بنی اسرائیل کا دریا پار جانا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب دریا پار کر کے نکل گئے تو ایک جگہ پہنچے جہاں کے لوگ اپنے بتوں کے مجاور بن کر بیٹھے ہوئے تھے تو بنی اسرائیل کہنے لگے موسیٰ ہمارے لئے بھی ان کی طرح کوئی معبود مقرر کردیجئے ۔ آپ نے فرمایا تم بڑے جاہل لوگ ہو یہ تو برباد شدہ لوگ ہیں اور ان کی عبادت بھی باطل ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیس روزوں کا حکم دیا ۔ پھر دس بڑھا دئیے گئے پورے چالیس ہو گئے دن رات روزے سے رہتے تھے اب آپ جلدی سے طور کی طرف چلے بنی اسرائیل پر اپنے بھائی ہارون کو خلیفہ مقرر کیا ۔ وہاں جب پہنچے تو جناب باری تعالیٰ نے اس جلدی کی وجہ دریافت فرمائی ۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی طور کے قریب ہی ہیں آرہے ہیں میں نے جلدی کی ہے کہ تیری رضامندی حاصل کرلوں اور اس میں بڑھ جاؤں ۔ موسی علیہ السلام کے بعد پھر شرک ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے چلے آنے کے بعد تیری قوم میں نیا فتنہ برپا ہوا اور انہوں نے گوسالہ پرستی شروع کردی ہے اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اور انہیں اس کی عبادت میں لگا دیا ہے اسرائیلی کتابوں میں ہے کہ سامری کا نام بھی ہارون تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمانے کے لئے تورات کی تختیاں لکھ لی گئی تھی جیسے فرمان ہے ( وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا ۭ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ ١٤٥ ) 7- الاعراف:145 ) یعنی ہم نے اس کے لئے تختیوں میں ہر شے کا تذکرہ اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی تھی اور کہہ دیا کہ اسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم سے بھی کہو کہ اس پر عمدگی سے عمل کریں ۔ میں تمہیں عنقریب فاسقوں کا انجام دکھا دوں گا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اپنی قوم کے مشرکانہ فعل کا علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور غم وغصے میں بھرے ہوئے وہاں سے واپس قوم کی طرف چلے کہ دیکھو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے باوجود ایسے سخت احمقانہ اور مشرکانہ فعل کا ارتکاب کیا ۔ غم واندوہ رنج وغصہ آپ کو بہت آیا ۔ واپس آتے ہی کہنے لگے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم سے تمام نیک وعدے کئے تھے تمہارے ساتھ بڑے بڑے سلوک وانعام کئے لیکن ذرا سے وقفے میں تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھلا بیٹھے بلکہ تم نے وہ حرکت کی جس سے اللہ کا غضب تم پر اتر پڑا تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کا مطلق لحاظ نہ رکھا ۔ اب بنی اسرائیل معذرت کرنے لگے کہ ہم نے یہ کام اپنے اختیار سے نہیں کیا بات یہ ہے کہ جو زیور فرعونیوں کے ہمارے پاس مستعار لئے ہوئے تھے ہم نے بہتر یہی سمجھا کہ انہیں پھینک دیں چنانچہ ہم نے سب کے سب بطور پرہیز گاری کے پھینک دئیے ۔ ایک روایت میں ہے کہ خود حضرت ہارون علیہ السلام نے ایک گڑھا کھود کر اس میں آگ جلا کر ان سے فرمایا کہ وہ زیور سب اس میں ڈال دو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کا ارادہ یہ تھا کہ سب زیور ایک جا ہوجائیں اور پگل کر ایک ڈلا بن جائے پھر جب موسیٰ علیہ السلام آجائیں جیسا وہ فرمائیں کیا جائے ۔ سامری نے اس میں وہ مٹی ڈال دی جو اس نے اللہ کے قاصد کے نشان سے لی تھی اور حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا آئیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیئے کہ وہ میری خواہش قبول فرما لے آپ کو کیا خبر تھی آپ نے دعا کی اس نے خواہش یہ کی کہ اس کا ایک بچھڑا بن جائے جس میں سے بچھڑے کی سی آوازبھی نکلے چنانچہ وہ بن گیا اور بنی اسرائیل کے فتنے کا باعث ہو گیا پس فرمان ہے کہ اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا ۔ حضرت ہارون علیہ السلام ایک مرتبہ سامری کے پاس سے گزرے وہ اس بچھڑے کو ٹھیک ٹھاک کر رہا تھا ۔ آپ نے پوچھا کیا کررہے ہو؟ اس نے کہا وہ چیز بنا رہا ہوں جو نقصان دے اور نفع نہ دے ۔ آپ نے دعا کی اے اللہ خود اسے ایسا ہی کردے اور آپ وہاں سے تشریف لے گئے سامری کی دعا سے یہ بچھڑا بنا اور آواز نکالنے لگا ۔ بنی اسرائیل بہکاوے میں آگئے اور اس کی پرستش شروع کردی ۔ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑتے اور دوسری آواز پر سجدے سے سر اٹھاتے ۔ یہ گروہ دوسرے مسلمانوں کو بھی بہکانے لگا کہ دراصل اللہ یہی ہے موسیٰ بھول کر اور کہیں اس کی جستجو میں چل دئیے ہیں وہ یہ کہنا بھول گئے کہ تمہارے رب یہی ہیں ۔ یہ لوگ مجاور بن کر اس کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ ان کے دلوں میں اس کی محبت رچ گئی ۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ سامری اپنے سچے اللہ اور اپنے پاک دین اسلام کو بھول بیٹھا ۔ ان کی بیوقوفی دیکھئے کہ یہ اتنا نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا تو محض بےجان چیز ہے ان کی بات کا نہ تو جواب دے نہ سنے نہ دنیا آخرت کی کسی بات کا اسے اختیار نہ کوئی نفع نقصان اس کے ہاتھ میں ۔ آواز جو نکلتی تھی اس کی وجہ بھی صرف یہ تھی کہ پیچے کے سوراخ میں سے ہوا گزر کر منہ کے راستے نکلتی تھی اسی کی آواز آتی تھی ۔ اس بچھڑے کا نام انہوں نے بہموت رکھ چھوڑا تھا ۔ ان کی دوسری حماقت دیکھئے کہ چھوٹے گناہ سے بچنے کے لئے بڑا گناہ کر لیا ۔ فرعونیوں کی امانتوں سے آزاد ہونے کے لئے شرک شروع کردیا ۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کسی عراقی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا کہ کپڑے پر اگر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ آپ نے فرمایا ان عراقیوں کو دیکھو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کو تو قتل کردیں اور مچھر کے خون کے مسئلے پوچھتے پھریں؟
وَمَآ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُــوْسٰى : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل اور موسیٰ (علیہ السلام) سے طور کے دائیں جانب میں آنا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کرنا طے فرمایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے خود قوم کے ساتھ آنے کے بجائے ہارون (علیہ السلام) کو اپنا جانشین مقرر کرکے انھیں طور کی طرف سفر جاری رکھنے کا حکم دیا اور خود اپنے رب سے کلام اور ملاقات کے شوق میں نہایت تیزی کے ساتھ وعدے کے مقام پر پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے مناجات اور تورات عطا کرنے کے بعد پوچھا کہ موسیٰ تجھے کیا چیز تیری قوم سے جلدی لے آئی ؟
خلاصہ تفسیر - اور (جب اللہ تعالیٰ کو توراة دینا منظور ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر آنے کا حکم فرمایا اور قوم کو بھی یعنی بعضوں کو ساتھ آنے کا حکم ہوا (کذا فی فتح المنان عن الباب التاسع عشر من سفر الخروج) موسیٰ (علیہ السلام) شوق میں سب سے آگے تنہا جا پہنچے اور دوسرے لوگ اپنی جگہ رہ گئے طور کا ارادہ ہی نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ) اے موسیٰ آپ کو اپنی قوم سے آگے جلدی آنے کا کیا سبب ہوا، انہوں نے (اپنے گمان کے موافق) عرض کیا کہ وہ لوگ یہی تو ہیں میرے پیچھے پیچھے (آ رہے ہیں) اور میں (سب سے پہلے) آپ کے پاس (یعنی اس جگہ جہاں مکالمت و مخاطبت کا آپ نے وعدہ فرمایا) جلدی سے اس لئے چلا آیا کہ آپ (زیادہ) خوش ہوں گے (کیوکنہ امتثال امر میں پیش قدمی کرنا زیادہ موجب خوشنودی کا ہے) ارشاد ہوا کہ تمہاری قوم کو تو ہم نے تمہارے (چلے آنے کے) بعد ایک بلا میں مبتلا کردیا اور ان کو سامری