[٤٨] شعبدہ بازی کا اطلاق :۔ بس تم اتنا کام کرو کہ اس میدان میں اپنا عصا پھینک دو ۔ یہ عصا ایک بہت بڑا اژدھا بن کر ان سب نقلی اور مصنوعی سانپوں کو ہڑپ کر جائے گا اور اس میدان میں اس اژدھا کے سوا کوئی چیز نہ رہ جائے گی۔ جادوگروں کی شعبدہ بازیاں، ان کی لاٹھیاں اور رسیا کسی چیز کا وجود تک باقی نہ رہے گا۔ وجہ یہ ہے کہ بعض علماء نے تلقف ما ھنعوا کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ عصا سے بنا ہوا اژدھا جس طرف رخ کرتا اور جہاں جہاں پہنچتا وہاں سے شعبدہ کا اثر ختم ہوتا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ آخر میں جادوگروں کی وہ لاٹھیاں اور رسیاں ہی میدان میں رہ گئیں۔ جو جادوگر اپنے ساتھ لائے تھے۔ ہمارے خیال میں یہ دوسری توجیہ درست نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تلقف کا معنی نگل جانا یا نوالہ بنا لینا تو لغوی لحاظ سے درست ہے لیکن یہ لفظ باطل کرنے یا بنانے کے معنوں میں نہیں آتا۔
وَاَلْقِ مَا فِيْ يَمِيْنِكَ ، موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی خطاب ہوا کہ آپ کے ہاتھ میں جو چیز ہے اس کو ڈال دو ، مراد اس سے موسیٰ (علیہ السلام) کی عصا تھی مگر یہاں عصا کا ذکر نہیں فرمایا۔ اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ ان کے جادو کی کوئی حقیقت نہیں، اس کی پروا نہ کرو اور جو کچھ بھی تمہارے ہاتھ میں ہے ڈال دو وہ ان کے سب سانپوں کو نگل جائے گا چناچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی عصا ڈال دی وہ ایک بڑا اژدھا بن کر ان سب جادو کے سانپوں کو نگل گیا۔- فرعونی جادوگروں کا مسلمان ہو کر سجدہ میں پڑجانا :- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عصا نے اژدھا بن کر جب ان کے خیالی سانپوں کو نگل لیا تو چونکہ یہ لوگ جادو کے ماہرین تھے ان کو یقین ہوگیا کہ یہ کام جادو کے ذریعہ نہیں ہوسکتا بلکہ یہ بلاشبہ معجزہ ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ظاہر ہوتا ہے اس لئے سجدہ میں گر گئے اور اعلان کردیا کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے۔ بعض روایات حدیث میں ہے کہ ان جادوگروں نے سجدہ سے اس وقت تک سر نہیں اٹھایا جب تک کہ ان کو جنت اور دوزخ کا مشاہدہ قدرت نے نہیں کرا دیا (رواہ عبد ابن حمید وابن ابی حاتم و ابن المنذر عن عکرمہ۔ روح)
آیت ٦٩ (وَاَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْاط اِنَّمَا صَنَعُوْا کَیْدُ سٰحِرٍ ط) ” - یعنی یہ جو کچھ میدان میں سانپوں کی صورت میں نظر آ رہا ہے اس کی حقیقت کچھ نہیں ‘ محض نظر کا دھوکا ہے۔ عرف عام میں اس کیفیت کو ” نظر بندی “ کہا جاتا ہے۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :42 ہو سکتا ہے کہ معجزے سے جو اژدھا پیدا ہوا تھا وہ ان تمام لاٹھیوں اور رسیوں ہی کو نگل گیا ہو جو سانپ بنی نظر آ رہی تھیں ۔ لیکن جن الفاظ میں یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن میں اس واقعے کو بیان کیا گیا ہے ان سے بظاہر گمان یہی ہوتا ہے کہ اس نے لاٹیوں اور رسیوں کو نہیں نگلا بلکہ اس جادو کے اثر کو باطل کر دیا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آ رہی تھیں ۔ سورہ اعراف اور شعراء میں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا یَاْفِکُوْنَ ، جو جھوٹ وہ بنا رہے تھے اس کو وہ نگلے جا رہا تھا ۔ اور یہاں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا ، وہ نگل جائے گا اس چیز کو جو انہوں نے بنا رکھی ہے اب یہ ظاہر ہے کہ ان کا جھوٹ اور ان کی بناوٹ لاٹھیاں اور رسیاں نہ تھیں بلکہ وہ جادو تھا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آ رہی تھیں ۔ اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ جدھر جدھر وہ گیا لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل کر اس طرح پیچھے پھینکتا چلا گیا کہ ہر لاٹھی ، لاٹھی اور ہر رسی ، رسی بن کر پڑی رہ گئی ۔