86۔ 1 اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انھیں بلایا گیا تھا۔ 86۔ 2 کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ 86۔ 3 قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت و عبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کردی۔
[٦٠] موسیٰ (علیہ السلام) کتاب تورات لے کر جب واپس آئے تو سخت غضب ناک تھے۔ آپ نے آتے ہی اپنی قوم سے پے در پے تین سوال کئے۔ ایک یہ کہ اللہ نے جو تمہاری ہدایت کے لئے کتاب دینے کا وعدہ فرمایا تھا۔ تو یہ گمراہی کی راہ تم نے از خود کیوں اختیار کی ؟ کیا تمہیں اللہ کی ہدایت پسند نہیں تھی ؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ اللہ نے جتنی مدت بعد کتاب دینے کا وعدہ کیا تھا، کیا اسمیں کچھ تاخیر ہوگئی تھی، یا اس وعدہ کو طویل مدت گزر چکی تھی اور تم انتظار کرتے کرتے تھک گئے تھے اور پھر یہ تجھے کہ پتہ نہیں کہ اللہ سے کب ہدایت آتی ہے یا آتی بھی ہے یا نہیں اس بنا پر تم نے خود ہی اپنے لئے ایک راہ تجویز کرلی اور اگر یہ دونوں درست تھیں تو پھر کیا تم ایسے شر کام کرکے اللہ کے غضب کو دعوت دینا چاہتے ہو ؟ یہ گؤسالہ پرستی کا مرض ابھی تک تمہارے دلوں سے نکلا نہیں ؟
فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ۔۔ : ” غَضْبَانَ “ مبالغہ کے وزن پر ہے، اس لیے ” غصے سے بھرا ہوا “ ترجمہ کیا ہے۔ ” اَسِفًا “ ” أَسِفَ یَأْسَفُ “ (ع) سے صفت کا صیغہ ہے، اس کا معنی سخت غم و افسوس کرنے والا بھی ہے اور غصے والا بھی۔ (قاموس) یہاں ” غَضْبَانَ “ کے بعد افسوس زیادہ مناسب ہے۔ حرف ” فاء “ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مکالمہ اور کتاب دینے کے آخر میں انھیں قوم کے گمراہ ہونے کی اطلاع دی۔ ” فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ “ تو یہ خبر سنتے ہی موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس روانہ ہوگئے۔- قَالَ يٰقَوْمِ اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَـنًا : اس وعدے سے مراد توبہ، ایمان اور عمل صالح کے بعد اس پر استقامت اختیار کرنے والے کے لیے مغفرت کا وعدہ، طور کی جانب ایمن پر موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے تورات عطا کرنے کا وعدہ اور من وسلویٰ نازل کرنے کا وعدہ ہے۔ (طبری)- اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ ۔۔ : ” الْعَهْدُ “ کا معنی ہے وصیت، کسی آدمی سے کوئی بات طے کرلینا، پختہ وعدہ، قسم، حرمت کا خیال رکھنا، امان، ذمہ، ملاقات، پہچان، زمانہ، وفا، اللہ تعالیٰ کی توحید وغیرہ۔ (قاموس) یہاں ملاقات بھی معنی ہوسکتا ہے اور مدت بھی کہ کیا تمہیں میری ملاقات کو بہت لمبی مدت ہوچکی تھی کہ تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی ؟ تیس دنوں سے دس دن ہی تو زیادہ گزرے تھے، یہ کون سی لمبی مدت تھی کہ تم نے مجھ سے کیے ہوئے سب وعدے توڑ ڈالے۔ وعدہ خلافی سے مراد ان کا طور کے دامن تک جانے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے چلتے رہنے کے بجائے راستے میں ٹھہر جانا، بچھڑے کی پرستش اور مجاوری پر اڑ جانا اور ہارون (علیہ السلام) کے انھیں چلتے رہنے کی تاکید اور بچھڑے کی عبادت ترک کرنے کی نصیحت پر یہ کہنا کہ ” لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ “ یعنی ہم اسی پر مجاور بن کر بیٹھے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ ہمارے پاس آئیں۔ یہ تمام باتیں وعدے کی خلاف ورزی تھیں۔ (طبری)
اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَـنًا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے رنج و غم کے عالم میں واپس آ کر قوم سے خطاب کیا اور پہلے ان کو اللہ تعالیٰ کا وعدہ یاد دلایا جس کے لئے وہ سب قوم کو لے کر طور کی جانب ایمن کی طرف چلے تھے کہ یہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ہدایت عطا فرمائیں گے اور جس کے ذریعہ دین و دنیا کے تمام مقاصد تمہارے پورے ہوں گے۔- اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ ، یعنی اللہ کے اس وعدہ پر کوئی بڑی مدت بھی تو نہیں گزری جس میں تمہارے بھول جانے کا احتمال ہو کہ وعدہ کا انتظار زمانہ دراز تک کرنے کے بعد مایوس ہوگئے اس لئے دوسرا طریقہ اختیار کرلیا۔- اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ يَّحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ، یعنی بھول جانے یا انتظار سے تھک جانے کا تو کوئی احتمال نہیں تو اب اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ تم نے خود ہی اپنے قصد و اختیار سے اپنے رب کے غضب کو دعوت دی۔
(٨٦) غرض کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدت مکمل ہونے کے بعد غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور فتنہ کا شور وشغب سنا تو فرمانے لگے اے میری قوم کیا تم سے تمہارے رب نے ایک اچھا اور سچا وعدہ نہیں کیا تھا کیا میں تم سے زمانہ دراز کے لیے جدا ہوگیا تھا یا یہ کہ تمہیں یہ منظور ہوا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب اور عذاب نازل ہو، اس لیے تم نے جو مجھ سے وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا۔
(قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا ط) ” - اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تم لوگوں کو اپنی کتاب کی صورت میں جامع ہدایت عطا فرمائے گا۔ میں تو اللہ کے اس وعدے کے مطابق طور پر گیا تھا کہ تمہارے لیے اس کی کتاب اور ہدایت لے کر آؤں :- (اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ ) ” - گویا تمہاری یہ حرکت اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :64 اچھا وعدہ نہیں کیا تھا بھی ترجمہ ہو سکتا ہے ۔ متن میں جو ترجمہ ہم نے اختیار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جتنی بھلائیوں کا وعدہ بھی کیا ہے وہ سب تمہیں حاصل ہوتی رہی ہیں ۔ تمہیں مصر سے بخیریت نکالا ، غلامی سے نجات دی ، تمہارے دشمن کو تہس نہس کیا ، تمہارے لیے ان صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں سائے اور خوراک کا بندوبست کیا ۔ کیا یہ سارے اچھے وعدے پورے نہیں ہوئے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہیں شریعت اور ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا ، کیا تمہارے نزدیک وہ کسی خیر اور بھلائی کا وعدہ نہ تھا ؟ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :65 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا وعدہ پورا ہونے میں بہت دیر لگ گئی کہ تم بے صبر ہو گئے ؟ پہلے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر اللہ تعالیٰ ابھی ابھی جو عظیم الشان احسانات کر چکا ہے ، کیا ان کو کچھ بہت زیادہ مدت گزر گئی ہے کہ تم انہیں بھول گئے ؟ کیا تمہاری مصیبت کا زمانہ بیتے قرنیں گزر چکی ہیں کہ تم سرمست ہو کر بہکنے لگے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب صاف ہے کہ ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا ، اس کے وفا ہونے میں کوئی تاخیر تو نہیں ہوئی ہے جس کو تم اپنے لیے عذر اور بہانہ بنا سکو ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :66 اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو ہر قوم اپنے نبی سے کرتی ہے ۔ اس کے اتباع کا وعدہ ۔ اس کی دی ہوئی ہدایت پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ ۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنے کا وعدہ ۔
33: اچھے وعدے سے مراد کوہ طور پر تورات دینے کا وعدہ ہے 34: یعنی مجھے کوہ طور پر گئے ہوئے کوئی ایسی لمبی مدت تو نہیں گذری تھی کہ تم میرا انتظار کیے بغیر اس بچھڑے کو معبود بنا بیٹھو