نے گمراہ کردیا (جس کا بیان آگے آتا ہے فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْــلًا الخ اور فَتَنَّا میں اس ابتلاء کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب اس لئے کیا کہ خالق ہر فعل کا وہی ہے ورنہ اصل نسبت اس فعل کی سامری کی طرف ہے جس کو اَضَلَّـهُمُ السَّامِرِيُّ میں ظاہر فرمایا ہے) غرض موسیٰ (علیہ السلام بعد انقضائے میعاد کے) غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف واپس آئے ( اور) فرمانے لگے کہ اے میری قوم کیا تم سے تمہارے رب نے ایک اچھا (اور سچا) وعدہ نہیں کیا تھا ( کہ ہم تم کو ایک کتاب احکام کی دیں گے تو اس کتاب کا تو تم کو انتظار واجب تھا) کیا تم پر (میعاد مقرر سے بہت) زیادہ زمانہ گزر گیا تھا ( کہ اس کے ملنے سے ناامیدی ہوگئی اس لئے اپنی طرف سے ایک عبادت ایجاد کرلی) یا (باوجود ناامیدی نہ ہونے کے) تم کو یہ منظور رہا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب واقع ہوا اس لئے تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا ( کہ آپ کی واپسی تک کوئی نیا کام نہ کریں گے اور آپ کے نائب ہارون (علیہ السلام) کی اطاعت کریں گے ( اس کے خلاف کیا وہ کہنے لگے کہ ہم نے جو آپس سے وعدہ کیا تھا اس کو اپنے اختیار سے خلاف نہیں کیا (یہ معنی نہیں کہ کسی نے ان سے زبردستی یہ فعل کرا لیا بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس رائے کو ہم نے ابتداءً جبکہ خالی الذہن تھے اختیار کرلیا تھا، اس کے خلاف سامری کا فعل ہمارے لئے منشاء اشتباہ بن گیا جس سے ہم نے وہ رائے سابق یعنی توحید اختیار نہ کی بلکہ رائے بدل گئی۔ گو اس پر بھی عمل اختیار ہی سے ہوا چناچہ آئندہ کہا گیا و لیکن قوم (ضبط) کے زیور میں سے ہم پر بوجھ لد رہا تھا سو ہم نے اس کو (سامری کے کہنے سے آگ میں) ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے (بھی اپنے ساتھ کا زیور) ڈال دیا (آگے اللہ تعالیٰ قصہ کی تکمیل اس طرح فرماتے ہیں) پھر اس (سامری) نے ان لوگوں کے لئے ایک بچھڑا (بنا کر) ظاہر کیا کہ وہ ایک قالب (خالی از کمالات) تھا جس میں ایک (بےمعنی) آواز تھی سو (اس کی نسبت وہ احمق لوگ (ایک دوسرے سے) کہنے لگے کہ تمہارا اور موسیٰ کا بھی معبود تو یہ ہے (اس کی عبادت کرو) موسیٰ تو بھول گئے ( کہ طور پر خدا کی طلب میں گئے ہیں حق تعالیٰ ان کی احمقانہ جسارت پر فرماتے ہیں کہ) کیا وہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے تھے کہ وہ (بواسطہ یا بلاواسطہ) نہ تو ان کی کسی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ ان کے کسی ضرر یا نفع پر قدرت رکھتا ہے (ایسا ناکارہ خدا کیا ہوگا اور الہ حق بواسطہ انبیاء کے خطاب و کلام ضروری فرماتا ہے۔ )- معارف و مسائل - جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل فرعون کے تعاقب اور دریا سے نجات پانے کے بعد آگے بڑھے تو ان کا گزر ایک بت پرست قوم پر ہوا اور ان کی عبادت پرستش کو دیکھ کر بنی اسرائیل کہنے لگے کہ جس طرح انہوں نے موجود اور محسوس چیزوں یعنی بتوں کو اپنا خدا بنا رکھا ہے ہمارے لئے بھی کوئی ایسا ہی معبود بنا دیجئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے احمقانہ سوال کے جواب میں بتلایا کہ تم بڑے جاہل ہو یہ بت پرست لوگ تو سب ہلاک ہونے والے ہیں اور ان کا طریقہ باطل ہی اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ ، اِنَّ هٰٓؤ ُ لَاۗءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيْهِ وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، اس وقت حق تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ وعدہ فرمایا کہ اپنی قوم کے ساتھ کوہ طور پر آ جایئے تو ہم آپ کو اپنی کتاب تورات عطا کریں گے جو آپ کے اور آپ کی قوم کے لئے دستور العمل ہوگا مگر عطاء تورات سے