[٤٩] جادوگروں کا ایمان لانا :۔ جادوگروں نے غالبا پہلے سیدنا موسیٰ کے عصا کو اژدھا بنتے کبھی نہ دیکھا تھا۔ انھیں بس اتنا ہی بتلایا گیا تھا کہ ایک شخص جادو کے زور سے اپنی لاٹھی کو سانپ بنا دیتا ہے اور تمہیں اس کا مقابلہ کرنا ہے اور جادوگروں نے جب بچشم خود یہ دیکھ لیا کہ عصا سے بنا ہوا اژدھا ان کے بنے ہوئے سانپوں کو نگل بھی گیا ہے تو انھیں معلوم ہوگیا کہ یہ بات جادو کے علم کی بساط سے باہر ہے۔ اور موسیٰ و ہارون جادوگر نہیں بلکہ فی الواقعہ اللہ کے رسول ہیں اور جب ان پیغمبروں نے فتح کی خوشی میں اللہ کے سامنے سجدہ شکر ادا کیا تو جادوگر بھی بےاختیار ان کے ساتھ سجدہ ریز ہوگئے اور بھری مجلس میں ان رسولوں پر اپنے ایمان لانے کا اعلان بھی کردیا ( معجزہ اور جادو کے فرق کے لئے دیکھئے سورة اعراف کی آیت نمبر ١١٣ کا حاشیہ)
فَاُلْقِيَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ ہٰرُوْنَ وَمُوْسٰى ٧٠- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - هرن - هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .
(٧٠) غرض کہ انہوں نے عصا ڈالا اور وہ واقعی سب کو نگل گیا، جادوگر سب سجدہ میں گرگئے، یعنی اس پھرتی سے سروں کو جھکایا گویا کہ گر پڑے ہوں اور باآواز بلند کہنے لگے کہ ہم تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لے آئے۔
آیت ٧٠ (فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا) ” - اس نکتے کی وضاحت سورة الاعراف کے مطالعہ کے دوران کی جا چکی ہے کہ آخر کیا وجہ تھی جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فتح کے بعد جادو گر تو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگئے ‘ لیکن دوسری طرف نہ فرعون پر اس کا کچھ اثر ہوا اور نہ ہی اس کے درباریوں سمیت دوسرے لوگوں پر۔ دراصل فرعون اور اس کے درباریوں نے تو یہی سمجھا کہ یہ جادوگروں کا آپس میں مقابلہ تھا جس میں بڑے جادوگر نے چھوٹے جادوگروں کو مات دے دی۔ جبکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابل جادو گر جو اپنے فن کے ماہر تھے وہ اپنے کمال فن کی انتہا سے بھی آگاہ تھے اور اس کی حدود ( ) سے بھی خوب واقف تھے۔ جیسے آج ایک طبیعیات دان ( ) خوب جانتا ہے کہ فزکس کے میدان میں اب تک کیا کیا ایجادات ہوچکی ہیں اور اس کے کمالات کی رسائی کہاں تک ہے۔ چناچہ جادوگروں پر یہ حقیقت منکشف ہونے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ نہ تو ان کے مد مقابل شخصیت کوئی جادوگر ہے اور نہ ہی یہ اژدھا کسی جادوئی کرشمے کا کمال ہے چناچہ وہ بغیر حیل و حجت سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگئے اور :
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :43 یعنی جب انہوں نے عصائے موسیٰ کا کارنامہ دیکھا تو انہیں فوراً یقین آگیا کہ یہ یقیناً معجزہ ہے ، ان کے فن کی چیز ہرگز نہیں ہے ، اس لیے وہ اس طرح یکبارگی اور بے ساختہ سجدے میں گرے جیسے کسی نے اٹھا اٹھا کر ان کو گرا دیا ہو ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :44 اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں سب کو معلوم تھا کہ یہ مقابلہ کس بنیاد پر ہو رہا ہے ۔ پورے مجمع میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ تھا کہ مقابلہ موسیٰ اور جادوگروں کے کرتب کا ہو رہا ہے اور فیصلہ اس بات کا ہونا ہے کہ کس کا کرتب زبردست ہے ۔ سب یہ جانتے تھے کہ ایک طرف موسیٰ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ ، خالق زمین و آسمان کے پیغمبر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں ، اور اپنی پیغمبری کے ثبوت میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا عصا معجزے کے طور پر فی الواقع اژدہا بن جاتا ہے ۔ اور دوسری طرف جادوگروں کو برسر عام بلا کر فرعون یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عصا سے اژدہا بن جانا معجزہ نہیں ہے بلکہ محض جادو کا کرتب ہے ۔ بالفاظ دیگر ، وہاں فرعون اور جادوگر اور سارے تماشائی عوام و خواص معجزے اور جادو کے فرق سے واقف تھے ، اور امتحان اس بات کا ہو رہا تھا کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ جادو کی قسم سے ہے یا اس معجزے کی قسم سے جو رب العالمین کی قدرت کے کرشمے کے سوا اور کسی طاقت سے نہیں دکھایا جا سکتا ۔ یہ وجہ ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادو کو مغلوب ہوتے دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ ہم نے مان لیا ، موسیٰ ہم سے زیادہ با کمال ہے ، بلکہ انہیں فوراً یقین آ گیا کہ موسیٰ واقعی اللہ رب العالمین کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ پکار اٹھے کہ ہم اس خدا کو مان گئے جس کے پیغمبر کی حیثیت سے موسیٰ اور ہارون آئے ہیں ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجمع عام پر اس شکست کے کیا اثرات پڑے ہوں گے ، اور پھر پورے ملک پر اس کا کیسا زبردست اثر ہوا ہو گا ۔ فرعون نے ملک کے سب سے بڑے مرکزی میلے میں یہ مقابلہ اس امید پر کرایا تھا کہ جب مصر کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں گے کہ لاٹھی سے سانپ بنا دینا موسیٰ کا کوئی نرالا کمال نہیں ہے ، ہر جادوگر یہ کرتب دکھا لیتا ہے ، تو موسیٰ کی ہوا اکھڑ جائے گی ۔ لیکن اس کی یہ تدبیر اسی پر الٹ پڑی ، اور قریہ قریہ سے آئے ہوئے لوگوں کے سامنے خود جادوگروں ہی نے بالاتفاق اس بات کی تصدیق کر دی کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ انکے فن کی چیز نہیں ہے ، یہ فی الواقع معجزہ ہے جو صرف خدا کا پیغمبر ہی دکھا سکتا ہے ۔
25: یعنی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو اس نے ایک اژدہا بن کر جادوگروں کے بنائے ہوئے جعلی سانپوں کو ایک ایک کر کے نگل لیا۔ اس پر جادوگروں کو یقین ہوگیا کہ یہ جادو نہیں، بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ چنانچہ وہ سجدے میں گر پڑے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے ان کے لیے سجدے میں گر گئے کے بجائے سجدے میں گرا دئیے گئے۔ فرمایا ہے۔ اس میں اشارہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو معجزہ دکھلایا وہ اس درجہ مؤثر تھا کہ اس نے انہیں بے ساختہ سجدے میں گرا دیا۔