Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نتیجہ موسیٰ علیہ السلام کی صداقت کا گواہ بنا ۔ اللہ کی شان دیکھئے چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اب راہ راست پر آجاتا ۔ جن کو اس مقابلے کہ لئے بلوایا تھا وہ عام مجمع میں ہارے ۔ انھوں نے اپنی ہار مان لی اپنے کرتوت کو جادو اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ معجزہ تسلیم کرلیا ۔ خود ایمان لے آئے جو مقابلے کے لئے بلوائے گئے تھے ۔ مجمع عام میں سب کے سامنے بےجھجک انھوں نے دین حق قبول کر لیا ۔ لیکن یہ اپنی شیطانیت میں اور بڑھ گیا اور اپنی قوت وطاقت دکھانے لگا لیکن بھلاحق والے مادی طاقتوں کو سمجھتے ہی کیا ہیں ؟ پہلے تو جادوگروں کے اس مسلم گروہ سے کہنے لگا کہ میری اجازت کے بغیر تم اس پر ایمان کیوں لائے ؟ پھر ایسا بہتان باندھا جس کا جھوٹ ہونا بالکل واضح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو تمہارے استاد ہیں انہی سے تم نے جادو سیکھا ہے ۔ تم سب آپس میں ایک ہی ہو مشورہ کرکے ہمیں تاراج کرنے کے لئے تم نے پہلے انہیں بھیجا پھر اس کے مقابلے میں خود آئے ہو اور اپنے اندورنی سمجھوتے کے مطابق سامنے ہار گئے ہو اور اسے جتا دیا اور پھر اس کا دین قبول کرلیا تاکہ تمہاری دیکھا دیکھی میری رعایا بھی چکر میں پھنس جائے مگر تمہیں اپنی اس ساز باز کا انجام بھی معلوم ہو جائے گا ۔ میں الٹی سیدھی طرف سے تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر کجھور کے تنوں پر سولی دوں گا اور اس بری طرح تمہاری جان لوں گا کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو ۔ اسی بادشاہ نے سب سے پہلے یہ سزا دی ہے ۔ تم جو اپنے آپکو ہدایت پر اور مجھے اور میری قوم کو گمراہی پرسمجھتے ہو اس کا حال تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ دائمی عذاب کس پر آتا ہے اس دھمکی کا ان دلوں پرالٹا اثر ہوا ۔ وہ اپنے ایمان میں کامل بن گئے اور نہایت بےپرواہی سے جواب دیا کہ اس ہدایت ویقین کے مقابلے میں جو ہمیں اب اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے ہم تیرا مذہب کسی طرح قبول کرنے کے نہیں ۔ نہ تجھے ہم اپنے سچے خالق مالک کے سامنے کوئی چیزسمجھیں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ قسم ہو یعنی اس اللہ کی قسم جس نے ہمیں اولاً پیدا کیا ہے ہم ان واضح دلیلوں پر تیری گمراہی کو ترجیح دے ہی نہیں سکتے خواہ تو ہمارے ساتھ کچھ ہی کرلے مستحق عبادت وہ ہے جس نے ہمیں بنایا نہ کہ تو ، جو خود اسی کا بنایا ہوا ہے ۔ تجھے جو کرنا ہو اس میں کمی نہ کر تو تو ہمیں اسی وقت تک سزا دے سکتا ہے جب تک ہم اس دنیا کی حیات کی قید میں ہیں ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد ابدی راحت اور غیر فانی خوشی ومسرت نصیب ہو گی ۔ ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے اگلے قصوروں سے درگزر فرمالے گا بالخصوص یہ قصور جو ہم سے اللہ کے سچے نبی کے مقابلے پر جادو بازی کرنے کا سرزد ہوا ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس بچے لے کر انہیں جادوگروں کے سپرد کیا تھا کہ انہیں جادو کی پوری تعلیم دو اب یہ لڑکے یہ مقولہ کہہ رہے ہیں کہ تو نے ہم سے جبراًجادوگری کی خدمت لی ۔ حضرت عبدالرحمن بن زید رحمتہ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے ۔ پھر فرمایا ہمارے لئے بہ نسبت تیرے اللہ بہت بہتر ہے اور دائمی ثواب دینے والا ہے ۔ نہ ہمیں تیری سزاؤں سے ڈر نہ تیرے انعام کی لالچ ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے ۔ اسی کے عذاب دائمی ہیں اور سخت خطرناک ہیں اگر اس کی نافرمانی کی جائے ۔ پس فرعون نے بھی ان کے ساتھ یہ کیا سب کے ہاتھ پاؤں الٹی سیدھی طرف سے کاٹ کرسولی پر چڑھا دیا وہ جماعت جو سورج کے نکلنے کے وقت کافر تھی وہی جماعت سورج ڈوبنے سے پہلے مومن اور شہید تھی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 مِنْ خِلَافِ (الٹے سیدھے) کا مطلب ہے سیدھا ہاتھ تو بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ تو سیدھا پاؤں

