84۔ 1 سمندر پار کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اسرائیل کے سربرآوردہ لوگوں کو ساتھ لے کر کوہ طور کی طرف چلے، لیکن رب کے شوق ملاقات میں تیز رفتاری سے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے ہی طور پر پہنچ گئے، سوال کرنے پر جواب دیا، مجھے تو تیری رضا کی طلب اور اس کی جلدی تھی۔ وہ لوگ میرے پیچھے ہی آ رہے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے پیچھے آ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ میرے پیچھے کوہ طور کے قریب ہی ہیں اور وہاں میری واپسی کے منتظر ہیں۔
[٥٨] اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا تھا کہ کوہ طور کے دامن میں پہنچ کر چالیس راتیں وہاں بسر کرنا تو تمہیں بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے کتاب تورات عطا کی جائے گی۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل میں سے ستر آدمی اپنے ہمراہ لئے اور طور کی جانب روانہ ہوگئے۔ لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور ہم کلامی کا کچھ اتنا زیادہ اشتیاق تھا کہ آپ اپنے ہمراہیوں کو پیچھے چھوڑ کر سب سے پہلے منزل مقصود جاپہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ تمہیں اتنی کیا جلدی تھی کہ اپنے ہمراہیوں کو پیچھے چھوڑ کر پہلے ہی یہاں آپہنچے ؟ عرض کیا وہ لوگ بھی میرے پیچھے پیچھے یہاں پہنچ ہی رہے ہیں اور مجھے تیری ملاقات کا اشتیاق ان سے پہلے یہاں کھینچ لایا ہے۔ پھر اسی موقع پر آپ نے اپنے پروردگار سے درخواست کی تھی کہ اے میرے پروردگار مجھے اپنا آپ دکھلا دے اور یہ واقعہ بھی سورة بقرہ میں پوری تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔
قَالَ هُمْ اُولَاۗءِ عَلٰٓي اَثَرِيْ : یہاں ایک سوال ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں جلدی کی وجہ بتانے کے بجائے کہ پروردگار میں تجھے راضی کرنے کے لیے جلدی آگیا، یہ کیوں ضروری سمجھا کہ پہلے یہ عرض کریں کہ قوم کے لوگ میرے پیچھے میرے نشان قدم پر آ رہے ہیں، یعنی نشان مٹنے سے بھی پہلے وہ اس پر چلے آ رہے ہیں، یعنی میں کوئی زیادہ جلدی نہیں آیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے بیخبر نہ تھا کہ وہ کیوں جلدی آگئے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عتاب قوم کے ساتھ نہ آنے پر تھا اور یہ سوال اپنے کلیم کی تربیت کے لیے تھا کہ تمہارا پہلے آنا مناسب نہ تھا، بلکہ غلامی سے تازہ تازہ نکلی ہوئی قوم کے ساتھ رہنا ضروری تھا، تاکہ کتاب ملنے سے پہلے ہر قدم پر ان کی رہنمائی کرتے اور ان کی غلطیوں پر سرزنش کرتے۔ ویسے بھی کسی قوم کے رئیس کا حق یہ ہے کہ وہ ان کے پیچھے رہ کر ان کے ہر فرد کا خیال رکھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو اہل و عیال سمیت رات کو نکلنے کا حکم دیتے ہوئے یہ ادب سکھایا : ( وَاتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ ) [ الحجر : ٦٥ ] ” اور خود ان کے پیچھے پیچھے چل۔ “ اور جیسا کہ جابر بن عبداللہ (رض) نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ذکر فرمایا : ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَخَلَّفُ فِي الْمَسِیْرِ فَیُزْجِي الضَّعِیْفَ وَیُرْدِفُ وَیَدْعُوْ لَھُمْ ) [ أبوداوٗد، الجہاد، باب في لزوم الساقۃ : ٢٦٣٩۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٢١٢٠ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں پیچھے رہتے، کمزور (کی سواری) کو ہانکتے اور (پیدل کو) پیچھے بٹھا لیتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) کا وفور شوق میں جلدی آنا اگرچہ بری بات نہ تھی مگر بادشاہوں کے حضور پیش ہونے کے کچھ آداب ہوتے ہیں اور شاہوں کے شاہ کا ادب تو سب سے بڑھ کر ہے۔ اس کی ایک مثال ابوبکرہ (رض) کی جلدی ہے کہ وہ مسجد میں پہنچے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع میں تھے، انھوں نے صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع کرلیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا ذکر ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( زَادَکَ اللّٰہُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ ) [ بخاري، الأذان، باب إذا رکع دون الصف : ٧٨٣ ] ” اللہ تعالیٰ تمہاری حرص زیادہ کرے اور دوبارہ ایسا نہ کرنا۔ “ [ قاسمی، بقاعی، ابن عاشور ]
قَالَ ہُمْ اُولَاۗءِ عَلٰٓي اَثَرِيْ وَعَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى ٨٤- أثر - والإيثار للتفضل ومنه :[ آثرته، وقوله تعالی: وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر 9] وقال : تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 91] وبَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ الأعلی 16] .- وفي الحدیث : «سيكون بعدي أثرة» «5» أي : يستأثر بعضکم علی بعض .- ( ا ث ر )- اور الایثار ( افعال ) کے معنی ہیں ایک چیز کو اس کے افضل ہونے کی وجہ سے دوسری پر ترجیح دینا اور پسندکرنا اس سے آثرتہ ہے یعنی میں نے اسے پسند کیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر : 9] دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا [يوسف : 91] بخدا اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت بخشی ہے ۔ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا [ الأعلی : 16] مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ (5) حدیث میں ہے : سیکون بعدی اثرۃ ۔ ( میرے بعد تم میں خود پسندی آجائے گی ) یعنی تم میں سے ہر ایک اپنے کو دوسروں سے بہتر خیال کرے گا ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،
آیت ٨٤ (قَالَ ہُمْ اُولَآءِ عَلآی اَثَرِیْ ) ” - آپ ( علیہ السلام) کی قوم کا قافلہ تو معمول کی رفتار سے آ رہا ہوگا اور آپ ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور مکالمے کے شوق میں تیز رفتاری سے سفر طے کرتے ہوئے وقت مقررہ سے پہلے وہاں پہنچ گئے تھے۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے اس کی وجہ بھی یہی بتائی :- (وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی ) ” - گویا اللہ تعالیٰ کے حضور آپ ( علیہ السلام) فرط جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ اقبالؔ کے مصرع میں ذرا تصرف کے ساتھ ” تو میرا شوق دیکھ مرا اشتیاق دیکھ “ والی کیفیت تھی۔ آپ ( علیہ السلام) کا خیال تھا اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوں گے اور شاباش ملے گی ‘ مگر یہاں تو لینے کے دینے پڑگئے ‘ الٹی ہوگئی۔