Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 اس دہشت ناک منظر کو دیکھ کر اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خوف محسوس کیا، تو یہ ایک طبعی چیز تھی، جو کمال نبوت کے منافی ہے نہ عصمت کے۔ کیونکہ نبی بھی بشر ہی ہوتا ہے اور بشریت کے طبعی تقاضوں سے نہ وہ بالا ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے، بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) کے اندیشے اور خوف کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ (علیہ السلا م) کسی بھی لحاظ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو ہی غالب رہے گا، اس جملے سے طبعی خوف اور دیگر اندیشوں، سب کا ہی ازالہ فرما دیا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى۝ ٦٨ وَاَلْقِ مَا فِيْ يَمِيْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا۝ ٠ۭ اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ۝ ٠ۭ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى۝ ٦٩- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - يمین ( دائیں طرف)- اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ- [ الزمر 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ- [ الصافات 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] ، وعلی هذا حمل :- 477-- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين - ( ی م ن ) الیمین - کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے - لقف - لَقِفْتُ الشیء أَلْقَفُهُ ، وتَلَقَّفْتُهُ : تناولته بالحذق، سواء في ذلک تناوله بالفم أو الید .- قال : فَإِذا هِيَ تَلْقَفُ ما يَأْفِكُونَ [ الأعراف 117] .- ( ل ق ف )- لقفت الشئی الففۃ وتلقفتہ کے معنی کسی چیز کو ہوشیاری اور حذاقت سے لینا کے ہیں اور یہ منہ ہاتھ دونوں سے لینے پر بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِذا هِيَ تَلْقَفُ ما يَأْفِكُونَ [ الأعراف 117] وہ فورا جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو ( ایک ایک کرکے ) نگلنے لگا ۔- فلح - الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، - ( ف ل ح ) الفلاح - کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ - حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٨۔ ٦٩) ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم ڈرو نہیں تم ہی ان پر غالب رہو گے بایں طور کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے داہنے ہاتھ میں جو عصا ہے اسے تم زمین پر ڈال دو ، اور یہ عصا ان لوگوں نے جو کچھ لکڑیوں اور رسیوں کا سوانگ رچایا ہے سب کو نگل جائے گا، انہوں نے یہ جو کچھ بنایا ہے یہ جادوگروں کا سوانگ ہے اور جادوگر کہیں بھی جائے کبھی کامیاب نہیں ہوتا اور اللہ کے عذاب سے کبھی مامون اور محفوظ نہیں رہتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani