Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 یعنی ہم نے اپنے اختیار سے یہ کام نہیں کیا بلکہ غلطی ہم سے اضطراری طور پر ہوگئی، آگے اس کی وجہ بیان کی

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا : انھوں نے وعدہ خلافی کا نہایت ہی بودا عذر پیش کیا کہ اس وعدہ خلافی میں ہمارا کوئی اختیار ہی نہ تھا۔ سامری نے ہمیں پھسلایا ہی اس طرح کہ ہم میں نیک و بد کی پہچان ہی نہ رہ گئی۔ کوئی پوچھے کہ سامری نے تم پر کوئی فوج کشی کی تھی یا تلوار تان رکھی تھی کہ تمہارا اختیار ختم ہوگیا تھا ؟ قیامت کے دن ہر مجرم اپنے آپ کو بےقصور اور بےاختیار ٹھہرائے گا اور اپنے تمام جرائم کا ذمہ دار شیطان کو ٹھہرائے گا مگر وہ صاف کہہ دے گا کہ میں نے تم پر کوئی فوج کشی نہیں کی تھی، صرف دعوت دی تھی، تم نہ مانتے تو میں تمہارا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ دیکھیے سورة ابراہیم (٢٢) ۔- وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا ۔۔ : اس آیت کی تفسیر اکثر مفسرین نے یہ کی ہے کہ بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے سے پہلے فرعون کی قوم کے لوگوں سے ان کے زیورات ادھار مانگ لیے تھے، بعض نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کام انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے کہنے پر کیا تھا۔ اب وہ ان کے لیے بوجھ بن گئے تھے، کیونکہ وہ مال غنیمت کے حکم میں تھے اور پہلی امتوں کے لیے غنیمت حلال نہ تھی۔ چناچہ ہارون (علیہ السلام) یا سامری کے کہنے پر کہ ان زیورات کو اپنے پاس رکھنا گناہ ہے، سب زیور ایک گڑھے میں پھینک کر انھیں آگ لگا دی گئی اور سامری نے اس سے فائدہ اٹھا کر اس سونے یا چاندی سے بچھڑا بنادیا۔ بعض نے یہ لکھا ہے کہ فرعون کی قوم جب غرق ہوئی اور ان کی لاشیں کنارے پر آئیں تو بنی اسرائیل نے ان کے زیور اتار لیے، اس زمانے میں عورتوں کی طرح مرد بھی سونے چاندی کے کنگن اور زیور وغیرہ پہنتے تھے۔ ” زِيْنَةِ الْقَوْمِ “ سے قوم فرعون کے زیور مراد ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ اصرار ہے کہ یہ سلف کی تفسیر ہے اور اس سے انحراف سلف سے انحراف ہے۔ مگر قرآن و حدیث سے یا کسی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ اس کی طرف معمولی اشارہ بھی نہیں ملتا کہ ہجرت کے وقت پوری قوم کو، حتیٰ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دھوکے سے قوم فرعون کے زیورات حاصل کرنے کی فکر پڑی ہوئی تھی، نہ آیات ہی میں کوئی اشارہ ہے کہ ” زِيْنَةِ الْقَوْمِ “ میں ” القوم “ سے مراد قوم فرعون ہے۔ دراصل یہ بات تورات اور پہلے صحیفوں سے لی گئی ہے، جن میں یہود نے اتنی تحریف کردی ہے کہ انبیاء پر تہمتیں لگانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ داؤد اور لوط (علیہ السلام) پر ان کی تہمتیں معروف ہیں۔ اس واقعہ میں بھی انھوں نے ہارون (علیہ السلام) پر تہمت لگائی ہے کہ بچھڑا بنا کر لوگوں کو اس کی عبادت پر لگانے والے وہ تھے۔ [ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ھَفَوَاتِھِمْ ] اس کے برعکس قرآن مجید میں دوسرے مقام پر تصریح ہے کہ وہ تمام زیور بنی اسرائیل کے اپنے تھے، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰي مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ) [ الأعراف : ١٤٨ ] ” اور موسیٰ کی قوم نے اس کے بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا جو ایک جسم تھا، جس کی گائے جیسی آواز تھی۔ “ ” مِنْ حُلِيِّهِمْ 0“ (اپنے زیوروں سے) کی تصریح کے باوجود انھیں قوم فرعون کے زیور قرار دینا عجیب بات ہے۔ - اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس زمانے میں نوٹ وغیرہ تو تھے نہیں، نقدی سونے یا چاندی ہی کی صورت میں ہوتی تھی، جسے زیورات کی صورت میں لوگ پہن لیتے یا گھروں میں محفوظ رکھتے، ان کا کافی بوجھ بن جاتا تھا، خصوصاً جب ان کے ساتھ تانبے وغیرہ کی آمیزش اور پہننے کے لیے چمڑے، دھاگے یا لوہے کی زنجیریں وغیرہ بھی ساتھ ہوتیں۔ اس لیے اس سفر میں ذمہ داریاں تقسیم کرتے وقت ہر ایک کے اپنے اپنے بوجھ اٹھانے کے بجائے کچھ لوگوں کے ذمے اسے اٹھانے کی ذمہ داری لگائی گئی۔ ظاہر ہے کہ اتنی اہم ذمہ داری قوم کے سربر آور دہ لوگوں ہی کی ہوسکتی تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) بھی انھی لوگوں سے مخاطب تھے، کیونکہ وہ ایک وقت میں ساری قوم کے ہزاروں، یا بقول بعض لاکھوں لوگوں سے تو بات نہیں کرسکتے تھے۔ انھوں نے یہ وجہ بتائی کہ ہم پر لوگوں کے زیوروں کا بوجھ تھا، ہم نے اسے جس قدر ہو سکے ہلکا کرنے کے لیے آگ میں پھینکا کہ زائد چیزیں جل جائیں اور خالص سونے اور چاندی کی اینٹیں بنا لی جائیں اور منزل پر پہنچ کر ہر ایک کو اس کے نام لکھے ہوئے کے مطابق اس کے حصے میں آنے والا خالص چاندی یا سونا دے دیا جائے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سامری نے اس سے بچھڑے کا مجسمہ بنادیا۔- 3 اللہ تعالیٰ نے سونے اور چاندی میں یہ وصف رکھا ہے کہ یہ بطور قیمت شروع سے مقرر چلے آ رہے ہیں۔ دینار و درہم بھی ان کے بنتے تھے اور یہی فطری طریقہ تھا جس سے ہر شخص کا مال خود اس کے پاس ہوتا تھا۔ چالاک یہودیوں نے بینک بنا کر لوگوں کا سونا چاندی اپنے پاس جمع کرلیا اور انھیں رسیدیں جاری کردیں کہ جب چاہو یہ دکھا کر اپنا سونا چاندی لے لو۔ لوگوں نے صرف اتنی سہولت کی خاطر کہ بوجھ نہ اٹھانا پڑے، ان رسیدوں سے لین دین شروع کردیا، جس نے آگے نوٹوں کی صورت اختیار کرلی۔ اب صرف بوجھ سے بچنے کی خاطر سارا کاروبار یا تو نوٹ پر چلتا ہے یا بینک کے چیکوں پر۔ لوگوں کے پاس کاغذ کے ایک ٹکڑے کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کاغذ کی حیثیت یہ ہے کہ حکومتیں جب چاہتی ہیں اس کی قیمت کبھی آدھی کم کردیتی ہیں، کبھی چوتھا حصہ۔ جو شخص ایک کروڑ روپے کے سونے کا مالک تھا، صرف ایک اعلان کے بعد پچاس لاکھ کے وعدے والے کاغذ کے سوا اس کے پاس کچھ نہیں رہتا اور اگر نئے نوٹ جاری ہوجائیں اور یہ بر وقت نہ بدلوا سکے تو بالکل ہی خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ بینک دیوالیہ ہوجائے تو اس کا چیک کسی کام کا نہیں رہتا اور ساری رقم ہی برباد ہوجاتی ہے۔ ضروری بوجھ سے جان چھڑانے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو اس کے مخلص بندے یہود کے شکنجے کو توڑ کر سود اور بینکوں کو ختم کرکے سونے یا چاندی کے سکے جاری کریں گے، تاکہ کوئی کسی کا حق نہ مار سکے۔ یہاں مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ بوجھ سے جان چھڑانے میں بنی اسرائیل کو کتنا نقصان ہوا اور اب مسلم اور غیر مسلم صرف بوجھ اٹھائے پھرنے سے بچنے کی خاطر کتنے بڑے خسارے میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں درحقیقت کچھ بھی نہیں، سب یہودی سود خوروں یا ان کے گماشتوں کے پاس ہے۔ ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی مالیت سونے چاندی کی صورت میں محفوظ رکھے، صرف اتنا بیچ لے جتنے استعمال کی ضرورت ہے۔ سونے کی قیمت ہمیشہ ایک رہی ہے اور رہے گی۔ دیکھیے صحیح حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک دینار میں بکری خریدنا منقول ہے، ہجرت کو چودہ سو تیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی بکری کی قیمت یہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا، لفظ ملک بفتح میم و بضم میم دونوں کے معنے تقریباً ایک ہیں اور مراد اس جگہ اس سے اپنا اختیار ہے اور مقصد اس کا یہ ہے کہ ہم نے گو سالہ کی پرستش پر اقدام اپنے اختیار سے نہیں کیا بلکہ سامری کے عمل کو دیکھ کر ہم مجبور ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ دعویٰ غلط اور بےبنیاد ہے۔ سامری یا اس کے عمل نے ان کو مجبور تو نہیں کردیا تھا خود ہی غور و فکر سے کام نہ لیا تو مبتلا ہوگئے آگے سامری کا وہ واقعہ بیان کیا۔- وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَةِ الْقَوْمِ ، لفظ اوزار وزر کی جمع ہے جس کے معنے ثقل اور بوجھ کے ہیں انسان کے گناہ بھی چونکہ قیامت کے روز اس پر بوجھ بن کر لادے جائیں گے اس لئے گناہ کو زر اور گناہوں کو اوزار کہا جاتا ہے۔ زِيْنَةِ الْقَوْمِ ، لفظ زینت سے مراد زیور ہے اور قوم سے مراد قوم فرعون (قبط) ہے جن سے بنی اسرائیل نے عید کا بہانہ کر کے کچھ زیورات مستعار لے لئے تھے اور وہ پھر ان کے ساتھ رہے۔ ان کو اوزار بمعنی گناہوں کا بوجھ اس لئے کہا کہ عاریت کا نام کر کے ان لوگوں سے لئے تھے جس کا حق یہ تھا کہ ان کو واپس کئے جاویں چونکہ واپس نہیں کئے گئے تو اس کو گناہ قرار دیا اور حدیث فتون کے نام سے جو مفصل حدیث اوپر نقل کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو اس کے گناہ ہونے پر متنبہ کیا اور ایک گڑھے میں یہ سب زیورات ڈال دینے کا حکم دیا۔ بعض روایات میں ہے کہ سامری نے اپنا مطلب نکالنے کے لئے ان کو کہا یہ زیورات دوسروں کا مال ہے تمہارے لئے اس کا رکھنا و بال ہے اس کے کہنے سے گڑھے میں ڈالے گئے۔- کفار کا مال مسلمانوں کے لئے کس صورت میں حلال ہے :- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کفار جو اہل ذمہ یعنی مسلمانوں کی حکمت میں ان کے قانون کی پابندی کر کے بستے ہیں اسی طرح وہ کفار جن سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ جان و مال وغیرہ کے امن کا ہوجائے ان کافروں کا مال تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لئے حلال نہیں لیکن جو کافر نہ مسلمانوں کا اہل ذمہ ہے نہ اس سے ان کا کوئی عہد و معاہدہ ہے جن کو فقہاء کی اصطلاح میں کافر حربی کہا جاتا ہے ان کے اموال تو مسلمانوں کے لئے مباح الاصل اشیاء کی طرح حلال ہیں پھر ہارون (علیہ السلام) نے ان کو وزر و گناہ کیسے قرار دیا اور ان کے قبضہ سے نکال کر گڑھے میں ڈالنے کا حکم کیوں دیا۔ اس کا ایک جواب تو مشہور ہے جو عامہ مفسرین نے لکھا ہے کہ کفار حربی کا مال لینا اگرچہ مسلمان کے لئے جائز ہے مگر وہ مال بحکم مال غنیمت ہے اور مال غنیمت کا قانون شریعت اسلام سے پہلے یہ تھا کہ کافروں کے قبضہ سے نکال لینا تو اس کا جائز تھا مگر مسلمانوں کے لئے اس کا استعمال اور اس سے نفع اٹھانا حلال نہیں تھا بلکہ مال غنیمت جمع کر کے کسی ٹیلہ وغیرہ پر رکھ دیا جاتا تھا اور آسمانی آگ (بجلی وغیرہ) آ کر اس کو کھا جاتی تھی یہی علامت ان کے جہاد قبول ہونے کی تھی اور جس مال غنیمت کو آگ نہ کھائے وہ علامت اس کی تھی کہ جہاد مقبول نہیں اس لئے وہ مال بھی منحوس سمجھا جاتا اور کوئی اس کے پاس نہ جاتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں جو مخصوص رعایتیں اور سہولتیں دی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مال غنیمت کو مسلمانوں کے لئے حلال کردیا گیا جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اس کی تصریح ہے۔- اس قاعدہ کے اعتبار سے بنی اسرائیل کے قبضہ میں آیا ہوا مال جو قوم فرعون سے لیا تھا مال غنیمت ہی کے حکم میں قرار دیا جائے تب بھی اس کا استعمال ان کے لئے جائز نہیں تھا اسی وجہ سے اس مال کو اوزار کے لفظ سے تعبیر کیا گیا اور حضرت ہارون کے حکم سے اس کو ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا۔ - فائدہ مہمہ :- لیکن فقہی نظر سے اس معاملہ کی جو تحقیق امام محمد کی کتاب سیر اور اس کی شرح سرخسی میں بیان کی گئی ہے وہ بہت اہم اور اقرب الی الصواب ہے۔ وہ یہ ہے کہ کافر حربی کا مال بھی ہر حال میں مال غنیمت نہیں ہوتا بلکہ اس کی شرط یہ ہے کہ باقاعدہ جہاد و قتال کے ذریعہ بزور شمشیر ان سے حاصل کیا جائے اسی لئے شرح سیر میں مغالبہ بالمحاربہ شرط قرار دیا ہے اور کافر حربی کا جو مال مغالبہ اور محاربہ کی صورت سے حاصل نہ ہو وہ مال غنیمت نہیں بلکہ اس کو مال فیئی کہتے ہیں مگر اس کے حلال ہونے میں ان کفار کی رضاء و اجازت شرط ہے جیسے کوئی اسلامی حکومت ان پر ٹیکس عائد کر دے اور وہ اس پر راضی ہو کہ یہ ٹیکس دیدے تو اگرچہ یہ کوئی جہاد و قتال نہیں مگر رضامندی سے دیا ہوا مال مال فیئی کے حکم میں ہے اور وہ بھی حلال ہے۔- یہاں قوم فرعون سے لئے ہوئے زیورات ان دونوں قسموں میں داخل نہیں کیونکہ یہ ان سے عاریت کہہ کر لئے گئے تھے وہ ان کو مالکانہ طور پر دینے کے لئے رضامند نہ تھے کہ اس کو مال فیئی کہا جائے اور کوئی جہاد و قتال تو وہاں ہوا ہی نہیں کہ مال غنیمت شمار کیا جائے اس لئے شریعت اسلام کی رو سے بھی یہ مال ان کے لئے حلال نہ تھا۔- واقعہ ہجرت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مدینہ طیبہ جانے کا قصد فرما لیا اور آپ کے پاس عرب کے کفار کی بہت سی امانتیں رکھی تھیں کیونکہ سارا عرب آپ کو امانتدار یقین کرتا اور امین کے لفظ سے خطاب کرتا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی امانتوں کو واپس کرنے کا اتنا اہتمام فرمایا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کر کے اپنے پیچھے ان کو چھوڑا اور حکم دیا کہ جس کی امانت ہے اس کو واپس کردی جائے آپ اس سے فارغ ہو کر ہجرت کریں۔ اس مال کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیتم کے تحت حلال قرار نہیں دیا ورنہ وہ مسلمانوں کا حق ہوتا کافروں کو واپس کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ واللہ اعلم - فَقَذَفْنٰهَا یعنی ہم نے ان زیورات کو پھینک دیا۔ حدیث فنون مذکورہ کی رو سے یہ عمل حضرت ہارون (علیہ السلام) کے حکم سے کیا گیا اور بعض روایات میں ہے کہ سامری نے ان کو بہکا کر زیورات گڑھے میں ڈلوا دیئے اور دونوں باتیں جمع ہوجائیں یہ بھی کوئی مستبعد نہیں۔- فَكَذٰلِكَ اَلْقَي السَّامِرِيُّ ، حدیث فتون مذکور میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے جب بنی اسرائیل کے سب زیورات گڑھے میں ڈلوا دیئے اور اس میں آگ جلوا دی کہ سب زیورات پگھل کر یک جسم ہوجائیں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد اس کا معاملہ طے کیا جاوے گا کہ کیا کیا جائے۔ جب سب لوگ اپنے اپنے زیورات اس میں ڈال چکے تو سامری بھی مٹھی بند کئے ہوئے پہنچا اور حضرت ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میں بھی ڈال دوں۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے یہ سمجھا کہ اس کے ہاتھ میں بھی کوئی زیور ہوگا، فرمایا کہ ڈال دو ۔ اس وقت سامری نے ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میں جب ڈالوں گا کہ آپ یہ دعا کریں کہ جو کچھ میں چاہتا ہوں وہ پورا ہوجائے۔ ہارون (علیہ السلام) کو اس کا نفاق و کفر معلوم نہیں تھا دعا کردی۔ اب جو اس نے اپنے ہاتھ سے ڈالا تو زیور کے بجائے مٹی تھی جس کو اس نے جبرئیل امین کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے کہیں یہ حیرت انگیز واقعہ دیکھ کر اٹھا لیا تھا کہ جس جگہ اس کا قدم پڑتا ہے وہیں مٹی میں نشو و نما اور آثار حیات پیدا ہوجاتے ہیں جس سے اس نے سمجھا کہ اس مٹی میں آثار حیات رکھے ہوئے ہیں شیطان نے اس کو اس پر آمادہ کردیا کہ یہ اس کے ذریعہ ایک بچھڑا زندہ کر کے دکھلا دے۔ بہرحال اس مٹی کا ذاتی اثر ہو یا حضرت ہارون (علیہ السلام) کی دعا کا کہ یہ سونے چاندی کا پگھلا ہوا ذخیرہ اس مٹی کے ڈالنے اور ہارون (علیہ السلام) کی دعا کرنے کے ساتھ ایک زندہ بچھڑا بن کر بولنے لگا جن روایات میں ہے کہ سامری ہی نے بنی اسرائیل کو زیورات اس گڑھے میں ڈالنے کا مشورہ دیا تھا ان میں یہ بھی ہے کہ اس نے زیورات کو پھگلا کر ایک بچھڑے کی مورت تیار کرلی تھی مگر اس میں کوئی زندگی نہیں تھی۔ پھر یہ جبرائیل امین کے نشان قدم کی مٹی ڈالنے کے بعد اس میں حیات پیدا ہوگئی (یہ سب روایات تفسیر قرطبی وغیرہ میں مذکور ہیں اور ظاہر ہے کہ اسرائیلی روایات ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا مگر ان کو غلط کہنے کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰہَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَي السَّامِرِيُّ۝ ٨٧ۙ- ملك - المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، - ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ - حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- وزر - الوَزَرُ : الملجأ الذي يلتجأ إليه من الجبل .- قال تعالی: كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة 11] والوِزْرُ : الثّقلُ تشبيها بِوَزْرِ الجبلِ ، ويعبّر بذلک عن الإثم کما يعبّر عنه بالثقل . قال تعالی:- لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ- [ النحل 25] ، کقوله : وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت 13] وحمل وِزْر الغیرِ في الحقیقة هو علی نحو ما أشار إليه صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «من سنّ سنّة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجره شيء، ومن سنّ سنّة سيّئة کان له وِزْرُهَا ووِزْرُ من عمل بها» «4» أي : مثل وِزْرِ مَن عمل بها . - ( و ز ر ) الوزر - ۔ پہاڑ میں جائے پناہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة 11] بیشک کہیں پناہ نہیں اس روز پروردگار ہی کے پاس جانا ہے ۔ الوزر ۔ کے معنی بار گراں کے ہیں اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں اور جس طرح مجازا اس کے معنی بوجھ کے آتے ہیں اسی طرح وزر بمعنی گناہ بھی آتا ہے ۔ ( اسی کی جمع اوزار ہے ) جیسے فرمایا : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل 25]( اے پیغمبر ان کو بکنے دو ) یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال کے ) پورے سے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی ( اٹھائیں گے ) جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت 13] اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی ۔ اور دوسروں کو بوجھ اٹھانے کے حقیقت کیطرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا من سن سنتہ حسنتہ کان لہ اجرھا واجر من عمل بھا من غیران ینقض من اجرہ شیئ ومن سن سنتہ سیئتہ کان لہ وزرھا ووزر من عمل بھا کی جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بدوں اس کے کہ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے بری رسم جاری کی اس کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔ تویہاں ان لوگوں کے اجر یا بوجھ سے ان کی مثل اجر یا بوجھ مراد ہے - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - قذف - الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة،- وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي .- ( ق ذ ف ) القذف - ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٧) قوم کہنے لگی موسیٰ (علیہ السلام) ہم نے جو تم سے وعدہ کیا تھا، اس کی اپنے اختیار سے خلاف ورزی نہیں کی لیکن آل فرعون کے زیورات کا ہم پر بوجھ لاد رہا تھا اس لیے اس نے اس بچھڑے کی پوجا پر مجبور کیا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ ہم نے ان زیورات کو آگ میں ڈال دیا اور اسی طرح سامری نے بھی اپنے ساتھ کا زیور آگ میں ڈال دیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :67 یہ ان لوگوں کا عذر تھا جو سامری کے فتنے میں مبتلا ہوئے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے زیورات پھینک دیے تھے ۔ نہ ہماری کوئی نیت بچھڑا بنانے کی تھی ، نہ ہمیں معلوم تھا کہ کیا بننے والا ہے ۔ اس کے بعد جو معاملہ پیش آیا وہ تھا ہی کچھ ایسا کہ اسے دیکھ کر ہم نے اختیار شرک میں مبتلا ہو گئے ۔ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے ، اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے مردوں اور عورتوں نے مصر کی رسموں کے مطابق جو بھاری زیورات پہن رکھے تھے وہ اس صحرا نوردی میں ہم پر بار ہو گئے تھے ۔ اور ہم پریشان تھے کہ اس بوجھ کو کہاں تک لادے پھریں ۔ لیکن بائیبل کا بیان ہے کہ یہ زیورات مصر سے چلتے وقت ہر اسرائیلی گھرانے کی عورتوں اور مردوں نے اپنے مصری پڑوسی سے مانگے کو لے لیے تھے اور اس طرح ہر ایک اپنے پڑوسی کو لوٹ کر راتوں رات ہجرت کے لیے چل کھڑا ہوا تھا ۔ یہ اخلاقی کارنامہ صرف اسی حد تک نہ تھا کہ ہر اسرائیلی نے بطور خود اسے انجام دیا ہو ، بلکہ یہ کار خیر اللہ کے نبی حضرت موسیٰ نے ان کو سکھایا تھا ، اور نبی کو بھی اس کی ہدایت خود اللہ میاں نے دی تھی ۔ بائیبل کی کتاب خروج میں ارشاد ہوتا ہے : خدا نے موسیٰ سے کہا ............................ جا کر اسرائیلی بزرگوں کو ایک جگہ جمع کر اور ان کو کہہ ................ کہ جب تم نکلو گے تو خالی ہاتھ نہ نکلو گے بلکہ تمہاری ایک ایک عورت اپنی پڑوسن سے اور اپنے اپنے گھر کی مہمان سے سونے چاندی کے زیور اور لباس مانگ لے گی ۔ ان کو تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پہناؤ گے اور مصریوں کو لوٹ لو گے ۔ ( باب 3 ۔ آیت 14 تا 22 ) اور خداوند نے موسیٰ سے کہا ........... سو اب تو لوگوں کے کان میں یہ بات ڈال دے کہ ان میں سے ہر شخص اپنے پڑوسی اور ہر عورت اپنی پڑوسن سے سونے چاندی کے زیور لے ، اور خداوند نے ان لوگوں پر مصریوں کو مہربان کر دیا ( باب 11 ۔ آیت 2 ۔ 3 ) اور بنی اسرائیل نے موسیٰ کے کہنے کے موافق یہ بھی کیا کہ مصریوں سے سونے چاندی کے زیور اور کپڑے مانگ لیے اور خداوند نے ان لوگوں کو مصریوں کی نگاہ میں ایسی عزت بخشی کہ جو کچھ انہوں نے مانگا انہوں نے دیا ، سو انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا ۔ ( باب 12 ۔ آیت 35 ۔ 