[٤٧] بذریعہ وحی کامیابی کی بشارت :۔ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ہے کہ جادوگروں نے بہ تبڑا جادو پیش کیا تھ۔ ہزاروں کی تعداد میں ان جادوگروں کی لاٹھیاں اور رسیاں لوگوں کے سامنے سانپوں کی طرح حرکت کر رہی تھیں اور ایسے سانپوں سے میدان مقابلہ بھر گیا تھا۔ ان سانپوں نے لوگوں کو دہشت زدہ کردیا تھا اور فرعون اور اس کے خاص درباری ان جادوگروں کے کارنامے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے اور ان کی داد دے رہے تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) خود بھی دل میں ڈرنے لگے تھے کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ اسلام کو وحی کی کہ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ بشارت بھی سنا دی کہ تم ہی کامیاب رہوگے۔
فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى، یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر یہ صورتحال دیکھ کر خوف طاری ہوا جس کو انہوں نے اپنے نفس میں چھپائے رکھا دوسروں پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ یہ خوف اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی جان کے لئے ہوا تو مقضائے بشریت سے ایسا ہونا نبوت کے خلاف نہیں لیکن ظاہر یہ ہے کہ خوف اپنی جان کا نہیں تھا بلکہ اس کا تھا کہ اس مجمع کے سامنے ساحروں کا غلبہ محسوس کیا گیا تو جو مقصد دعوت نبوت کا تھا وہ پورا نہ ہو سکے گا اسی لئے اس کے جواب میں حق تعالیٰ کی طرف سے جو ارشاد ہوا اس میں یہ اطمینان دلایا گیا کہ جادوگر غالب نہ آسکیں گے آپ ہی کو فتح اور غلبہ حاصل ہوگا۔ اگلی آیت میں لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى فرما کر اس خطرہ کو دور کیا گیا ہے۔
فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِہٖ خِيْفَۃً مُّوْسٰى ٦٧- وجس - الوَجْس : الصّوت الخفيّ ، والتَّوَجُّس : التّسمّع، والإيج اس : وجود ذلک في النّفس . قال تعالی: فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات 28] فالوَجْس قالوا : هو حالة تحصل من النّفس بعد الهاجس، لأنّ الهاجس مبتدأ التّفكير ، ثم يكون الواجس الخاطر .- ( و ج س ) الوجس - کے معنی صوت خفی کے ہیں اور توجس ( تفعل ) خفی آواز سننے کی کوشش کرنے کو کہتے ہیں اور ایجاس کے معنی دل میں کوئی بات محسوس کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات 28] اس وقت موسیٰ نے اپنے دل میں خوف معلوم کیا ۔ لہذا وجس اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی ( خطرہ کے بعد دل میں پیدا ہوتی ہے اور جو کسی بنتی ہے اسے ھاجس اور اس کے بعد کی حالت کو واجس کہا جاتا ہے :- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔
(٦٧) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں کچھ خوف ہوا کہ ان پر کامیابی کیسے حاصل ہوگی اس لیے کہ جو ایمان لائے گا اس کو یہ لوگ قتل کردیں گے۔
آیت ٦٧ (فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی۔ ) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خوف لاحق ہوا کہ جو معجزہ میرے پاس ہے اسی نوعیت کی چیز تو جادوگروں نے بھی دکھا دی ہے۔ چناچہ اب یہ سارے تماشائی تالیاں پیٹیں گے کہ موسیٰ کو شکست ہوگئی اور وہ جو عظیم الشان مشن اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اس کا کیا بنے گا ؟
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :41 معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جونہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے پھینکو کا لفظ نکلا ، جادوگروں نے یکبارگی اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ان کی طرف پھینک دیں اور اچانک ان کو یہ نظر آیا کہ سینکڑوں سانپ دوڑتے ہوئے ان کی طرف چلے آ رہے ہیں ۔ اس منظر سے فوری طور پر اگر حضرت موسیٰ نے ایک دہشت اپنے اندر محسوس کی ہو تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے ۔ انسان بہرحال انسان ہی ہوتا ہے ۔ خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو ، انسانیت کے تقاضے اس سے منفک نہیں ہو سکتے ۔ علاوہ بریں یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت حضرت موسیٰ کو یہ خوف لاحق ہوا ہو کہ معجزے سے اس قدر مشابہ منظر دیکھ کر عوام ضرور فتنے میں پڑ جائیں گے ۔ اس مقام پر یہ بات لائق ذکر ہے کہ قرآن یہاں اس امر کی تصدیق کر رہا ہے کہ عام انسانوں کی طرح پیغمبر بھی جادو سے متاثر ہو سکتا ہے ۔ اگرچہ جادوگر اس کی نبوت سلب کر لینے ، یا اس کے اوپر نازل ہونے والی وحی میں خلل ڈال دینے ، یا جادو کے اثر سے اس کو گمراہ کر دینے کی طاقت نہیں رکھتا ، لیکن فی الجملہ کچھ دیر کے لیے اس کے قویٰ پر ایک گونہ اثر ضرور ڈال سکتا ہے ۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی کھل جاتی ہے جو احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کا اثر ہونے کی روایات پڑھ کر نہ صرف ان روایات کی تکذیب کرتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تمام حدیثوں کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے لگتے ہیں ۔
24: یہ طبعی خوف تھا، اور اس لیے تھا کہ جو شعبدہ ان جادوگروں نے دکھایا، وہ بظاہر اس معجزے سے ملتا جلتا تھا۔ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دکھا چکے تھے۔ لہذا خوف یہ تھا کہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کو بھی کہیں جادو ہی نہ سمجھ بیٹھیں۔