Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 جب فرعون اجتماع گاہ میں جادو گروں کو مقابلہ کی ترغیب دے رہا تھا اور ان کو انعامات اور قرب خصوصی سے نواز نے کا اظہار کر رہا تھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی مقابلے سے پہلے انھیں وعظ کیا اور ان کے موجودہ رویے پر انھیں عذاب الٰہی سے ڈرایا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] مقابلہ سے پہلے فرعون کو موسیٰ کی تنبیہ :۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اکابرین قوم فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بار پھر تنبیہ کی اور فرمایا : شامت کے مارو اب بھی سمجھ جاؤ اور معجزہ کو جادو نہ بتلاؤ۔ جب تم حقیقت کو پوری طرح سمجھ چکے ہو تو دوسروں کی آنکھوں میں دھول نہ ڈالو۔ اور جو شخص حق کو سمجھ لینے کے بعد اس کا انکار کرے گا اللہ اسے اپنے عذاب سے دوچار کردے گا۔ تمہارا جھوٹا پروپیگنڈا جھوٹ ہی ثابت ہوگا اور جھوٹ کبھی تادیر چل نہیں سکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا : ” وَيْلَكُمْ “ ” تمہاری بربادی ہو “ نصیحت کرتے ہوئے سختی کا لفظ بھی استعمال ہوسکتا ہے اور محبت اور بےتکلفی کا بھی، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبصیر (رض) کو فرمایا تھا : ( وَیْلُ أُمِّہِ مِسْعَرَ حَرْبٍ ) [ بخاری، الشروط، باب الشروط في الجھاد۔۔ : ٢٧٣١، ٢٧٣٢]” اس کی ماں مرے یہ تو لڑائی بھڑکانے والا ہے۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے فرعون کو نصیحت کی تھی، اب اس کے امراء اور جادوگروں کو بھی نصیحت کرنا ضروری تھا، چناچہ انھیں سمجھایا بھی اور ڈرایا بھی۔- فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ : ” أَسْحَتَ یُسْحِتُ “ أَیْ ” اِسْتَأْصَلَ “ جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔ ” عذابٍ “ کی تنوین تنکیر کے لیے ہو تو ” کسی عذاب کے ساتھ “ ترجمہ ہوگا اور تعظیم کے لیے ہو تو ” بڑے عذاب کے ساتھ “ ہوگا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

موسیٰ (علیہ السلام) کا جادوگروں کو پیغمبرانہ خطاب :- جادو کا مقابلہ معجزات سے کرنے سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کو ہمدردانہ نصیحت آمیز چند کلمات کہہ کر اللہ کے عذاب سے ڈرایا وہ الفاظ یہ تھے وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ ۚ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى یعنی تمہاری ہلاکت سامنے آ چکی ہے، اللہ تعالیٰ پر افتراء اور بہتان نہ لگاؤ کہ اس کے ساتھ خدائی میں فرعون یا کوئی اور شریک ہے، اگر تم ایسا کرو گے تو وہ تم کو عذاب میں پیس ڈالے گا اور تمہاری جڑی بنیاد اکھاڑ دے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھتا ہے وہ انجام کار ناکام اور محروم ہوتا ہے۔- ظاہر ہے کہ فرعون کی طاغوتی طاقت و قوت اور چشم و خدم کے سہارے جو لوگ مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آ چکے تھے ان واعظانہ کلمات کا ان پر کوئی اثر ہونا بہت ہی بعید تھا مگر انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے متبعین کیساتھ حق کی ایک مخفی طاقت و شوکت ہوتی ہے ان کے سادے الفاظ بھی سخت سے سخت دلوں پر تیر و نشتر کا کام کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے یہ جملے سن کر ساحروں کی صفوں میں ایک زلزلہ پڑگیا اور آپس میں اختلاف ہونے لگا کہ یہ کلمات کوئی جادوگر نہیں کہہ سکتا ہی تو اللہ ہی کی طرف سے معلوم ہوتے ہیں اس لئے بعض نے کہا کہ ان کا مقابلہ کرنا مناسب نہیں اور بعض اپنی بات پر جمے رہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَہُمْ مُّوْسٰى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَي اللہِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ۝ ٠ۚ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى۝ ٦١- ويل - قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر .- ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2]- ( و ی ل ) الویل - اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے مونں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ان پر افسوس ہے اس لئئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- سحت - السُّحْتُ : القشر الذي يستأصل، قال تعالی: فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذابٍ. [ طه 61] ، وقرئ :- فَيَسْحِتَكُمْ يقال : سَحَتَهُ وأَسْحَتَهُ ، ومنه : السَّحْتُ والسُّحْتُ للمحظور الذي يلزم صاحبه العار، كأنه يسحت دينه ومروء ته، قال تعالی: أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ [ المائدة 42] ، أي : لما يسحت دينهم . وقال عليه السلام : «كلّ لحم نبت من سحت فالنّار أولی به» وسمّي الرّشوة سحتا لذلک، وروي «كسب الحجّام سحت» فهذا لکونه سَاحِتاً للمروءة لا للدّين، ألا تری أنه أذن عليه السلام في إعلافه الناضح وإطعامه المماليك - ( س ح ت ) السحت - ۔ اصل میں اس چھلکے کو کہتے ہیں جو پوری طرح اتار لیا جائے ( اور اس سے ہلاک کردینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ) چناچہ قرآن میں ہے :َفَيُسْحِتَكُمْ بِعَذابٍ «1» . [ طه 61] اور نہ وہ تم ( پر کوئی ) عذاب ( نازل کر کے اس ) سے تم کو ملیامیٹ کر دے گا ۔ اس میں ایک قرات ( فتح یاء کے ساتھ ) بھی ہے اور سحتہ ( ض ) و اسحتہ ( افعال کے ایک ہی معنی آتے ہیں یعنی بیخ کنی اور استیصال کرنا ۔ پھر اسی سے سحت کا لفظ ہر اس ممنوع چیز پر بولا جانے لگا ہے جو باعث عار ہو کیونکہ وہ انسان کے دین اور مروت کی جڑ کاٹ دیتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ [ المائدة 42] اور مال حرام کو کھاتے چلے جاتے ہیں ۔ یعنی وہ چیز جو ان کے دین کا ناس کرنے والی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (171) کل لحم نبت من سحت فالنار اولی بہ ۔۔۔۔ جو گوشت مال حرام کے کھانے سے پیدا ہو وہ آگ کے لائق ہے اور اسی سے رشوت کو سحت کہا گیا ہے (172) ایک روایت میں ہے (173) کہ حجام ( پچھنا لگانے والے ) کی کمائی " سحت " ہے ۔ تو یہاں سحت بمعنی حرام نہیں ہے جو دین کو برباد کرنے والا ہو بلکہ سحت بمعنی مکروہ ہے یعنی ایسی کمائی مروت کے خلاف ہے کیونکہ آنحضرت نے ایسی کمائی سے اونٹنی کو چارہ ڈالنے اور غلاموں کو کھانے کھلانے کا حکم دیا ہے ۔- خاب - الخَيْبَة : فوت الطلب، قال : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] ، وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه 61] ، وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس 10] .- ( خ ی ب ) خاب - ( ض ) کے معنی ناکام ہونے اور مقصد فوت ہوجانے کے ہیں : قرآن میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہوگیا ۔ وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه 61] اور جس نے افتر ا کیا وہ نامراد رہا ۔ وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس 10] اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦١) موسیٰ (علیہ السلام) نے ان جادوگروں سے فرمایا ارے لعنتیو اللہ تعالیٰ پر بہتان مت لگاؤ کہیں اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے عذاب سے ہلاک ہی نہ کر دے۔- اور جو اللہ تعالیٰ پر بہتان لگاتا ہے وہ ناکام رہتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (قَالَ لَہُمْ مُّوْسٰی وَیْلَکُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسْحِتَکُمْ بِعَذَابٍج ) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آخری حجت کے طور پر انہیں خبردار کیا کہ دیکھو تم لوگ اللہ پر افترا بازی نہ کرو ‘ میں جو کچھ پیش کر رہا ہوں یہ جادو نہیں ہے ‘ یہ اللہ کا عطا کردہ معجزہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :33 یہ خطاب عوام سے نہ تھا جنہیں ابھی حضرت موسیٰ کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ معجزہ دکھاتے ہیں یا جادو ، بلکہ خطاب فرعون اور اس کے درباریوں سے تھا جو انہیں جادوگر قرار دے رہے تھے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :34 یعنی اس کے معجزے کو جادو اور اس کے پیغمبر کو ساحر کذاب نہ قرار دو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

23: یعنی کفر کی راہ اختیار نہ کرو، کیونکہ کفر کا ہر باطل عقیدہ اﷲ تعالیٰ پر بہتان باندھنے کے مرادف ہے