66۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں پہلے اپنا کرتب دکھانے کے لئے کہا، تاکہ ان پر یہ واضح ہوجائے کہ وہ جادو گروں کی اتنی بڑی تعداد سے، جو فرعون جمع کر کے لے آیا ہے، اسی طرح ان کے ساحرانہ کمال اور کرتبوں سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ دوسرے، ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیاں، جب معجزہ الٰہی سے چشم زدن میں ہوا ہوجائیں گی، تو اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا اور جادوگر یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یہ جادو نہیں ہے، واقعی اسے اللہ کی تائید حاصل ہے کہ آن واحد میں اس کی ایک لاٹھی ہمارے سارے کرتبوں کو نگل گئی۔ 66۔ 2 قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسیاں اور لاٹھیاں حقیقتاً سانپ نہیں بنی تھیں، بلکہ جادو کے زور سے ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے مسمریزم کے ذریعے سے نظر بندی کردی جاتی ہے۔ تاہم اس کا اثر یہ ضرور ہوتا ہے کہ عارضی اور وقتی طور پر دیکھنے والوں پر ایک دہشت طاری ہوجاتی ہے، گو شے کی حقیقت تبدیل نہ ہو۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جادو کتنا بھی اونچے درجے کا ہو، وہ شے کی حقیقت تبدیل نہیں کرسکتا۔
فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ ۔۔ : ” اچانک “ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ایسی زبردست تیاری کر رکھی تھی کہ ان کے لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکنے کے بعد ان کے دوڑنے اور حرکت کرنے میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی۔ صف در صف کھڑے ہوئے جادوگروں کی بیک وقت پھینکی ہوئی لاٹھیوں اور رسیوں سے میدان دوڑتے ہوئے سانپوں کی شکل میں بدل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورة اعراف میں ان کے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے جادو کو سحر عظیم قرار دیا ہے۔ اس آیت سے لے کر آیت (٧٦) تک کی تفسیر کے لیے سورة اعراف کی آیت (١١٥) سے (١٢٦) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں چند مختصر سے اشاروں پر اکتفا کیا گیا ہے۔
جادوگروں نے اپنی بےفکری اور بےپروائی کا مظاہرہ کرنے کے لئے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی سے کہا کہ پہل آپ کرتے ہیں یا ہم کریں یعنی پہلے آپ اپنا عمل کرتے ہیں یا ہم کریں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا بَلْ اَلْقُوْا یعنی پہلے تمہیں ڈالو اور اپنے جادو کا کرشمہ دکھلاؤ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب میں بہت سی حکمتیں مضمر تھیں۔ اول تو ادب مجلس کہ جب جادوگروں نے اپنا یہ حوصلہ دکھلایا کہ مخالف کو پہلے حملہ کرنے کی اجازت دی تو اس کا شریفانہ جواب یہی تھا کہ ان کی طرف سے اس سے زیادہ حوصلے کے ساتھ ان کو ابتداء کرنے کی اجازت دی جائے۔ دوسرے یہ کہ جادگروں کا یہ کہنا اپنے اطمینان اور بےفکری کا مظاہرہ تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان ہی کو ابتداء کرنے کا موقع دے کر اپنی بےفکری اور اطمینان کا ثبوت دیدیا۔ تیسرے یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ان کے جادو کے سب کرشمے آ جاویں اس کے بعد اپنے معجزات کا اظہار کریں تو بیک وقت غلبہ حق کا ظہور واضح طور پر ہوجائے۔ جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ارشاد پر اپنا عمل شروع کردیا اور اپنی لاٹھیاں اور رسیاں جو بڑی تعداد میں تھیں بیک وقت زمین پر ڈال دیں اور وہ سب کی سب بظاہر سانپ بن کر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگیں۔- يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعونی جادوگروں کا جادو ایک قسم کی نظربندی تھی جو مسمریزم کے ذریعہ بھی ہوجاتی ہے کہ دیکھنے والوں کو یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑتی ہوئی دکھائی دینے لگیں، وہ حقیقتاً سانپ نہ بنی تھیں اور اکثر جادو اسی قسم کے ہوتے ہیں۔
