89۔ 1 اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت و نادنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں پتہ چلا کہ یہ بچھڑا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ نہ نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ جب کہ معبود تو وہی ہوسکتا ہے جو ہر ایک کی فریاد سننے پر، نفع و نقصان پہنچانے پر اور حاجت برآوری پر قادر ہو۔
[٦٢] یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے یعنی ان بدبختوں کو اتنی بھی سمجھ نہ آئی کہ اگر اس بچھڑے کی سی آواز نکلتی بھی ہے تو وہ کیا ان کے سوال کا جواب دے سکتا ہے ؟ بلکہ وہ تو سنتا بھی نہیں پھر جواب کیا دے گا ؟ اور جو چیز نہ سن سکے نہ جواب دے سکے وہ کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہے یا سنوار سکتی ہے ؟ نیز وہ الہٰ کیسے ہوسکتی ہے ؟
اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا ۔۔ : یہ وہی دلیل ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد اور قوم کے سامنے پیش کی تھی : (يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَـيْــــــًٔــا) [ مریم : ٤٢ ] ” اے میرے باپ تو اس چیز کی عبادت کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے اور نہ دیکھتی ہے اور نہ تیرے کسی کام آتی ہے۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) کے پیش کردہ اکثر دلائل وہی ہیں جو ان کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیے تھے، دیکھیے سورة شعراء۔ بنی اسرائیل کی عجائب پرستی دیکھیے کہ دھات کے بنے ہوئے بچھڑے کے بےجان مجسمے کو صرف آواز کی وجہ سے معبود، حاجت روا اور مشکل کشا مان بیٹھے۔ مجسمہ بھی اس جانور کا جسے تمام جانوروں سے سادہ لوح سمجھا جاتا ہے اور جو خود انسان کا خدمت گار اور اس کی خوراک ہے۔ یہ نہ سوچا کہ اس مجسمے سے تو وہ خود ہزار گنا بااختیار ہیں کہ بول سکتے ہیں، اپنی مرضی سے چل پھر سکتے ہیں اور بقدر استطاعت کچھ نہ کچھ فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں، جب کہ بت بچھڑے کا ہو یا انسان کا، بات کرنے، چلنے پھرنے، سننے دیکھنے، ہر چیز سے عاری ہے۔ سورة اعراف کی آیات (١٩٤، ١٩٥) میں یہ بات نہایت تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔
اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا ڏ وَّلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا میں ان کی حماقت اور گمراہی کو بیان فرمایا ہے کہ اگر یہ فی الواقع ایک بچھڑا زندہ ہی ہوگیا اور گائے کی طرح بولنے بھی لگا تو عقل کے دشمنو یہ تو سمجھو کہ خدائی کا اس سے کیا واسطہ ہے جبکہ نہ وہ تمہاری کسی بات کا جواب دے سکتا ہے نہ تمہیں کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے تو اس کو خدا ماننے کی حماقت کا کیا جواز ہے۔
اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِـــعُ اِلَيْہِمْ قَوْلًا ٠ۥۙ وَّلَا يَمْلِكُ لَہُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا ٨٩ۧ- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔
(٨٩) اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی سمجھ کا نقص بیان فرماتے ہیں کہ کیا سامری اور اس کے ساتھی اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا نہ تو انکی کسی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ اس سے کسی نقصان کے دور کرنے اور ان کو کسی قسم کے نفع پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے۔
آیت ٨٩ (اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْہِمْ قَوْلاً لا) ” - کیا انہیں نظر نہیں آتا تھا کہ وہ بچھڑا ان کی کسی بات کو جواب نہیں دے سکتا تھا۔ اس میں سے تو ایک بےمعنی بھاں بھاں کی آواز نکلتی تھی اور بس