73۔ 1 دوسرا ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ہماری وہ غلطیاں بھی معاف فرما دے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں تیرے مجبور کرنے پر ہم نے عمل جادو کی صورت میں کیں۔ اس صورت میں مَا اَکْرَھْتَنَا کا عطف خَطَایانا پر ہوگا۔ 73۔ 2 یہ فرعون کے الفاظ، (وَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰي) 20 ۔ طہ :71) کا جواب ہے کہ اے فرعون تو جو سخت ترین عذاب کی ہمیں دھمکی دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمیں اجر وثواب ملے گا، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے۔
وَمَآ اَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ، جادوگروں نے اب فرعون پر یہ الزام لگایا کہ ہمیں جادوگری پر تو نے ہی مجبور کر رکھا تھا ورنہ ہم اس لغو کام کے پاس نہ جاتے، اب ہم ایمان لا کر اللہ سے اس جادو کے گناہ کی بھی معافی مانگتے ہیں۔ یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ یہ جادوگر تو خود اپنے اختیار سے مقابلہ کرنے کے لئے آئے تھے اور اس مقابلہ کی سودا بازی بھی فرعون سے کرچکے تھے کہ ہم غالب آئیں تو کیا ملے گا، پھر انکار فرعون پر یہ الزام لگانا کہ تو نے ہمیں جادو کرنے پر مجبور کر رکھا تھا یہ کیسے صحیح ہوگا ؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ جادوگر شروع میں تو شاہی انعام و اکرام کے لالچ میں مقابلہ کے لئے تیار تھے بعد میں ان کو کچھ احساس ہوا کہ ہم معجزہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس وقت فرعون نے ان کو مجبور کیا۔ دوسری وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ فرعون نے اپنے ملک میں جادوگری کی تعلیم کو جبری بنایا ہوا تھا اس لئے ہر شخص جادو سیکھنے پر مجبور تھا۔ (روح)- اہلیہ فرعون آسیہ کا انجام خیر :- تفسیر قرطبی میں ہے کہ حق و باطل کے اس معرکہ کے وقت فرعون کی بیوی برابر خبر رکھتی رہی کہ انجام کیا ہوا۔ جب اس کو یہ بتلایا گیا کہ موسیٰ و ہارون غالب آگئے تو فوراً اس نے اعلان کردیا کہ میں بھی رب موسیٰ و ہارون پر ایمان لے آئی۔ فرعون کو اپنے گھر کی خبر لگی تو حکم دیا کہ ایک بڑے پتھر کی چٹان اٹھا کر اس کے اوپر ڈال دو ، آسیہ نے جب یہ دیکھا تو آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور اللہ سے فریاد کی۔ حق تعالیٰ نے پتھر اس کے اوپر گرنے سے پہلے اس کی روح قبض کرلی پھر پتھر اس بےجان جسم پر گرا۔
اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطٰيٰنَا وَمَآ اَكْرَہْتَنَا عَلَيْہِ مِنَ السِّحْرِ ٠ۭ وَاللہُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰي ٧٣- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- بقي - البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء،- وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] - ( ب ق ی ) البقاء - کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔
(٧٣) ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لاچکے تاکہ وہ ہمارا کفر و شرک معاف کردیں اور تم جادو کے معاملہ میں جو ہم پر دباؤ ڈالا ہے اس کو بھی معاف کردیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو ثواب اور بزرگی ہے وہ اس مال میں سے جو تم نے ہمیں دیا ہے کئی گنا اچھی اور پائیدار ہے۔
آیت ٧٣ (اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَلَنَا خَطٰیٰنَا وَمَآ اَکْرَہْتَنَا عَلَیْہِ مِنَ السِّحْرِ ط) ” - تیرے مجبور کرنے پر ہم نے اپنے جادو کے بل پر اللہ کے پیغمبر کا مقابلہ کرنے کی جو جسارت کی ہے ہم اپنے رب سے اس جرم کی معافی مانگتے ہیں۔ ان جادوگروں سے تو یہی کہا گیا ہوگا کہ تمہیں ایک بہت بڑے جادوگر کا مقابلہ کرنا ہے ‘ لیکن جب یہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں آئے تو آپ ( علیہ السلام) کی با رعب شخصیت سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور مقابلہ کرنے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوگئے۔ قبل ازیں آیت ٦٢ میں ان کی اس کیفیت کی جھلک دکھائی گئی ہے۔ اب جادوگروں کے اس اقراری بیان سے مزید واضح ہوگیا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ لینے اور آپ ( علیہ السلام) کی تقریر سن لینے کے بعد آپ ( علیہ السلام) سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتے تھے ‘ لیکن بالآخر فرعون کے مجبور کرنے پر وہ اس پر آمادہ ہوگئے تھے۔- (وَاللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ” - حق کو قبول کرلینے اور اللہ پر ایمان لا چکنے کے بعد اب ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوچکی ہے کہ بقاء و دوام صرف اللہ ہی کو حاصل ہے اور اسی کا راستہ سب سے بہتر راستہ ہے۔
26: اندازہ لگائیے کہ جب ایمان دل میں گھر کر جاتا ہے تو وہ انسان کی سوچ اور اس کے ارادوں میں کتنا بڑا انقلاب پیدا کردیتا ہے۔ یہ وہ جادوگر تھے جن کی سب سے بڑی معراج یہ تھی کہ فرعون ان کو انعام و اکرام سے نواز کر اپنی خوشنودی اور تقرب عطا کردے۔ چنانچہ مقابلے پر آنے کے وقت فرعوعن سے ان کا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ : اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں کوئی اجرت بھی ملے گی؟ (دیکھئے سورۃ اعراف : 13 لیکن جب حق کھل کر ان کے سامنے آگیا اور اس پر ایمان و یقین دل میں گھر کر گیا تو انہیں نہ فرعون کی ناراضی کا خوف رہا، نہ اپنے ہاتھ پاؤں کٹوانے یا سولی پر لٹکنے کا۔ اللہ اکبر