہی تمہارے مذہب کو ملیا میٹ کر دیں گے ۔ بادشاہت عیش و آرام سب چیزیں تم سے چھن جائیں گی ۔ شرافت عقلمندی ریاست سب ان کے قبضے میں آ جائے گی تم یونہی بھٹے بھونتے رہ جاؤ گے ۔ تمہارے اشراف ذلیل ہو جائیں گے امیر فقیر بن جائیں گے ساری رونق اور بہار جاتی رہے گی ۔ بنی اسرائیل جو تمہارے لونڈی غلام بنے ہوئے ہیں یہ سب ان کے ساتھ ہو جائیں گے اور تمہاری حکومت پاش پاش ہو جائے گی ۔ تم سب اتفاق کر لو ۔ ان کے مقابلے میں صف بندی کر کے اپنا کوئی فن باقی نہ رکھو جی کھول کر ہوشیاری اور دانائی سے اپنے جادو کے زور سے اسے دبا لو ۔ ایک ہی دفعہ ہر استاد اپنی کاری گری دکھا دے تاکہ میدان ہمارے جادو سے پر ہو جائے دیکھو اگر وہ جیت گیا تو یہ ریاست اسی کی ہو جائے گی اور اگر ہم غالب آ گئے تو تم سن چکے ہو کہ بادشاہ ہمیں اپنا مقرب اور دربار خاص کے اراکین بنا دے گا ۔
60۔ 1 یعنی مختلف شہروں سے ماہر جادو گروں کو جمع کر کے اجتماع گاہ میں آگیا۔
[٤٢] یہ مقابلہ صرف جادوگروں کی ہار جیت کا مسئلہ نہ تھا بلکہ دراصل یہ مسئلہ فرعون کے برسراقتدار رہنے یا نہ رہنے کا تھا۔ لہذا ملک بھر کے ہر جادوگروں کو اکٹھا کرنے کے لئے اس نے اپنے مقدور بھر جتن کر لئے اور وعدہ کے دن فرعون ان جادوگروں اور اپنے لاؤ لشکر سمیت میدان مقابلہ میں بروقت پہنچ گیا۔ اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلم اور ان کا بھائی بھی بروقت پہنچ گئے۔
فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ ۔۔ : یعنی فرعون نے مجلس برخاست کردی اور پھر اپنے سرداروں سے مشورے اور سب کے اتفاق کے بعد پوری کوشش سے ایک طرف تو سلطنت کے ہر علاقے سے ماہر جادوگر جمع کرلیے اور انھیں انعام و اکرام اور قرب شاہی کا وعدہ کر کے مقابلے کے لیے تیار کیا اور دوسری طرف عام لوگوں کو دیکھنے کی ترغیب دی کہ مقابلہ دیکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوں۔ پھر فرعون سب کچھ ساتھ لے کر میدان مقابلہ میں آگیا۔ دیکھیے سورة اعراف (١٠٩، ١١٠) ، شعراء (٣٤، ٣٥) اور نازعات (٢٢، ٢٣) ۔
خلاصہ تفسیر - غرض (یہ سن کر) فرعون (دربار سے اپنی جگہ) لوٹ گیا پھر اپنا مکر کا (یعنی جادو کا) سامان جمع کرنا شروع کیا پھر (سب کو لے کر اس میدان میں جہاں وعدہ ٹھہرا تھا، آیا (اس وقت) موسیٰ (علیہ السلام) نے ان (جادوگر) لوگوں سے فرمایا کہ ارے کمبختی مارو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا مت کرو (کہ اس کے وجود یا توحید کا انکار کرنے لگو یا اس کے ظاہر کئے ہوئے معجزات کو سحر بتلانے لگو) کبھی خدا تعالیٰ تم کو کسی قسم کی سزا سے بالکل نیست و نابود ہی کر دے اور جو جھوٹ باندھتا ہے وہ (آخر کو) ناکام رہتا ہے پس جادوگر (یہ بات سن کر ان دونوں حضرات کے بارہ میں) باہم اپنی رائے میں اختلاف کرنے لگے اور خفیہ گفتگو کرتے رہے (بالاخر سب متفق ہوکر) کہنے لگے کہ بیشک یہ دونوں جادوگر ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ اپنے جادو (کے زور) سے تم کو تمہاری سر زمین سے نکال باہر کریں اور تمہارے عمدہ (مذہبی) طریقہ کا دفتر ہی اٹھادیں تو اب تم مل کر اپنی تدبیر کا انتظام کرو اور صفیں آراستہ کر کے (مقابلہ میں) آؤ اور آج وہی کامیاب ہے جو غالب ہو (پھر) انہوں نے ( موسیٰ (علیہ السلام) سے) کہا کہ اے موسیٰ (کہئے) آپ (اپنا عصا) پہلے ڈالیں گے یا ہم پہلے ڈالنے والے بنیں آپ نے (نہایت بےپروائی سے) فرمایا نہیں تم ہی پہلے ڈالو (چنانچہ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور نظر بندی کردی) پس یکایک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کی نظر بندی سے موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں ایسی معلوم ہونے لگیں جیسے (سانپ کی طرح) چلتی دوڑتی ہوں سو موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں تھوڑا سا خوف ہوا (کہ جب دیکھنے میں یہ رسیاں اور لاٹھیاں بھی سانپ معلوم ہوتی ہیں اور میرا عصا بھی بہت سے بہت سانپ بن جاوے گا تو دیکھنے والے تو دونوں چیزوں کو ایک ہی سا سمجھیں گے تو حق و باطل میں امتیاز کس طرح کریں گے اور یہ خوف باقتضائے طبع تھا ورنہ حضرت موسیٰ علیہ السلا کو یقین تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے تو اس کے تمام نشیب و فراز کا بھی انتظام کردے گا اور اپنے مرسل کی کافی مدد کرے گا اور ایسا خوف طبعی جو درجہ وسوسہ میں تھا شان کمال کے منافی نہیں الغرض جب یہ خوف ہوا اس وقت) ہم نے کہا کہ تم ڈرو نہیں تم ہی غالب رہو گے اور اس کی صورت یہ ہے کہ) یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں جو (عصا) ہے اس کو ڈال دو ، ان لوگوں نے جو کچھ (سانگ) بنایا ہے یہ (عصا) سب کو نگل جاوے گا یہ جو کچھ بنایا ہے جادوگروں کا سانگ ہے اور جادوگر کہیں جاوے (معجزے کے مقابلے میں کبھی) کامیاب نہیں ہوتا ( موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی ہوگئی کہ اب امتیاز خوب ہوسکتا ہے چناچہ انہوں نے عصا ڈالا اور واقعی وہ سب کو نگل گیا) سو جادوگروں (نے جو یہ فعل فوق السحر دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ بیشک معجزہ ہے اور فوراً ہی سب) سجدہ میں گر گئے ( اور با آواز بلند) کہا کہ ہم تو ایمان لے آئے ہارون اور موسیٰ (علیہما السلام) کے پروردگار پر، فرعون نے (یہ واقعہ دیکھ کر جادوگروں کو دھمکایا اور کہا کہ بدون اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں (یعنی میری خلاف مرضی) تم موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے واقعی (معلوم ہوتا ہے کہ) وہ (سحر میں) تمہارے بھی بڑے (اور استاذ) ہیں کہ انہوں نے تم کو سحر سکھلایا ہے (اور استاد شاگردوں نے سازش کر کے جنگ زرگری کی ہے تاکہ تم کو ریاست حاصل ہو) سو (اب حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے) میں تم سب کے ہاتھ پاؤں کٹواتا ہوں ایک طرف کا ہاتھ اور ایک طرف کا پاؤں اور تم سب کو کھجوروں کے درختوں پر ٹنگواتا ہوں (تاکہ سب دیکھ کر عبرت حاصل کریں) اور یہ بھی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ ہم دونوں میں (یعنی مجھ میں اور رب موسیٰ میں) کس کا عذب زیادہ سخت اور دیرپا ہے ان لوگوں نے صاف جواب دے دیا کہ ہم تجھ کو کبھی ترجیح نہ دیں گے بمقابلہ ان دلائل کے جو ہم کو ملے ہیں اور بمقابلہ اس ذات کے جس نے ہم کو پیدا کیا ہے تجھ کو جو کچھ کرنا ہو (دل کھول کر کر ڈال تو بجز اس کے کہ اس دنیوی زندگانی میں کچھ کرلے اور کر ہی کیا سکتا ہے بس ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکے تاکہ ہمارے (پچھلے) گناہ (کسر وغیرہ) معاف کردیں اور تو نے جو جادو (کے مقدمہ) میں ہم پر زور ڈالا اس کو بھی معاف کردیں اور اللہ تعالیٰ (با اعتبار ذات وصفات کے بھی تجھ سے) بدرجہا اچھے ہیں اور (با اعتبار ثواب و عقاب کے بھی) زیادہ بقا والے ہیں (اور تجھ کو نہ خیریت نصیب ہے نہ بقا تو تیرا کیا انعام جس کا وعدہ ہم سے کیا تھا اور کیا عذاب جس کی اب وعید سناتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جس ثواب اور عذاب کو بقا ہے اس کا قانون یہ ہے کہ) جو شخص (بغاوت کا) مجرم ہو کر (یعنی کافر ہو کر) اپنے رب کے پاس حاضر ہوگا اس کے لئے دوزخ (مقرر) ہے اس میں نہ مرے ہی گا اور نہ جئے ہی گا ( نہ مرنا تو ظاہر ہے اور نہ جینا یہ کہ جینے کا آرام نہ ہوگا) اور جو شخص اس کے پاس مومن ہو کر حاضر ہوگا جس نے نیک کام بھی کئے ہوں سو ایسوں کے لئے بڑے اونچے درجے ہیں یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے اور جو شخص (کفر و معصیت سے) پاک ہو اس کا یہی انعام ہے (پس اس قانون کے موافق ہم نے کفر کو چھوڑ کر ایمان اختیار کرلیا۔ )- معارف ومسائل - فَـجَمَعَ كَيْدَهٗ ، فرعون نے اپنے کید یعنی مقابلہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تدبیر میں ساحروں اور ان کے آلات کو جمع کرلیا۔ حضرت ابن عباس سے ان ساحروں کی تعداد بہتر منقول ہے اور دوسرے اقوال ان کی تعداد میں بہت مختلف ہیں، چار سو سے لے کر نو لاکھ تک ان کی تعداد بتلائی گئی ہے اور یہ سب اپنے ایک رئیس شمعون کے ماتحت اس کے حکم کے مطابق کام کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ ان کا رئیس ایک اندھا آدمی تھا (قرطبی) واللہ اعلم
فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَـجَمَعَ كَيْدَہٗ ثُمَّ اَتٰى ٦٠- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔
(٦٠) غرض کہ یہ سن کر فرعون دربار سے اپنی جگہ چلا گیا پھر اپنا مکر یعنی جادو کا سامان اور جادوگروں کو جمع کرنا شروع کیا اور جن جادوگروں کو فرعون نے جمع کیا وہ بہتر (٧٢) تھے۔
آیت ٦٠ (فَتَوَلّٰی فِرْعَوْنُ ) ” - جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ طے ہوگیا تو فرعون نے اپنی پوری توجہ اس کے لیے تیاری کرنے پر مرکوز کردی۔ - (فَجَمَعَ کَیْدَہٗ ثُمَّ اَتٰی ) ” - اس نے اپنی پوری مملکت سے ماہر جادو گروں کو اکٹھا کیا اور یوں پوری تیاری کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے کے لیے میدان میں اترا تاکہ ثابت کرسکے کہ آپ ( علیہ السلام) کا دعویٰ باطل ہے۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :32 فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہ میں اس مقابلے کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اسی کے فیصلے پر اپنی قسمت کا فیصلہ معلق سمجھ رہے تھے ۔ تمام ملک میں آدمی دوڑا دیے گئے کہ جہاں جہاں کوئی ماہر جادوگر موجود ہو اسے لے آئیں ۔ اسی طرح عوام کو بھی جمع کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوں اور اپنی آنکھوں سے جادو کے کمالات دیکھ کر عصائے موسیٰ کے رعب سے محفوظ ہو جائیں ۔ کھلم کھلا کہا جانے لگا کہ ہمارے دین کا انحصار اب جادوگروں کے کرتب پر ہے ۔ وہ جیتیں تو ہمارا دین بچے گا ، ورنہ موسیٰ کا دین چھا کر رہے گا ( ملاحظہ ہو سورۂ ہو سورۂ شعراء رکوع 3 ) ۔ اس مقام پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مصر کے شاہی خاندان اور طبقۂ امراء کا مذہب عوام کے مذہب سے کافی مختلف تھا ۔ دونوں کے دیوتا اور مندر الگ الگ تھے ، مذہبی مراسم بھی یکساں نہ تھے ، اور زندگی بعد موت کے معاملہ میں بھی ، جس کو مصر میں بہت بڑی اہمیت حاصل تھی ، دونوں کے عملی طریقے اور نظری انجام میں بہت بڑا امتیاز پایا جاتا تھا ( ملاحظہ ہو کی صفحہ 31 ۔ 32 ) ۔ علاوہ بریں مصر میں اس سے پہلے جو مذہبی انقلابات رونما ہوئے تھے ان کی بدولت وہاں کی آبادی میں متعدد ایسے عناصر پیدا ہو چکے تھے جو ایک مشرکانہ مذہب کی بہ نوبت ایک توحیدی مذہب کو ترجیح دیتے تھے یا دے سکتے تھے ۔ مثلاً خود بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب لوگ آبادی کا کم از کم دس فی صدی حصہ تھے ۔ اس کے علاوہ اس مذہبی انقلاب کو ابھی پورے ڈیڑھ سو برس بھی نہ گزرے تھے جو فرعون اَمیں وفس یا اَخناتون ( 1377 ق م 1360 ق م ) نے حکومت کے زور سے برپا کیا تھا ، جس میں تمام معبودوں کو ختم کر کے صرف ایک معبود آتون باقی رکھا گیا تھا ۔ اگرچہ اس انقلاب کو بعد میں حکومت ہی کے زور سے الٹ دیا گیا ، مگر کچھ نہ کچھ تو اپنے اثرات وہ بھی چھوڑ گیا تھا ۔ ان حالات کو نگاہ میں رکھا جائے تو فرعون کی وہ گھبراہٹ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو اس موقع پر اسے لاحق تھی ۔