پہلے آپ تیس روز اور تیس رات کا مسلسل روزہ رکھیں پھر اس کے بعد اس میعاد میں دس کا اور اضافہ کر کے چالیس روز کردیئے گئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مع اپنی قوم کے کوہ طور کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وعدہ ربانی کی وجہ سے شوق بھڑک اٹھا اور اپنی قوم کو یہ وصیت کر کے آگے چلے گئے کہ تم بھی میرے پیچھے آجاؤ، میں آگے جا کر عبادت روزہ وغیرہ میں مشغول ہوتا ہوں جس کی میعاد مجھے تیس روز بتلائی گئی ہے، میری غیبت میں ہارون (علیہ السلام) میرے نائب اور قائم مقام ہوں گے۔ بنی اسرائیل مع ہارون (علیہ السلام) کے اپنی رفتار سے پیچھے چلتے رہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جلدی کر کے آگے بڑھ گئے اور خیال یہ تھا کہ قوم کے لوگ بھی پیچھے پیچھے کوہ طور کے قریب پہنچیں گے مگر وہاں وہ سامری کا فتنہ گو سالہ پرستی کا پیش آ گیا۔ بنی اسرائیل کے تین فرقے ہو کر اختلاف میں مبتلا ہوگئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے پیچھے پہنچنے کا معاملہ رک گیا۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب حاضر ہوئے تو حق تعالیٰ نے یہ خطاب فرمایا وَمَآ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُــوْسٰى یعنی اے موسیٰ آپ اپنی قوم سے آگے جلدی کر کے کیوں آگئے۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے عجلت کرنے کا سوال اور اس کی حکمت :- سوال کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی حالت سے بیخبر رہ کر یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ بھی کوہ طور کے قریب پہنچ گئے ہوں گے اور قوم فتنہ میں مبتلا ہوچکی ہے اس کی خبر موسیٰ کو دے دیجائے (از تفسیر ابن کثیر) اور روح المعانی میں بحوالہ کشف اس سوال کی وجہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی قوم کی تربیت کے متعلق ایک خاص ہدایت دینا اور ان کی اس عجلت پر تنبیہ کرنا تھا کہ آپ کے منصب رسالت کا تقاضا یہ تھا کہ قوم کے ساتھ رہتے ان کو اپنی نظر میں رکھتے اور ساتھ لاتے۔ آپ کی عجلت کرنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ قوم کو سامری نے گمراہ کردیا۔ اس میں خود فعل عجلت کی مذمت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ شان انبیاء کی نہ ہونی چاہئے اور بحوالہ انتصاف نقل کیا ہے کہ اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قوم کے ساتھ سفر کرنے کا طریقہ بتلایا گیا کہ رئیس القوم کو پیچھے رہنا چاہئے جیسے لوط (علیہ السلام) کے واقعہ میں حق تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کو مؤمنین کو اپنے ساتھ لے کر شہر سے نکل جایئے، ان کو آگے رکھ کر خود ان سب کے پیچھے رہئے۔ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ- اللہ تعالیٰ کے مذکورہ سوال کے جواب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گمان کے مطابق عرض کیا کہ میری قوم کے لوگ بھی پیچھے پیچھے پہنچنا ہی چاہتے ہیں اور میں کچھ جلدی کر کے آگے اس لئے آگیا کہ حکم کی تعمیل میں پیش قدمی کرنا حاکم کی زیادہ خوشنودی کا سبب ہوا کرتا ہے۔ اس وقت حق تعالیٰ نے ان کو قوم بنی اسرائیل میں پیش آنے والے فتنہ گو سالہ پرستی کی اطلاع دے دی اور یہ کہ ان کو تو سامری نے گمراہ کردیا ہے اور وہ فتنہ میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
وَمَآ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُــوْسٰى ٨٣- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]
(٨٣۔ ٨٤) چناچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور کی طرف اپنی قوم کے ستر آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوئے تو شوق میں سب سے آگے تنہا جاپہنچے اور دوسرے لوگ اپنی جگہ رہ گئے، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا آپ کو اپنی قوم سے آگے جلدی آنے کا کیا سبب ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے (اپنے گمان کے موافق) عرض کیا کہ وہ لوگ بھی میرے پیچھے آرہے ہیں اور میں سب سے پہلے جلدی سے آپ کے پاس اس لیے آیا کہ آپ مجھ سے زیادہ خوش ہوں گے۔
آیت ٨٣ (وَمَآ اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یٰمُوْسٰی ) ” - اس سے پہلے سورة مریم کی آیت ٦٤ اور آیت ٨٤ میں عجلت سے منع کیا جا چکا ہے۔ آیت ٦٤ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بالواسطہ انداز میں فرمایا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے جلد آنے کے بارے میں خواہش نہ کیا کریں ‘ کیونکہ یہ تو اللہ کی مشیت کے مطابق ہی نازل ہوگی۔ چناچہ فرشتے کی زبان سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہلوایا گیا : (وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ ج) کہ ہم تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کے حکم سے ہی نازل ہوتے ہیں۔ جبکہ آیت ٨٤ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا گیا : (فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْہِمْ ط) ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر (عذاب کے بارے میں ) جلدی نہ کریں “۔ اب آیت زیر نظر میں جلدی کرنے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جواب طلبی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دینے کے لیے ایک معین وقت پر کوہ طور پر بلایا تو آپ ( علیہ السلام) فرط اشتیاق سے قبل از وقت وہاں پہنچ گئے۔ اس پر آپ ( علیہ السلام) سے پوچھا گیا کہ آپ ( علیہ السلام) اپنی قوم کو پیچھے چھوڑ کر وقت سے پہلے یہاں کیوں آگئے ہیں ؟
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :61 یہاں سے سلسلہ بیان اس واقعہ کے ساتھ جڑتا ہے جو ابھی اوپر بیان ہوا ہے ۔ یعنی بنی اسرائیل سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ تم طور کے دائیں جانب ٹھہرو ، اور چالیس دن کی مدت گزرنے پر تمہیں ہدایت نامہ عطا کیا جائے گا ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :62 اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو راستے ہی میں چھوڑ کر حضرت موسیٰ اپنے رب کی ملاقات کے شوق میں آگے چلے گئے تھے ۔ طور کی جانب ایمن میں ، جہاں کا وعدہ بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا ، ابھی قافلہ پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت موسیٰ اکیلے روانہ ہو گئے اور حاضری دے دی ۔ اس موقع پر جو معاملات خدا اور بندے کے درمیان ہوئے ان کی تفصیلات سورہ اعراف رکوع 17 میں درج ہیں ۔ حضرت موسیٰ کا دیدار الہٰی کی استدعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ، پھر اللہ کا ایک پہاڑ پر ذرا سی تجلی فرما کر اسے ریزہ ریزہ کر دینا اور حضرت موسیٰ کا بیہوش ہو کر گر پڑنا ، اس کے بعد پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا ہونا ، یہ سب اسی وقت کے واقعات ہیں ۔ یہاں ان واقعات کا صرف وہ حصہ بیان کیا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی سے متعلق ہے ۔ اس کے بیان سے مقصود کفار مکہ کو یہ بتانا ہے کہ ایک قوم میں بت پرستی کا آغاز کس طرح ہوا کرتا ہے اور اللہ کے نبی اس فتنے کو اپنی قوم میں سر اٹھاتے دیکھ کر کیسے بے تاب ہو جایا کرتے ہیں ۔
31: صحرائے سینا میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر بلایا تھا، تاکہ وہ وہاں چالیس دن تک اعتکاف کریں تو انہیں تورات عطا کی جائے گی۔ شروع میں بنی اسرائیل کے کچھ منتخب لوگوں کے بارے میں بھی یہ طے ہوا تھا کہ وہ بھی آپ کے ساتھ جائیں گے۔ لیکن حضرت موسی جلدی روانہ ہوگئے، اور ان کا خیال تھا کہ باقی ساتھی بھی پیچھے آرہے ہوں گے۔ لیکن وہ لوگ نہیں آئے۔