85۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد سامری نامی شخص نے بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے پر لگا دیا، جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کو دی کہ سامری نے تیری قوم کو گمراہ کردیا ہے، فتنے میں ڈالنے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف باحیثیت خالق کے کی ہے، ورنہ اس گمراہی کا سبب تو سامری ہی تھا۔ جیسا کہ اضلھم السامری سے واضح ہے۔
[٥٩] جب کوہ طور پر عبادت میں مصروف تھے اور اس انتظار میں تھے کہ چالیس دن پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کتاب ہدایت عطا فرمائیں تو اسی دوران آپ کی قوم نے آپ کے بعد پھر سے بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔ سامری نے ان کے لئے ایک بچھڑا تیار کیا اور یہ لوگ اس کی پوجا پاٹ میں لگ گئے۔- اس واقعہ کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وہیں کوہ طور پردے دی۔ آپ کو اس طلاع سے اپنی قوم پر غصہ تو بہت آیا مگر وہاں کا قیام بھی انتہائی ضروری تھا۔ لہذا آپ نے اپنے نفس پر جہر کرکے معینہ مدت تک وہیں رکے رہے۔- لفظ السامری سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ اس شخص کا اصلی نام نہیں تھا۔ بلکہ کوئی خاص سامری شخص تھا۔ جیسا کہ پہلے تعریف کا ال موجود ہے۔ دوسرے آخر میں یائے نسبتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سامر یا تو اس کے وطن کا نام تھا یا پھر سامر یا سمر اس کے کسی جد امجد کا نام تھا۔ جیسا کہ عرب میں اس کا عام دستور ہے۔
قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ ۔۔ : یہ فاء تعلیل کے لیے ہے، یعنی تمہارا قوم کو چھوڑ کر چلے آنا اور مفسدوں کے لیے موقع فراہم کردینا اس کا باعث بنا کہ تمہارے بعد ہم نے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انھیں گمراہ کردیا۔ یہاں ایک بات یاد رہنی چاہیے کہ انھیں بچھڑا بنا کر سامری نے گمراہ کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت بھی فرما دی کہ انھیں سامری نے گمراہ کردیا، مگر تمام اسباب کا خالق چونکہ اللہ تعالیٰ ہے اور تمام دل اس کے ہاتھ میں ہیں، اس لیے آزمائش میں ڈالنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی۔- مِنْۢ بَعْدِكَ : موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو تیس دنوں کے اعتکاف کا بتا کر گئے تھے، جسے اللہ تعالیٰ نے چالیس دنوں کے ساتھ مکمل فرمایا تو قوم اس سے بیخبر تھی، انھیں معلوم نہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کب آئیں گے ؟ اس مدت سے فائدہ اٹھا کر سامری نے کیا جو کچھ کیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ” بَعْدِكَ “ سے پہلے مِنْ ‘ کا لفظ زیادہ فرمایا، جو ” بعض “ کے معنی میں ہے، یعنی تمہارے بعد کے عرصے میں سے کچھ عرصے میں سامری نے انھیں گمراہ کردیا۔ (بقاعی)
سامری کون تھا :- بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ آل فرعن کا قبطی آدمی تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے پڑوس میں رہتا تھا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا اور جب بنی اسرائیل کو لے کر موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکلے تو یہ بھی ساتھ ہو لیا۔ بعض نے کہا کہ یہ بنی اسرائیل ہی کے ایک قبیلہ سامرہ کا رئیس تھا اور قبیلہ سامرہ ملک شام میں معروف ہے۔ حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ یہ فارسی شخص کرمان کا رہنے والا تھا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہ ایک ایسی قوم کا آدمی تھا جو گائے کی پرستش کرنے والی تھی یہ کسی طرح مصر پہنچ گیا اور بظاہر دین بنی اسرائیل میں داخل ہوگیا مگر اس کے دل میں نفاق تھا (قرطبی) حاشیہ قرطبی میں ہے کہ یہ شخص ہندوستان کا ہندو تھا جو گائے کی عبادت کرتے ہیں۔ انتہی۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا پھر اپنے کفر کی طرف لوٹ گیا یا پہلے ہی سے منافقانہ طور پر ایمان کا اظہار کیا واللہ اعلم - مشہور یہ ہے کہ سامری کا نام موسیٰ ابن ظفر تھا۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ موسیٰ سامری پیدا ہوا تو فرعون کی طرف سے تمام اسرائیلی لڑکوں کے قتل کا حکم جاری تھا اس کی والدہ کو خوف ہوا کہ فرعونی سپاہی اس کو قتل کردیں گے تو بچہ کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھنے کی مصیبت سے یہ بہتر سمجھا کہ اس کو جنگل کے ایک غار میں رکھ کر اوپر سے بند کردیا (کبھی کبھی اس کی خبر گیری کرتی ہوگی) ادھر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کو اس کی حفاظت اور غذا دینے پر مامور کردیا وہ اپنی ایک انگلی پر شہد ایک پر مکھن ایک پر دودھ لاتے اور اس بچہ کو چٹا دیتے تھے یہاں تک کہ یہ غار ہی میں پل کر بڑا ہوگیا اور اس کا انجام یہ ہوا کہ کفر میں مبتلا ہوا اور بنی اسرائیل کو مبتلا کیا پھر قہر الٰہی میں گرفتا ہوا۔ اسی مضمون کو کسی شاعر نے دو شعروں میں اس طرح ضبط کیا ہے۔ (از روح المعانی)- اذا المرء لم یخلق سعیدا تحیرت عقول مربیہ و خاب المومل - فموسی الذی رباہ جبریل کافر و موسیٰ الذی رباہ فرعون مرسل - (ترجمہ) جب کوئی شخص اصل پیدائش میں نیک بخت نہ ہو تو اس کے پرورش کرنے والوں کی عقلیں بھی حیران رہ جاتی ہیں اور اس سے امید کرنے والا محروم ہوجاتا ہے۔ دیکھو جس موسیٰ کو جبرائیل امین نے پالا تھا وہ تو کافر ہوگیا اور جس موسیٰ کو فرعون لعین نے پالا تھا وہ خدا کا رسول بن گیا۔
قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَاَضَلَّـہُمُ السَّامِرِيُّ ٨٥- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- السَّامِرِيُّ : منسوب إلى رجل .- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - أسِف - الأَسَفُ : الحزن والغضب معاً ، وقد يقال لکل واحدٍ منهما علی الانفراد، وحقیقته : ثوران دم القلب شهوة الانتقام، فمتی کان ذلک علی من دونه انتشر فصار غضبا، ومتی کان علی من فوقه انقبض فصار حزنا، ولذلک سئل ابن عباس عن الحزن والغضب فقال : مخرجهما واحد واللفظ مختلف فمن نازع من يقوی عليه أظهره غيظاً وغضباً ، ومن نازع من لا يقوی عليه أظهره حزناً وجزعاً ، وقوله تعالی: فَلَمَّا آسَفُونا انْتَقَمْنا مِنْهُمْ [ الزخرف 55] أي : أغضبونا .- ( ا س ف ) الاسف - ۔ حزن اور غضب کے مجموعہ کو کہتے ہیں کبھی آسف کا لفظ حزن اور غضب میں سے ہر ایک پر انفراد ابھی بولا جاتا ہے اصل میں اس کے معنی جذبہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے قوی آدمی پر ہو تو منقبض ہوکر حزن بن جاتی ہے اس لئے جب حضرت ابن عباس سے حزن اور غضب کی حقیقت دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا : لفظ دو ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے جب کوئی شخص اپنے سے کمزور کے ساتھ جھگڑتا ہے تو غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے سے قوی کے ساتھ جھگڑتا ہے تو واویلا اور غم کا اظہار کرتا ہے اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ( سورة الزخرف 55) کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - طول - الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ- [ القصص 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ- [ غافر 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ.- ( ط و ل ) الطول - یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔- طالوت - یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - خُلف ( عهد شكني)- والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] - ( خ ل ف ) خُلف - الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔
(٨٥) اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ارشاد ہوا ہم نے تمہارے کوہ طور پر چلے جانے کے بعد تمہاری قوم کو گوسالہ کی پرستش میں مبتلا کردیا ہے اور اس گمراہی کے اختیار کرنے کا ان کو سامری نے حکم دیا ہے۔
آیت ٨٥ (قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْم بَعْدِکَ ) ” - اگرچہ یہاں صراحت کے ساتھ ایسے الفاظ استعمال نہیں ہوئے مگر انداز سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کی اس عجلت پسندی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کی قوم کو فتنے میں مبتلا کردیا۔- (وَاَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ ) ” - اس انداز تخاطب میں یہ تفصیل بھی مضمر ہے کہ اگر آپ ( علیہ السلام) اپنی قوم کے ساتھ ساتھ رہتے ‘ ان کا تزکیہ کرتے رہتے ‘ وہ لوگ آپ ( علیہ السلام) کی تعلیم و تربیت سے مسلسل بہرہ مند ہوتے رہتے تو یقیناً ان کی عقل و فہم مزید پختہ ہوتی اور اس طرح اس فتنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن جب آپ ( علیہ السلام) انہیں چھوڑ کر آگئے تو اس کے نتیجے میں ایک فتنہ گر شخص کو اپنا شیطانی کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔- سامری کے بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس کا تعلق قبطی قوم سے تھا اور کسی وجہ سے وہ بنی اسرائیل کے ساتھ مل چکا تھا۔ لیکن اس سلسلے میں معتبر رائے یہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہی تھا مگر منافق تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اسے خاص کد تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ابو عامر راہب کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کد تھی۔ ابو عامر راہب کا ذکر سورة التوبہ کے مطالعے کے دوران آیا تھا۔ بنیادی طور پر وہ خزرجی تھا۔ ابتدائی عمر میں بہت نیک اور عبادت گزار تھا ‘ بعد میں اس نے عیسائیت قبول کر کے رہبانیت اختیار کرلی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسے خصوصی طور پر بغض تھا اور اس کا یہ بغض اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ اپنی ساری زندگی آپ ( علیہ السلام) کے خلاف جدوجہد اور سازشوں میں مصروف رہا۔ چناچہ جیسا کردار ابوعامر راہب کا امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رہا ‘ اس سے ملتا جلتا کردار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں سامری کا تھا۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :63 یہ اس شخص کا نام نہیں ہے ، بلکہ یائے نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی نسبت ہی ہے ، خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف ۔ پھر قرآن جس طرح السامری کہہ کر اس کا ذکر کر رہا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی ۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے ۔ لیکن یہ مقام ان اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں ، اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیر کی حد کر دی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ، معاذ اللہ ، قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے ، اس لیے کہ دولت اسرائیل کا دارالسلطنت سامریہ اس واقعہ کے کئی صدی بعد 965 ق م کے قریب زمانے میں تعمیر ہوا ، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے سامریوں کے نام سے شہرت پائی ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا ، اور یہودیوں کے ذریعہ سے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نے اس بات کی سن گن پالی ہو گی ، اس لئے انہوں نے لے جا کر اس کا تعلق حضرت موسیٰ کے عہد سے جوڑ دیا اور یہ قصہ تصنیف کر ڈالا کہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا ۔ اسی طرح کی باتیں ان لوگوں نے ہامان کے معاملہ میں بنائی ہیں جسے قرآن فرعون کے وزیر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ، اور عیسائی مشنری اور مستشرقین اسے اخسویرس ( شاہ ایران ) کے درباری امیر ہامان سے لے جا کر ملا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے مصنف کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے ۔ شاید ان مدعیان علم و تحقیق کا گمان یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک نام کا ایک ہی شخص یا قبیلہ یا مقام ہوا کرتا تھا اور ایک نام کے دو یا زائد اشخاص یا قبیلہ و مقام ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہ تھا ۔ حالانکہ سُمیری قدیم تاریخ کی ایک نہایت مشہور قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں عراق اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر چھائی ہوئی تھی ، اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ حضرت موسیٰ کے عہد میں اس قوم کے ، یا اس کی کسی شاخ کے لوگ مصر میں سامری کہلاتے ہوں ۔ پھر خود اس سامریہ کی اصل کو بھی دیکھ لیجیے جس کی نسبت سے شمالی فلسطین کے لوگ بعد میں سامری کہلانے لگے ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ دولت اسرائیل کے فرمانروا عمری نے ایک شخص سمر نامی سے وہ پہاڑ خریدا تھا جس پر اس نے بعد میں اپنا دار السلطنت تعمیر کیا ۔ اور چونکہ پہاڑ کے سابق مالک کا نام سمر تھا اس لیے اس شہر کا نام سامریہ رکھا گیا ( سلاطین 1 ، بابا 16 ۔ آیت 24 ) ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سامریہ کے وجود میں آنے سے پہلے سمر نام کے اشخاص پائے جاتے تھے اور ان سے نسبت پا کر ان کی نسل یا قبیلے کا نام سامری ، اور مقامات کا نام سامریہ ہونا کم از کم ممکن ضرور تھا ۔
32: سامری ایک جادوگر تھا جو بظاہر حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا تھا۔ اور اسی لیے ان کے ساتھ لگ گیا تھا، مگر حقیقت میں وہ منافق تھا۔