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٠] فرعون نے ایمان لانے والے جاوگروں کو اتنی سخت دھمکی کیوں دی ؟ ایک تو فرعون اور اس کے حواری میدان میں مقابلہ میں مات کھاچکے تھے جسے لوگوں کی ایک کثیر تعداد بچشم خود دیکھ لیا تھا۔ دوسرے یہ ستم ہوا کہ جن جادوگروں کے بل بوتے یہ مقابلہ رچایا گیا تھا وہ کوئی عذر معذرت کرنے کے بجائے خود ایمان لے آئے۔ تو اس دوہری شکست نے فرعون کو سیخ پا کردیا۔ اور لوگوں کو مزید کچھ عرصہ کے لئے الو بنائے رکھنے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت سے بچائے رکھنے کے لئے یہ تدبیر سوچی کہ ان جادوگروں کو ہی غدار اور جاسوس قرار دیا جائے اور اعلان کردیا کہ فی الواقعہ یہ جادوگر موسیٰ کے شاگرد معلوم ہوتے ہیں اور ان دونوں کا مشن ایک ہی تھا۔ تبھی تو جادوگروں نے فورا ً گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ لہذا اے جادوگرو میں تمہیں ایسی اور ایسی سزا دوں گا جسے تمہاری نسلیں بھی یاد رکھیں گی اور تمہیں موسیٰ پر ایمان لانے کا انجام خوب معلوم ہوجائے گا۔ تم ایمان لاکر یہ سمجھ رہے ہو کہ تم ہی نجات پانے والے ہو اور دوسرے لوگ جو موسیٰ پر ایمان نہیں لائے وہ ابدی عذاب میں میں مبتلا رہیں گے سو ابھی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کا عذاب سخت اور تادیر رہنے والا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّهٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۚ : یعنی یہ تمہارا ” گرو “ ہے اور تم اس کے چیلے ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم آپس میں طے کرکے آئے ہو کہ پہلے چیلے ایک شعبدہ دکھائیں گے، پھر وہ سب کے سامنے ” گرو “ سے شکست کھا لیں گے، تاکہ دیکھنے والے ان کے ” گرو “ کا کہنا مان لیں اور اس کے معتقد بن جائیں۔ فرعون نے یہ شبہ اسی وقت پیدا کردیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام بھی ان کے متبع ہوجائیں۔ - فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ ۔۔ : شبہ پیدا کرنے کے بعد اوپر سے دھمکی بھی دے دی، تاکہ ان کو ایمان پر قائم رہنے سے پھیر دیا جائے اور دوسرے لوگ بھی مرعوب ہوجائیں۔- فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ : ” النَّخْلِ “ ” جِذْعٌ“ (جیم کے کسرہ کے ساتھ) کی جمع ہے ” تنے۔ “ سولی دینے کے لیے اونچے سے اونچا میسر کھمبا اس وقت کھجور کا تنا تھا۔ ظاہر ہے کہ سولی تنے کے اوپر دی جاتی ہے، مگر یہاں ” فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ “ (کھجوروں کے تنوں میں) فرمایا۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ ” فِيْ “ ” عَلٰی “ کے معنی میں ہے، مگر ” فِيْ “ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ تمہیں کھجوروں کے تنوں کے اوپر لے جا کر کیلوں یا رسیوں کے ساتھ تنوں میں پیوست کر دوں گا اور اس طرح تم عبرت ناک انجام کو پہنچو گے۔ سولی کی تفصیل سورة اعراف (١١٥ تا ١٢٦) میں دیکھیں۔ - وَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰي : یعنی وہ عذاب جس سے موسیٰ ( (علیہ السلام) ) نے تمہیں مقابلے سے پہلے ڈرایا تھا کہ ” وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ “ وہ زیادہ سخت اور دیرپا ہے یا میرا عذاب ؟ فرعون حقیقت حال سے واقف تھا، مگر اپنی شکست فاش پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ دھمکیاں دے رہا تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ ، فرعون کی رسوائی اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان مجمع کے سامنے واضح کردی تو بوکھلا کر اول تو ساحروں کو یہ کہنے لگا کہ بغیر میری اجازت کے تم کیسے ان پر ایمان لائے۔ گویا لوگوں کو یہ بتلانا تھا کہ میری اجازت کے بغیر ان جادوگروں کا کوئی قول فعل معتبر نہیں مگر ظاہر ہے کہ اس کھلے ہوئے معجزہ کے بعد کسی کی اجازت کی ضرورت کسی عاقل انسان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی، اس لئے اب جادوگروں پر اس سازش کا الزام لگایا کہ اب معلوم ہوا کہ تم سب موسیٰ کے شاگرد ہو اسی جادوگر نے تمہیں جادو سکھایا ہے اور تم نے سازش کر کے اس کے سامنے اپنی ہار مان لی ہے۔- فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ، اب جادوگروں کو سخت سزا سے ڈرایا کہ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں گے جس کی صورت یہ ہوگی کہ داہنا ہاتھ کٹے گا تو بایاں پاؤں کاٹا جائے گا۔ یہ صورت یا تو اس لئے تجویز کی کہ فرعونی قانون میں سزا کا یہی طریقہ رائج ہوگا یا اس لئے کہ اس صورت میں انسان ایک عبرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ یعنی ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھر تمہیں کھجور کے درختوں پر سولی دی جاوے گی کہ تم ان پر اسی طرح لٹکے رہو گے یہاں تک کہ بھوک اور پیاس سے مر جاؤ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ۝ ٠ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ۝ ٠ۡوَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰي۝ ٧١- وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - صلب - والصَّلَبُ والاصْطِلَابُ : استخراج الودک من العظم، والصَّلْبُ الذي هو تعلیق الإنسان للقتل، قيل : هو شدّ صُلْبِهِ علی خشب، وقیل : إنما هو من صَلْبِ الوَدَكِ. قال تعالی: وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء 157] ، وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء 49] والصَّلِيبُ : أصله الخشب الذي يُصْلَبُ عليه، والصَّلِيبُ : الذي يتقرّب به النّصاری، هو لکونه علی هيئة الخشب الّذي زعموا أنه صُلِبَ عليه عيسى عليه السلام، - ( ص ل ب ) الصلب - الصلب والاصطلاب کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا کے ہیں اور صلب جس کے معنی قتل کرنے کے لئے لٹکا دینا کے ہیں ۔ بقول بعض اسے صلب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اس شخص کی پیٹھ لکڑی کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صلب الودک سے ہے جس کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا گے ہیں قرآن میں ہے : وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء 157] اور انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ سول پر چڑ ھایا ۔ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء 49] اور کھجور کے تنوں پر سولی چڑھوادوں گا ۔- ۔ الصلیب - اصل میں سوئی کی لکڑی کو کہتے ہیں نیز صلیب اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جو عیسائی بطور عبادت کے گلے میں اس خیال پر باندھ لیتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس پر سولی لٹکایا گیا تھا ۔ اور جس کپڑے پر صلیب کے نشانات بنے ہوئے ہوں اسے مصلب کہاجاتا ہے ۔ صالب سخت بخار جو پیٹھ کو چور کردے یا پسینہ کے ذریعہ انسان کی چربی نکال لائے ۔ - جذع - الجِذْعُ جمعه جُذُوع، قال : فِي جُذُوعِ النَّخْلِ [ طه 71] .- جَذَعْتُهُ : قطعته قطع الجذع، والجَذَع من الإبل : ما أتت لها خمس سنین، ومن الشاة : ما تمّت له سنة . ويقال للدهم الإزالة : الجذع، تشبيها بالجذع من الحیوان .- ( ج ذ ع ) الجذع - درخت کا تنہ ۔ ج جذوع قرآن میں :۔ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ [ طه 71] جذعہ ( ف ) شاخ یا تنے کی طرح کا ٹ ڈالنا ۔ الجذع ( من الابل ) شتر بسال پنجم ( من الشا ۃ ) گو سپند بسال دوم اور چوپایوں کے ساتھ تشبیہ دے کر زمانہ کو بھی جذع کہا جاتا ہے ( کیونکہ زمانہ بھی کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - بقي - البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء،- وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] - ( ب ق ی ) البقاء - کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧١) فرعون نے یہ دیکھ کر ان کو دھمکایا کہ میری اجازت کے بغیر تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے موسیٰ (علیہ السلام) تو جادو میں تمہارے استاد ہیں، میں ابھی تم سب کا داہنا ہاتھ اور بایاں پیر کٹواتا ہوں اور تم سب کو کھجور کے درختوں پر ٹنگواتا ہوں اور یہ بھی تمہیں ابھی معلوم ہوجاتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) کے رب کا عذاب سخت اور دیرپا ہے یا میرا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ ط) ” - فرعون نے مخصوص شہنشاہانہ انداز میں جادوگروں کو ڈانٹ پلائی کہ تمہاری یہ جرأت تم لوگوں نے مابدولت کی اجازت کے بغیر موسیٰ کے رب پر ایمان لانے کا اعلان بھی کردیا حالانکہ میری اجازت کے بغیر تو اس کے بارے میں تمہیں زبان بھی نہیں کھولنا چاہیے تھی۔ - (اِنَّہٗ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ ج) ” - اب فرعون کو ایک اور چال سوجھی۔ جس طرح عزیز مصر کی بیوی نے اپنے خاوند کو سامنے دروازے پر دیکھ کر یکدم پینترا بدلا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ یوسف اس کی آبرو کے درپے ہوا تھا ‘ اسی طرح فرعون نے جادوگروں کو مخاطب ہو کر کہا کہ تم لوگوں نے جو مقابلہ کیا ہے یہ محض دکھاوا تھا۔ موسیٰ دراصل تمہارا استاد ہے ‘ تم لوگوں نے اسی سے جادو سیکھ رکھا ہے۔ اندر سے تم لوگ آپس میں ملے ہوئے ہو۔ تمہاری یہ شکست تم لوگوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے اور اس طرح تم لوگوں نے مل ملا کر ہمارے خلاف ایک بہت بڑی سازش کی ہے۔ چناچہ اس نے گرجتے ہوئے جادوگروں کو دھمکی دی : - (وَلَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰی ) ” - تم لوگوں کو میرے اور موسیٰ کے اختیار و مرتبے کا فرق بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کون زیادہ سخت سزا دے سکتا ہے اور کس کو بقاء و دوام حاصل ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :45 سورہ اعراف میں الفاظ یہ ہیں اِنَّ ھٰذَا الَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِجُوْا مِنْھَا اَھْلَھَا ، یہ ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے دار السلطنت میں ملی بھگت کر کے کی ہے تاکہ سلطنت سے اس کے مالکوں کو بے دخل کر دو ۔ یہاں اس قول کی مزید تفصیل یہ دی گئی ہے کہ تمہارے درمیان صرف ملی بھگت ہی نہیں ہے ، بلکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ موسیٰ تمہارا سردار اور گرو ہے ، تم نے معجزے سے شکست نہیں کھائی ہے بلکہ اپنے استاد سے جادو میں شکست کھائی ہے ، اور تم آپس میں یہ طے کر کے آئے ہو کہ اپنے استاد کا غلبہ ثابت کر کے اور اسے اس کی پیغمبری کا ثبوت بنا کر یہاں سیاسی انقلاب بر پا کر دو ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :46 یعنی ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :47 صلیب یا سولی دینے کا قدیم طریقہ یہ تھا کہ ایک لمبا شہتیر سا لیکر زمین میں گاڑ دیتے تھے ، یا کسی پرانے درخت کا تنا اس غرض کے لیے استعمال کرتے تھے ، اور اس کے اوپر کے سرے پر ایک تختہ آڑا کر کے باندھ دیتے تھے ۔ پھر مجرم کو اوپر چڑھا کر اور اس کے دونوں ہاتھ پھیلا کر آڑے تختے کے ساتھ کیلیں ٹھونک دیتے تھے ۔ اس طرح مجرم تختے کے بل لٹکا رہ جاتا تھا اور گھنٹوں سسک سسک کر جان دے دیتا تھا ۔ صلیب دیے ہوئے یہ مجرم ایک مدت تک یونہی لٹکے رہنے دیے جاتے تھے تاکہ لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر سبق حاصل کریں ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :48 یہ ہاری ہوئی بازی جیت لینے کے لئے فرعون کا آخری داؤ تھا ، وہ چاہتا تھا کہ جادوگروں کو انتہائی خوفناک سزا سے ڈرا کر ان سے یہ اقبال کرالے کہ واقعی یہ ان کی اور موسیٰ علیہ السلام کی ملی بھگت تھی اور وہ ان سے ملکر سلطنت کے خلاف سازش کرچکے تھے ۔ مگر جادوگروں کے عزم و استقامت نے اس کا یہ داؤ بھی الٹ دیا ، انہوں نے اتنی ہولناک سزا برداشت کرنے کے لئے تیار ہوکر دنیا بھر کو یہ یقین دلا دیا کہ سازش کا الزام محض بگڑی ہوئی بات بنانے کے لئے ایک بے شرمانہ سیاسی چال کے طور پر گھرٓ گیا ہے ، اور اصل حقیقت یہی ہے کہ وہ سچے دل سے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لے آئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani