Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 زینۃ سے زیورات اور القوم سے قوم فرعون مراد ہے۔ کہتے ہیں یہ زیورات انہوں نے فرعونیوں سے عاریتًا لئے تھے، اسی لئے انھیں بوجھ کہا گیا کیونکہ یہ ان کے لئے جائز نہیں تھے، چناچہ انھیں جمع کر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، سامری نے بھی (جو مسلمانوں کے بعض گمراہ فرقوں کی طرح) گمراہ تھا اس نے تمام زیورات کو تپا کر ایک طرح بچھڑا بنادیا کہ جس میں ہوا کے اندر باہر آنے جانے سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس آواز سے اس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو گمراہ ہوگئے ہیں کہ وہ اللہ سے ملنے کے لئے طور پر گئے ہیں، جبکہ تمہارا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا معبود تو یہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦١] قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے سوالوں کا یہ جواب دیا کہ ہم نے عمدا ً کچھ ایسا قصد نہیں کیا تھا بلکہ ہوا یہ تھا کہ اس طویل سفر میں زیورات کا بوجھ ہمارے لئے ناقابل برداشت بن گیا تھا لہذا ہم چاہتے تھے کہ اس کے کہ ہمارے سب افراد یہ بوجھ اٹھائے رکھیں انھیں کیوں نہ اکٹھا کرکے پگھلا کر اس کی اینٹیں بنا لی جائیں تاکہ اس کی نقل و حرکت میں آسانی ہوجائے اور دوسرے سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر لادا جاسکے۔- اور اس میں ہر ایک کے زیور کی مقدار الگ الگ لکھ لی جائے اور جب کہیں مقیم ہوں گے تو اپنے اپنے حصہ کا سونا پھر سے بانٹ کر زیور بنوائے جاسکتے ہیں۔ اس خیال سے ہم نے لوگوں نے بھی اپنے اپنے زیور اتار پھینکے اور اسی طرح سامری نے اپنا زیور اس مجموعہ میں شامل کردیا۔ سونے کو پگھلانے کا کام سامری کے ذمہ تھا۔ اس نے یہ شرارت کی کہ بجائے اس کے زیورات کو پگھلا کر سونے کی اینٹیں بناتا، اس کو بچھڑے کی شکل دے دی۔ پھر کچھ ایسا کرتب دکھایا کہ اس بچھڑے سے بچھڑے کی سی آواز بھی نکلتی تھی اور کہنے لگا کہ حقیقتا تو یہی تمہارا الہ ٰ ہے۔ جو سونا پگھلانے پر آپ سے آپ اس شکل میں نمودار ہوگیا ہے۔ یہ لوگ مصر میں چونکہ بڑی مدت فرعونیوں کی دیکھا دیکھی بیل کی پرستش کرتے رہے تھے اور ابھی تک ان کے ذہن میں پوری طرح صاف نہیں ہوئے تھے لہذا جاہل عوام نے فورا ً سامری کی آواز پر لبیک کہی اور ہنے لگے کہ اصل میں ہمارا اور موسیٰ کا بھی الٰہ تو یہ تھا۔ موسیٰ پتا نہیں طور پر کیا لینے گیا ہے ؟ چناچہ یہ معاملہ ہمارے اختیار سے باہر ہوگیا اور اکثریت کی دیکھا دیکھی ہمیں بھی یہی راہ اختیار کرنا پڑی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْــلًا ۔۔ : مصری لوگ ہندوؤں کی طرح گائے کی پرستش کرتے تھے اور اس کی تقدیس کے قائل تھے۔ بنی اسرائیل میں بھی مسلمان ہونے کے باوجود قبطی مشرکوں کی غلامی اور ان سے میل جول کی وجہ سے یہ عقیدہ سرایت کر گیا تھا، جس کا وقتاً فوقتاً اظہار ہوتا رہتا تھا، جیسا کہ اس وقت ہوا جب موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں کوئی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ دیکھیے سورة بقرہ (٦٧) اب موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی میں سامری نے بنی اسرائیل کے زیوروں سے گائے کا بچھڑا بنایا جو بےجان تھا، مگر ایسی کاری گری سے بنایا گیا تھا کہ اس میں رکھے گئے سوراخوں کی وجہ سے خود بخود گائے کی سی آواز نکلتی تھی۔ وہ لوگ جنھوں نے سمندر سے پار ہوتے ہی چند بت پرستوں کے پاس سے گزرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے ان کے معبودوں جیسا معبود بنانے کا مطالبہ داغ دیا تھا، انھی جاہلوں نے فوراً اسے اپنا معبود تسلیم کرلیا اور کہنے لگے، تمہارا اور موسیٰ کا اصل معبود تو یہ ہے، موسیٰ بھول میں پڑگئے جو طور پر کسی معبود سے کلام کے لیے گئے ہیں۔ ہمارے بعض صوفی حضرات بھی تصور شیخ کے شرک میں اس حد تک بڑھ گئے کہ جو محبت اپنے رب سے کرنی تھی اور جس طرح ہر وقت اسی کو اپنے سامنے رکھنا تھا، وہ محبت اور یاد شیخ کی نذر کردی اور یہاں تک کہہ دیا ؂- اے قوم بحج رفتہ کجائید کجائید معشوق - درینجا ست کجائید کجائید - ” اے حج کو گئے ہوئے لوگو تم کہاں ہو، تم کہاں ہو ؟ معشوق تو یہاں ہے، تم کہاں ہو، تم کہاں ہو ؟ “- جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ ۔۔ : بعض مفسرین نے یہ تک لکھ دیا ہے کہ وہ گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا، مگر اس کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ وہ محض دھات کا بنا ہوا ایک بےجان مجسمہ تھا۔ ” خُوَارٌ“ گائے کی آواز۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْــلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ یعنی نکال لیا سامری نے ان زیوات سے ایک بچھڑے کا جسم جس میں گائے کی آواز (خوار) تھی۔ لفظ جسدا سے بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ محض ایک جسد اور جسم تھا زندگی اس میں نہیں تھی اور آواز بھی ایک خاص صفت کے سبب اس سے نکلتی تھی، عامہ مفسرین کا قول وہی ہے جو اوپر لکھا گیا کہ اس میں آثار زندگی کے تھے۔- فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰـــهُكُمْ وَاِلٰهُ مُوْسٰى ۥ فَنَسِيَ ، یعنی سامری اور اس کے ساتھی یہ بچھڑا بولنے والا دیکھ کر دوسرے بنی اسرائیل سے کہنے لگے کہ یہی تمہارا اور موسیٰ کا خدا ہے موسیٰ (علیہ السلام) بھول بھٹک کر کہیں اور چلے گئے۔ یہاں تک بنی اسرائیل کے عذر لنگ کا بیان تھا جو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عتاب کے وقت پیش کیا اس کے بعد

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَخْرَجَ لَہُمْ عِجْــلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰـــہُكُمْ وَاِلٰہُ مُوْسٰى ۥ فَنَسِيَ۝ ٨٨ۭ- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - عِجْلُ ( بچهڑا)- : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً- [ الأعراف 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ.- العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔- جسد - الجَسَد کالجسم لكنه أخصّ ، قال الخلیل رحمه اللہ : لا يقال الجسد لغیر الإنسان من خلق الأرض «3» ونحوه، وأيضا فإنّ الجسد ما له لون، والجسم يقال لما لا يبين له لون، کالماء والهواء . وقوله عزّ وجلّ : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] ، يشهد لما قال الخلیل، وقال : عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ طه 88] ، وقال تعالی: وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص 34] . وباعتبار اللون قيل للزعفران : جِسَاد، وثوب مِجْسَد : مصبوغ بالجساد «4» ، والمِجْسَد : الثوب الذي يلي الجسد، والجَسَد والجَاسِد والجَسِد من الدم ما قد يبس .- ( ج س د ) الجسد - ( اسم ) جسم ہی کو کہتے ہیں مگر یہ جسم سے اخص ہے خلیل فرماتے ہیں کہ جسد کا لفظ انسان کے علاوہ دوسری مخلوق پر نہیں بولا جاتا ہے نیز جسد رنگدار جسم کو کہتے ہیں مگر جسم کا لفظ بےلون اشیاء مثلا پانی ہوا وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] کہ ہم ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھاتے ہوں ۔ سے خلیل کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔ نیز قرآن میں ہے ۔ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ طه 88] ایک بچھڑا یعنی قالب جس کی آواز گائے کی سی تھی ۔ وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص 34] اور ان ک تخت پر ہم نے ایک دھڑ ڈال دیا چناچہ انہوں نے خد ا کی طرف رجوع کیا اور لون کے اعتبار سے زعفران کو جساد کہا جاتا ہے اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے ثوب مجسد کہتے ہیں ۔ المجسد ۔ کپڑا جو بدن سے متصل ہو الجسد والجاسد والجسد ۔ خشک خون ۔- خوار - قوله تعالی: عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف 148] . الخُوَار مختصّ بالبقر، وقد يستعار للبعیر، ويقال : أرض خَوَّارَة، ورمح خَوَّار، أي : فيه خَوَرٌ. والخَوْرَان : يقال لمجری الرّوث «1» ، وصوت البهائم .- ( خ و ر ) الخوار - ۔ دراصل یہ لفظ گائے بیل کی آواز کے ساتھ مختص ہے ۔ پھر استعارہ اونٹ کی آواز پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :َ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف 148] ایک پچھڑا ( یعنی اس کا ) قالب جس کی آواز گائے کی سی تھی ۔ ارض خوارۃ دو بلندیوں کے درمیان پست زمین ۔ رمخ خوار ۔ کمزور نیزہ ۔ الخواران ۔ بہائم کی آواز ۔ جانوروں کے گوبر کرنے کا راستہ ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٨) پھر ان زیورات کا جو کہ آگ میں ڈالے گئے تھے سامری نے ان لوگوں کے لیے اس کا ایک بچھڑا بنا کر ظاہر کیا جو کہ ایک قالب خالی از کمالات تھا اور اس میں صرف ایک بےمعنی آواز تھی، قوم نے اس کے بارے میں سامری سے پوچھا کہ یہ کیا ہے، سامری نے ان سے کہا کہ تمہارا اور موسیٰ کا بھی معبود تو یہ ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) تو بھول گئے اور غلطی سے کوہ طور پر چلے گئے یا یہ کہ سامری نے حکم خداوندی اور اطاعت خداوندی کو چھوڑ دیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (فَاَخْرَجَ لَہُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ) ” - اس سلسلے میں جو مختلف روایات ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ مصر میں اگرچہ اسرائیلی قوم کی حیثیت غلامانہ تھی مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے تعلق کی وجہ سے ان کی دیانت داری مسلمّ تھی۔ چناچہ قبطی قوم کے لوگ اپنے زیورات اور دوسری قیمتی چیزیں اکثر ان کے پاس امانت رکھوایا کرتے تھے۔ جب یہ لوگ مصر سے نکلے تو قبطی قوم کے بہت سے زیورات بھی وہ اپنے ساتھ لے آئے جو ان میں سے اکثر لوگوں کے پاس بطور امانت پڑے تھے۔ البتہ اس کا ان کے ذہن پر ایک بوجھ تھا کہ یہ ہمارے لیے جائز بھی ہیں یا نہیں ؟ اس حوالے سے سامری نے بھی انہیں قائل کرلیا کہ اس بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کو یہ زیورات پھینک دینے چاہئیں۔ چناچہ جب ان لوگوں نے وہ زیوارت پھینک دیے تو سامری نے انہیں پگھلا کر گائے کے بچھڑے کی شکل کا ایک مجسمہ بنا ڈالا ‘ اور اس میں خاص مہارت سے کچھ ایسے سوراخ رکھے کہ جب ان میں سے ہوا کا گزر ہوتا تو بیل کے ڈکرانے کی سی آواز پیدا ہوتی۔ اس کی دوسری توجیہہ وہ ہے جو سامری نے خود بیان کی اور اس کا ذکر آئندہ آیات میں آئے گا۔- (فَقَالُوْا ہٰذَآ اِلٰہُکُمْ وَاِلٰہُ مُوْسٰی فَنَسِیَ ) ” - یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مغالطہ ہوا ہے جو وہ ( علیہ السلام) اپنے رب سے ملاقات کے لیے کوہ طور پر چلے گئے ہیں ‘ حالانکہ ہمارا اور ان ( علیہ السلام) کا رب تو یہاں موجود ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :68 یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی عبارت پو غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ قوم کا جواب پھینک دیا تھا پر ختم ہو گیا ہے اور بعد کی یہ تفصیل اللہ تعالیٰ خود بتا رہا ہے ۔ اس سے صورت واقعہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگ پیش آنے والے فتنے سے بے خبر ، اپنے اپنے زیور لا لا کر ڈھیر کرتے چلے گئے ، اور سامری صاحب بھی ان میں شامل تھے ۔ بعد میں زیور گلانے کی خدمت سامری صاحب نے اپنے ذمے لے لی ، اور کچھ ایسی چال چلی کہ سونے کی اینٹیں یا سلاخیں بنانے کے بجائے ایک بچھڑے کی مورت بھٹی سے برآمد ہوئی جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی ۔ اس طرح سامری نے قوم کو دھوکا دیا کہ میں تو صرف سونا گلانے کا قصور وار ہوں ، یہ تمہارا خدا آپ ہی اس شکل میں جلوہ فرما ہو گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani