بنی اسرائیل اور ہارون علیہ السلام ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آنے سے پہلے حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں ہر چند سمجھایا بجھایا کہ دیکھو فتنے میں نہ پڑو اللہ رحمان کے سوا اور کسی کے سامنے نہ جھکو ۔ وہ ہر چیز کا خالق مالک ہے سب کا اندازہ مقرر کرنے والا وہی ہے وہی عرش مجید کا مالک ہے وہی جو چاہے کر گزرنے والا ہے ۔ تم میری تابعداری اور حکم برداری کرتے رہو جو میں کہوں وہ بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ ۔ لیکن ان سرکشوں نے جواب دیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی سن کر تو خیر ہم مان لیں گے تب تک تو ہم اس کی پرستش نہیں چھوڑیں گے ۔ چنانچہ لڑنے اور مرنے مارنے کے واسطے تیار ہو گئے ۔
90۔ 1 حضرت ہارون (علیہ السلام) نے یہ اس وقت کہا جب یہ قوم سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی عبادت میں لگ گئی
وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے سے پہلے ہارون (علیہ السلام) نے نہایت اچھے طریقے سے نصیحت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہارون (علیہ السلام) کے خطاب کا ذکر ” انما “ (بلاشبہ یقینا) کے ساتھ شروع فرمایا، اس میں بائبل کا رد ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ بچھڑا ہارون (علیہ السلام) نے بنایا تھا۔ فرمایا، یقینی بات یہ ہے کہ ہارون (علیہ السلام) نے تو اپنی قوم کو اس کی عبادت سے منع فرمایا تھا۔ ہارون (علیہ السلام) کے خطاب کا حسن دیکھیے کہ سب سے پہلے یہ کہہ کر انھیں اپنا اور ان کا باہمی تعلق بتایا کہ ” يٰقَوْمِ “ (اے میری قوم ) یعنی اپنے ایک فرد کی بات سنو، جو تمہارا ایک فرد ہے اور تم سب کی اس سے رشتہ داری ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم سے فرمایا : ( لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ) [ الشوریٰ : ٢٣ ] ” میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، مگر رشتہ داری کی وجہ سے دوستی۔ “ پھر باطل معبود کی نفی کے بعد صرف معبود برحق ” رحمان “ کو اپنا رب ماننے کی تاکید فرمائی جو ہر حال میں انسان پر رحم فرماتا ہے، جیسا کہ ” لا الٰہ الا اللہ “ میں پہلے ہر معبود کی نفی اور آخر میں اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کا اثبات ہے۔ آخر میں اپنی نبوت اور موسیٰ (علیہ السلام) کی خلافت کی وجہ سے اپنے پیچھے چلنے اور اپنا حکم ماننے کی تلقین فرمائی۔ نصیحت کی یہ بہترین ترتیب ہے۔ - 3 یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ شیعہ حضرات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ابوبکر (رض) کے بجائے علی (رض) کے خلیفہ ہونے کی دلیل کے طور پر ایک حدیث بڑے زور و شور سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (رض) سے فرمایا : ( أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی إِلاَّ أَنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعْدِیْ ) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علي بن أبي طالب (رض) : ٣١؍٢٤٠٤، عن سعد بن أبي وقاص (رض) ] ” تم مجھ سے اسی مقام پر ہو جو ہارون (علیہ السلام) کا موسیٰ (علیہ السلام) سے تھا، سوائے اس بات کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ “ ان حضرات کو دیکھنا چاہیے کہ اپنے مخالفین کے اتنے بڑے مجمع میں، جو ہارون (علیہ السلام) کے قتل تک پر تیار تھا، ہارون (علیہ السلام) نے تقیہ اختیار نہیں کیا، بلکہ سب لوگوں کے سامنے واضح الفاظ میں حق بیان فرمایا اور لوگوں کو اپنے اتباع اور اطاعت کی دعوت دی اور دوسروں کی پیروی اور اطاعت سے منع فرمایا، تو اگر امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنانے میں خطا پر ہوتی تو علی (رض) پر لازم تھا کہ وہی کرتے جو ہارون (علیہ السلام) نے کیا تھا اور کسی بھی تقیہ اور خوف کے بغیر اپنی خلافت کا اعلان کرتے اور صاف الفاظ میں کہتے ” فَاتَّبِعُوْنِيْ وَاَطِيْعُوْٓا اَمْرِيْ “ تو جب انھوں نے ایسا نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ امت کا فیصلہ درست تھا۔ (رازی)
خلاصہ تفسیر - اور ان لوگوں سے ہارون (علیہ السلام) نے (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لوٹنے سے) پہلے بھی کہا تھا کہ اے میری قوم تم اس (گو سالہ) کے سبب گمراہی میں پھنس گئے ہو (یعنی اس کی پرستش کسی طرح درست نہیں ہو سکتی یہ کھلی گمراہی ہے) اور تمہارا رب (حقیقی) رحمان ہے (نہ کہ یہ گو سالہ) سو تم (دین کے بارے میں) میری راہ پر چلو اور (اس بات میں) میرا کہنا مانو (یعنی میرے قول و فعل کی اقتدا کرو) انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو جب تک موسیٰ (علیہ السلام) واپس (ہوکر) آئیں اسی (کی عبادت) پر برابر جمے بیٹھے رہیں گے (غرض ہارون (علیہ السلام) کا کہنا نہیں مانا تھا یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی آگئے اور قوم سے اول خطاب کیا جو اوپر آ چکا بعد اس کے ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور) کہا اے ہارون جب تم نے (ان کو) دیکھا تھا کہ یہ (بالکل) گمراہ ہوگئے (اور نصیحت بھی نہیں سنی) تو (اس وقت) تم کو میرے پاس چلے آنے سے کون امر مانع ہوا تھا (یعنی اس وقت میرے پاس چلا آنا چاہئے تھا تاکہ ان لوگوں کو اور زیادہ یقین ہوتا کہ تم ان کے فعل کو نہایت ناپسند کرتے ہو اور نیز ایسے باغیوں سے قطع تعلقات جس قدر زیادہ ہو بہتر ہے) سو کیا تم نے میرے کہنے کے خلاف کیا (کہ میں نے کہا تھا وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ جیسا پارہ نہم میں ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مفسدین کے راستہ کا اتباع نہ کریں جس کے عموم میں یہ بھی داخل ہے کہ مفسدین کے ساتھ تعلقات نہ رکھیں اور سب سے الگ ہوجائیں) ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے مَیّا جائے (یعنی میرے بھائی) تم میری داڑھی مت پکڑ و اور نہ سر (کے بال) پکڑو (اور میرا عذر سن لو میرے تمہارے پاس نہ آنے کی یہ وجہ تھی کہ) مجھ کو یہ اندیشہ ہوگیا کہ (اگر میں آپ کی طرف چلا تو میرے ساتھ وہ لوگ بھی چلیں گے جو گو سالہ پرستی سے الگ رہے تو بنی اسرائیل کی جماعت کے دو ٹکڑے ہوجاویں گے کیونکہ گو سالہ کی پرستش کو برا سمجھنے والے میرے ساتھ ہوں گے اور دوسرے لوگ اس کی عبادت پر ہی جمے رہیں گے اور اس حالت میں) تم کہنے لگو کہ تم نے بنی اسرائیل کے درمیان تفرق ڈال دی ( جو بعض اوقات ان کے ساتھ رہنے سے زیادہ مضر ہوتی ہے کہ مفسدین خالی میدان پا کر بےخطر فساد میں ترقی کرتے ہیں) اور تم نے میری بات کا پاس نہ کیا ( کہ میں نے کہا تھا اَصْلِحْ ، یعنی اس صورت میں آپ مجھے یہ الزام دیتے کہ میں نے تمہیں اصلاح کرنے کا حکم دیا تھا تم نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال کر فساد کھڑا کردیا۔ )- معارف و مسائل - بنی اسرائیل میں گو سالہ پرستی کا فتنہ پھوٹ پڑا تو حضرت ہارون (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کی خلافت اور نیابت کا حق ادا کر کے قوم کو سمجھایا مگر جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ان میں تین فرقے ہوگئے ایک فرقہ تو حضرت ہارون کے ساتھ رہا ان کی اطاعت کی اس نے گو سالہ پرستی کو گمراہی سمجھا ان کی تعداد بارہ ہزار بتلائی گئی ہے، کذا فی القرطبی، باقی دو فرقے گو سالہ پرستی میں تو شریک ہوگئے فرق اتنا رہا کہ ان دونوں میں سے ایک فرقے نے یہ اقرار کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) واپس آ کر اس سے منع کریں گے تو ہم گو سالہ پرستی کو چھوڑ دیں گے۔ دوسرا فرقہ اتنا پختہ تھا کہ اس کا یقین یہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی واپس آ کر اسی کو معبود بنالیں گے اور ہمیں اس طریقے کو بہرحال چھوڑنا نہیں ہے جب ان دونوں فرقوں کا یہ جواب حضرت ہارون نے سنا کہ ہم نے تو موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک گوسالہ ہی کی عبادت پر جمے رہیں گے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) اپنے ہم عقیدہ بارہ ہزار ساتھیوں کو لے کر ان سے الگ تو ہوگئے مگر رہنے سہنے وغیرہ کی جگہ وہی تھی اس میں ان کے ساتھ اشتراک رہا۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے واپس آ کر اول تو بنی اسرائیل کو وہ خطاب کیا جو پچھلی آیتوں میں بیان ہوا ہے پھر اپنے خلیفہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہو کر ان پر سخت غصہ اور ناراضی کا اظہار کیا ان کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ لئے اور فرمایا کہ جب ان بنی اسرائیل کو آپ نے دیکھ لیا کہ کھلی گمراہی یعنی شرک و کفر میں مبتلا ہو کر گمراہ ہوگئے تو تم نے میرا اتباع کیوں نہ کیا، میرے حکم کی خلاف ورزی کیوں کی۔- مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَهُمْ ضَلُّوْٓا اَلَّا تَتَّبِعَنِ ، اس جگہ موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ ارشاد کہ تمہیں میرا اتباع کرنے سے کس چیز نے روکا، اس اتباع کا ایک مفہوم تو وہی ہے جو خلاصہ تفسیر میں اختیار کیا گیا کہ اتباع سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس طور پر چلا جانا ہے اور بعض مفسرین نے اتباع کی مراد یہ قرار دی کہ جب یہ لوگ گمراہ ہوگئے تو آپ نے ان کا مقابلہ کیوں نہ کیا کیونکہ میری موجودگی میں ایسا ہوتا تو میں یقیناً اس شرک و کفر پر قائم رہنے والوں سے جہاد اور مقاتلہ کرتا تم نے ایسا کیوں نہ کیا۔ دونوں صورتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے ہارون (علیہ السلام) پر الزام یہ تھا کہ ایسی گمراہی کی صورت میں یا تو ان سے مقاتلہ اور جہاد کیا جاتا یا پھر ان سے برات اور علیحدگی اختیار کر کے میرے پاس آجاتے ان کے ساتھ رہتے بستے رہنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک ان کی خطا اور غلطی تھی حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اس معاملے کے باوجود ادب کی پوری رعایت کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کو نرم کرنے کے لئے خطاب يَبْنَـؤ ُ مَّ کے الفاظ سی کیا یعنی میری ماں کے بیٹے اس خطاب میں ایک خاص اشارہ سختی کا معاملہ نہ کرنے کی طرف تھا کہ میں آپ کا بھائی ہی تو ہوں کوئی مخالف تو نہیں اس لئے آپ میرا عذر سنیں۔ پھر عذر یہ بیان کیا کہ مجھے خطرہ یہ پیدا ہوگیا کہ اگر میں نے ان لوگوں سے مقابلہ اور مقاتلہ کرنے پر آپ کے آنے سے پہلے اقدام کیا یا ان کو چھوڑ کر خود بارہ ہزار بنی اسرائیل کے ساتھ آپ کے پاس چلا گیا، تو بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا ہوجائے گا اور آپ نے جو چلتے وقت مجھے یہ ہدایت فرمائی کہ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَاَصْلِحْ میں اس اصلاح کا مقتضا یہ سمجھا تھا کہ ان میں تفرقہ نہ پیدا ہونے دوں (ممکن ہے کہ آپ کے واپس آنے کے بعد یہ سب ہی سمجھ جائیں اور ایمان و توحید پر واپس آجائیں) اور دوسری جگہ قرآن کریم میں ہارون (علیہ السلام) کے عذر میں یہ قول بھی ہے کہ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِيْ وَكَادُوْا يَقْتُلُوْنَنِيْ یعنی قوم بنی اسرائیل نے مجھے ضعیف و کمزور سمجھا کیونکہ میرے ساتھی دوسروں کے مقابلہ میں بہت کم تھے اس لئے قریب تھا کہ وہ مجھے قتل کر ڈالتے۔- خلاصہ عذر کا یہ ہے کہ میں ان کی گمراہی کا ساتھی نہیں تھا جتنا سمجھانا اور ہدایت پر رکھنا میرے بس میں تھا وہ میں نے پورا کیا ان لوگوں نے میری بات نہ مانی اور میرے قتل کرنے کے در پے ہوگئے ایسی صورت میں ان سے مقاتلہ کرتا یا ان کو چھوڑ کر آپ کے پاس جانے کا ارادہ کرتا تو صرف یہ بارہ ہزار بنی اسرائیل میرے ساتھ ہوتے باقی سب مقاتلہ اور مقابلہ پر آجاتے اور باہمی معرکہ گرم ہوجاتا، میں نے اس سے بچنے کے لئے آپ کی واپسی تک کے لئے کچھ مساہلت کی صورت اختیار کی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ عذر سنا تو ہارون (علیہ السلام) کو چھوڑ دیا اور اصل بانی فساد سامری کی خبر لی۔ قرآن میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کی رائے کو صحیح مان لیا یا محض ان کی خطاء اجتہادی سمجھ کر چھوڑ دیا۔- دو پیغمبروں میں اختلاف رائے اور دونوں طرف صواب کے پہلو :- اس واقعہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رائے از روئے اجتہاد یہ تھی کہ اس حالت میں ہارون (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو اس مشرک قوم کے ساتھ نہیں رہنا چاہئے تھا ان کو چھوڑ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آجاتے جس سے ان کے عمل سے مکمل بیزاری کا اظہار ہوجاتا۔- حضرت ہارون (علیہ السلام) کی رائے از روئے اجتہاد یہ تھی کہ اگر ایسا کیا گیا تو ہمیشہ کے لئے بنی اسرائیل کے ٹکڑے ہوجائیں گے اور تفرقہ قائم ہوجائے گا اور چونکہ ان کی اصلاح کا یہ احتمال موجود تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی کے بعد ان کے اثر سے پھر یہ سب ایمان اور توحید کی طرف لوٹ آویں اس لئے کچھ دنوں کے لئے ان کے ساتھ مساہلت اور مساکنت کو ان کی اصلاح کی توقع تک گوارا کیا جائے۔ دونوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل، ایمان و توحید پر لوگوں کو قائم کرنا تھا مگر ایک نے مفارقت اور مقاطعہ کو اس کی تدبیر سمجھا، دوسرے نے اصلاح حال کی امید تک ان کے ساتھ مساہلت اور نرمی کے معاملہ کو اس مقصد کے لئے نافع سمجھا۔ دونوں جانبین اہل عقل و فہم اور فکر و نظر کے لئے محل غور و فکر ہیں۔ کسی کو خطا کہنا آسان نہیں مجتہدین امت کے اجتہادی اختلافات عموماً اسی طرح کے ہوتے ہیں ان میں کسی کو گناہگار یا نافرمان نہیں کہا جاسکتا رہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ہارون (علیہ السلام) کے بال پکڑنے کا معاملہ تو یہ دین کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے شدت و غضب کا اثر تھا کہ تحقیق حال سے پہلے انہوں نے ہارون (علیہ السلام) کو ایک واضح غلطی پر سمجھا اور جب ان کا عذر معلوم ہوگیا تو پھر اپنے لئے اور ان کے لئے دعا مغفرت فرمائی۔
وَلَقَدْ قَالَ لَہُمْ ہٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ ٠ۚ وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ وَاَطِيْعُوْٓا اَمْرِيْ ٩٠- هرن - هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے
(٩٠) اور ان لوگوں سے حضرت ہارون (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لوٹنے سے پہلے بھی کہا تھا کہ اے میری قوم تم اس بچھڑے کی آواز اور اس کی پرستش کی وجہ سے گمراہی میں پھنس گئے ہو یا یہ کہ تم نے اس پچھڑے کی پوجا کی ہے۔
آیت ٩٠ (وَلَقَدْ قَالَ لَہُمْ ہٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ ) ” - حضرت ہارون (علیہ السلام) ان لوگوں کو پہلے ہی ان الفاظ میں سمجھانے کی پوری کوشش کرچکے تھے :
37: قرآن کریم کی اس آیت نے بائبل کی اس روایت کی واضح طور پر تردید فرما دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) خود بھی (معاذ اللہ) بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہوگئے تھے (دیکھئے خروج 1 تا 6) یہ روایت اس لیے بھی قطعی طور پر لغو ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نبی تھے، اور کسی نبی کے شرک میں ملوٹ ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