36 ) افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے بھی قرآن کی اس آیت کی تفسیر میں بنی اسرائیل کی اس روایت کو آنکھیں بند کر کے نقل کر دیا ہے اور ان کی اس غلطی سے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا ہے کہ زیورات کا یہ بوجھ اسی لوٹ کا بوجھ تھا ۔ آیت کے دوسرے ٹکڑے اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا تھا کا مطلب ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جب اپنے زیورات کو لادے پھرنے سے لوگ تنگ آ گئے ہوں گے تو باہم مشورے سے یہ بات قرار پائی ہو گی کہ سب کے زیورات ایک جگہ جمع کر لیے جائیں ، اور یہ نوٹ کر لیا جائے کہ کس کا کتنا سونا اور کس کی کتنی چاندی ہے ، پھر ان کو گلا کر اینٹوں اور سلاخوں کی شکل میں ڈھال لیا جائے ، تاکہ قوم کے مجموعی سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر لاد کر چلا جاسکے ۔ چنانچہ اس قرارداد کے مطابق ہر شخص اپنے زیورات لا لا کر ڈھیر میں پھینکتا چلا گیا ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ فرعون کے لشکر کا چھوڑا ہوا مالِ غنیمت تھا، اُس دور میں مالِ غنیمت کو استعمال کرنا جائز نہیں تھا۔ اس کے بجائے اُسے ایک میدان میں رکھ دیا جاتا تھا، اور آسمان سے ایک آگ آکر اُسے جلا دیتی تھی، شاید اُن زیورات کو پھینکنے کا یہی مقصد ہو کہ آسمانی آگ انہیں آ کر جلا دے۔ اس کے برخلاف عام طور پر تفسیروں میں یہ روایت مذکور ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تھے تو نکلنے سے پہلے انہوں نے فرعون کی قوم کے ملوگوں سے بہت سے زیورات عید کے موقع پر پہننے کے لئے مستعار لئے تھے وہ سارے زیورات مصر سے نکلتے ہوئے ان کے ساتھ تھے۔ چونکہ یہ زیورات دوسروں کی امانت تھی۔ اس لئے بنی اسرائیل کے لئے جائز نہیں تھا کہ وہ انہیں مالکوں کی اجازت کے بغیر استعمال کریں، دوسری طرف انہیں واپس کرنے کا بھی کوئی راستہ نہیں تھا اس لئے حضرت ہارون علیہ السلام نے ان سے کہا کہ یہ زیورات یہیں پھینک دو، اور ان کے ساتھ وہی معاملہ کرو، جو دُشمن سے حاصل کئے ہوئے مالِ غنیمت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی روایت بہت مستند نہیں ہے، اور احتمال یہ بھی ہے کہ سامری نے اپنا شعبدہ دکھانے کے لئے لوگوں سے کہا ہو کہ تم اپنے اپنے زیور نیچے پھینکو، میں تمہیں ایک تماشا دکھاتا ہوں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عام لوگوں نے جو زیورات پھینکے، اس کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے قذف کا لفظ استعمال فرمایا ہے، اور سامری نے جو کچھ پھینکا، اُس کے لئے دوسرا لفظ ’’القاء‘‘ استعمال فرمایا ہے۔ اس میں یہ بھی امکان ہے کہ یہ صرف اُسلوب کی تبدیلی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ سامری کے پھینکنے سے مراد اس کی شعبدہ بازی کی کاریگری ہو، کیونکہ ’’القاء‘‘ کا لفظ جادوگروں کے کرتب کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ 36: جب سارے لوگوں نے اپنے زیورات پھینک دئیے تو سامری بھی کوئی چیز مٹھی میں دبا کر لایا، اور حضرت ہارون علیہ السلام سے کہا کہ کیا میں بھی پھینک دوں؟ حضرت ہارون علیہ السلام نے سمجھا کہ وہ بھی کوئی زیور ہوگا، اس لئے فرمایا کہ ڈال دو۔ اُس پر سامری نے کہا کہ آپ میرے لئے دعا فرمائیں کہ جب میں ڈالوں تو جو کچھ میں چاہتا ہوں، وہ پورا ہوجائے۔ حضرت ہارون علیہ السلام کو اس کی منافقت معلوم نہیں تھی، اس لئے دعا فرما دی۔ حقیقت میں وہ مٹھی میں زیور کے بجائے مٹی لے کر آیا تھا۔ اور اس نے وہ مٹی ان زیورات پر ڈال کر انہیں پگھلا دیا اور ان سے ایک بچھڑے کی سی مورت بنا لی جس میں سے آواز نکلتی تھی۔