91۔ 1 اسرائیلیوں کو یہ گو سالہ اتنا اچھا لگا کہ ہارون (علیہ السلام) کی بات کی بھی پروا نہیں کی اور اس کی تعظیم و عبادت چھوڑنے سے انکار کردیا۔
[٦٣] جب یہ لوگ گؤسالہ پرستی میں مبتلا ہونے لگے تو ہارون (علیہ السلام) نے بروقت ان کو تنبیہ کی تھی۔ یہ بچھڑا قطعا ً تمہارا الہٰ نہیں ہے، تمہارا الہٰ صرف وہی ذات ہوسکتی ہے جو تمہارا خالق ومالک اور تمہارا پروردگار ہے۔ لہذا اس گؤسالہ پرستی سے باز آؤ اور میری بات مان لو اور سامری کے فریب میں نہ آؤ مگر یہ مدتوں سے بگڑی ہوئی قوم بھلا سیدنا ہارون جیسے نرم مزاج آدمی کے حکم کو کیا سمجھتی تھی ؟ کہنے لگے : تم آرام سے بیٹھو اور اپنی خیر مناؤ۔ موسیٰٰ آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ سردست ہم اس کام کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ ۔۔ : ” عَکَفَ یَعْکُفُ عُکُوْفًا “ (ن) کا معنی عبادت اور تقرب کے ارادے سے کسی جگہ بیٹھ رہنا ہے۔ ہارون (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت چھوڑنے اور اپنے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے طور کی طرف جانے کے لیے کہا تو انھوں نے نہایت ڈھٹائی سے ان کی دونوں باتوں کا انکار کردیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے واپس آنے تک ہم نہ تمہارے ساتھ جائیں گے اور نہ بچھڑے کی مجاوری چھوڑیں گے۔
قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْہِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى ٩١- بَرِحَ- وما بَرِحَ : ثبت في البراح، ومنه قوله عزّ وجلّ : لا أَبْرَحُ [ الكهف 60] ، وخصّ بالإثبات، کقولهم : لا أزال، لأنّ برح وزال اقتضیا معنی النفي، و «لا» للنفي، والنفیان يحصل من اجتماعهما إثبات، وعلی ذلک قوله عزّ وجل : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه 91] - ( ب ر ح) البرح - ابرح ہے یہ لا ازال کی طرح معنی مثبت کے ساتھ مخصوص ہے ۔ کیونکہ برح اور زال میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، لا ، ، بھی نفی کے لئے ہوتا ہے اور نفی پر نفی آنے سے اثبات حاصل ہوجاتا ہے ایس بناء پر فرمایا : لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عاكِفِينَ [ طه 91] - عكف - العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] ، أي : محبوسا ممنوعا .- ( ع ک ف ) العکوف - کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
(٩١) حضرت ہارون (علیہ السلام) کو قوم نے جواب دیا کہ ہم تو جب تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے پاس واپس نہ آئیں اسی کی عبادت پر جمے بیٹھے رہیں گے۔
آیت ٩١ (قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی ) ” - یہ جواب پوری بنی اسرائیل قوم کی طرف سے نہیں تھا بلکہ صرف ان لوگوں کی طرف سے تھا جو ان میں سے بچھڑا پرستی کے مشرکانہ عقیدے میں مبتلا ہوئے تھے اور پھر اس پر اڑ گئے تھے۔ انہوں نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو جواب دیا کہ ہم تو اب اسی کی پرستش کرتے رہیں گے ‘ یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) خود آکر اس بارے میں کوئی فیصلہ کریں۔ یہ لوگ اس سے پہلے بھی ایک بت پرست قوم کی دیکھا دیکھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کرچکے تھے (الاعراف : ١٣٨) کہ ان لوگوں کے بتوں جیسا ہمیں بھی کوئی معبود بنا دیں جس کے سامنے بیٹھ کر ہم پوجا پاٹ کرسکیں۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :69 بائیبل اس کے برعکس حضرت ہارون پر الزام رکھتی ہے کہ بچھڑا بنانے اور اسے معبود قرار دینے کا گناہ عظیم ان ہی سے سرزد ہوا تھا : اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اس سے کہنے لگے کہ اٹھ ہمارے لیے دیوتا بنا دے جو ہمارے آ گے چلے ، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو ، جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لایا ، کیا ہو گیا ۔ ہارون نے ان سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس لے آؤ ۔ چنانچہ سب لوگ ان کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کر ہارون کے پاس لے آئے ۔ اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی تب وہ کہنے لگے اسے اسرائیل ، یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا ۔ یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اس نے اعلان کر دیا کہ کل خداوند کے لیے عید ہو گی ( خروج ، بابا 32 ۔ آیت 1 ۔ 5 ) ۔ بہت ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ غلط روایت اس وجہ سے مشہور ہوئی ہو کہ سامری کا نام بھی ہارون ہی ہو ، اور بعد کے لوگوں نے اس ہارون کو ہارون نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہو ۔ لیکن آج عیسائی مشنریوں اور مغربی مستشرقوں کو اصرار ہے کہ قرآن یہاں بھی ضرور غلطی پر ہے ، بچھڑے کو خدا ان کے مقدس نبی نے ہی بنایا تھا اور ان کے دامن سے اس داغ کو صاف کر کے قرآن نے ایک احسان نہیں بلکہ الٹا قصور کیا ہے ۔ یہ ہے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا حال ۔ اور ان کو نظر نہیں آتا کہ اسی باب میں چند سطر آگے چل کر خود بائیبل اپنی غلط بیانی کا راز کس طرح فاش کر رہی ہے ۔ اس باب کی آخری دس آیتوں میں بائیبل یہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے بعد بنی لادی کو جمع کیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنایا کہ جن لوگوں نے شرک کا یہ گناہ عظیم کیا ہے انہیں قتل کیا جائے ، اور ہر ایک مومن خود اپنے ہاتھ سے اپنے اس بھائی اور ساتھی اور پڑوسی کو قتل کرے جو گو سالہ پرستی کا مرتکب ہوا تھا ۔ چنانچہ اس روز تین ہزار آدمی قتل کیے گئے ۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ہارون کیوں چھوڑ دیے گئے ؟ اگر وہی اس جرم کے بانی مبانی تھے تو انہیں اس قتل عام سے کس طرح معاف کیا جا سکتا تھا ؟ کیا بنی لادی یہ نہ کہتے کہ موسیٰ ، ہم کو تو حکم دیتے ہو کہ ہم اپنے گناہ گار بھائیوں اور ساتھیوں اور پڑوسیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں ، مگر خود اپنے بھائی پر ہاتھ نہیں اٹھاتے حالانکہ اصل گناہ گار وہی تھا ؟ آگے چل کر بیان کیا جاتا ہے کہ موسیٰ نے خداوند کے پاس جا کر عرض کیا کہ اب بنی اسرائیل کا گناہ معاف کر دے ، ورنہ میرا نام اپنی کتاب میں سے مٹا دے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اسی کا نام اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ہارون کا نام نہ مٹایا گیا ۔ بلکہ اس کے بر عکس ان کو اور ان کی اولاد کو بنی اسرائیل میں بزرگ ترین منصب ، یعنی بنی لادی کی سرداری اور مقدس کی کہانت سے سرفراز کیا گیا ( گنتی ، باب 18 ۔ آیت 1 ۔ 7 ) ۔ کیا بائیبل کی یہ اندرونی شہادت خود اس کے اپنے سابق بیان کی تردید اور قرآن کے بیان کی تصدیق نہیں کر رہی ہے ؟