قَالَ بَلْ اَلْقُوْا ٠ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِيُّہُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعٰي ٦٦- حبل - الحَبْلُ معروف، قال عزّ وجلّ : فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد 5] ، وشبّه به من حيث الهيئة حبل الورید وحبل العاتق، والحبل : المستطیل من الرّمل، واستعیر للوصل، ولكلّ ما يتوصّل به إلى شيء . قال عزّ وجلّ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] ، فحبله هو الذي معه التوصل به إليه من القرآن والعقل، وغیر ذلک ممّا إذا اعتصمت به أدّاك إلى جواره، ويقال للعهد حبل، وقوله تعالی: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران 112] ، ففيه تنبيه أنّ الکافر يحتاج إلى عهدين :- عهد من الله، وهو أن يكون من أهل کتاب أنزله اللہ تعالی، وإلّا لم يقرّ علی دينه، ولم يجعل له ذمّة .- وإلى عهد من الناس يبذلونه له . والحِبَالَة خصّت بحبل الصائد، جمعها : حَبَائِل، وروي ( النّساء حبائل الشّيطان) «2» .- والمُحْتَبِل والحَابِل : صاحب الحبالة، وقیل : وقع حابلهم علی نابلهم «3» ، والحُبْلَة : اسم لما يجعل في القلادة .- ( ج ب ل ) الحبل - ۔ کے معنی رسی کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد 5] اس کے گلے میں کھجور کی رسی ہوگی ۔ پھر چونکہ رگ بھی شکل و صورت میں رسی سے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید اور حبل العاتق کہتے ہیں اور ریت کے لمبے ٹیلے کو حبل الرمل کہاجاتا ہے ۔ استعارتا حبل کے معنی ملا دینا بھی آتے ہیں اور ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچ جائے جمل کہلاتی ہے اس لئے آیت کریمہ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑی رہنا ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن پاک اور عقل سلیم وغیرہما اشیاء ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور عہد د پیمان کو بھی حبل کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران 112] یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت کو دیکھو کے کہ ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے یہ خدا اور ( مسلمان ) لوگوں کے عہد ( معاہدہ ) میں آجائیں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کافر کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے دوقسم کے عہد و پیمان کی ضرورت ہے ایک عہد الہی اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص اہل کتاب سے ہو اور کسی سمادی کتاب پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اسے اس کے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اسے ذمہ اور امان مل سکتا ہے دوسرا عہدہ ہے جو لوگوں کی جانب سے اسے حاصل ہو ۔ الحبالۃ خاص کر صیاد کے پھندے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع حبائل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (17) النساء حبائل الشیطان کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں ۔ المحتبل والحابل پھندا لگانے والا ۔ ضرب المثل ہے :۔ وقع حابلھم علی ٰ نابلھم یعنی انہوں نے آپس میں شرد فساد پیدا کردیا یا ان کا اول آخر پر گھوم آیا ۔ الحبلۃ - عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ - خيل - والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) «1» ، فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» «2» يعني الأفراس . والأخيل :- الشّقراق «3» ، لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل،- ( خ ی ل )- الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔ - سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] .- وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر :- 234-- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد - «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات .- ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔
آیت ٦٦ (قَالَ بَلْ اَلْقُوْاج ) ” - تو یوں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کو پہل کرنے کی دعوت دے دی۔ - (فَاِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعٰی ) ” - حِبال جمع ہے حبل (رسی) کی اور عِصِیّ جمع ہے عصا (لاٹھی) کی۔ یعنی جادوگروں نے میدان میں رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں جو ان کے جادو کے اثر سے دیکھنے والوں کو سانپوں کی طرح بھاگتی دوڑتی نظر آنے لگیں۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :40 سورۂ اعراف میں بیان ہوا تھا کہ : فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُؤٓا اَعَیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ ، جب انہوں نے اپنے اَنچھر پھینکے تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا اور انہیں دہشت زدہ کر دیا ( آیت 116 ) ۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ یہ اثر صرف عام لوگوں پر ہی نہیں ہوا تھا ، خود حضرت موسیٰ بھی سحر کے اثر سے متاثر ہو گئے تھے ۔ ان کی صرف آنکھوں ہی نے یہ محسوس نہیں کیا بلکہ ان کے خیال پر بھی یہ اثر پڑا کہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں ۔