آگ کی تلاش ۔ یہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ شروع ہوتا ہے ۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ آپ اس مدت کو پوری کر چکے تھے جو آپ کے اور آپ کے خسر صاحب کے درمیان طے ہوئی تھی اور آپ اپنے اہل و عیال کو لے کر دس سال سے زیادہ عرصے کے بعد اپنے وطن مصر کی طرف جا رہے تھے سردی کی رات تھی راستہ بھول گئے تھے پہاڑوں کی گھاٹیوں کے درمیان اندھیرا تھا ابر چھایا ہوا تھا ہر چند چقماق سے آگ نکالنا چاہی لیکن اس سے بالکل آگ نہ نکلی ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو دائیں جانب کے پہاڑ پر کچھ آگ دکھائی دی تو بیوی صاحبہ سے فرمایا اس طرف آگ سی نظر آ رہی ہے میں جاتا ہوں کہ وہاں سے کچھ انگارے لے آؤں تاکہ تم سینک تاپ کر لو اور کچھ روشنی بھی ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کوئی آدمی مل جائے جو راستہ بھی بتا دے ۔ بہر صورت راستے کا پتہ یا آگ مل ہی جائے گی ۔
[٨] قرآن کے انداز بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قدر تفصیل کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ پہلی بار اسی سورة میں بیان ہوا ہے اور قرآن کے مخصوص طرز بیان کی بنا پر اس میں قریش کے کئی اعتراضات کے جواب از خود آگئے ہیں جو وہ وقتا ً فوقتا ً کرتے رہتے تھے۔
وَهَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى : قرآن کی عظمت کے ذکر اور دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشقت اور تکلیف کی طرف اشارہ فرما کر اب یہاں سے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے، اس سے مقصود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے، کیونکہ جن دنوں یہ سورت نازل ہوئی مکہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے ہی حالات درپیش تھے، جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کو پیش آچکے تھے۔ اس کے علاوہ گزشتہ آیت میں ” اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ “ کے ساتھ توحید کا جو بیان ہوا تھا اس کی مزید وضاحت مقصود ہے کہ ہر نبی یہی دعوت لے کر آیا۔ خصوصاً گزشتہ انبیاء میں سے جس نبی کے واقعات سب سے زیادہ مشہور ہیں انھیں بھی پہلی وحی میں آگاہ کردیا گیا : (اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ ) [ طٰہٰ : ١٤ ] اور سورت کے آخر میں بھی یہی بات دہرائی : (اِنَّمَآ اِلٰــهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا) [ طٰہٰ : ٩٨ ] ” تمہارا معبود تو اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے۔ “- ” وَهَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى“ یہ ” مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓي “ پر عطف ہے، یعنی نزول وحی آپ کے لیے باعث شقاوت نہیں بلکہ باعث سعادت ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے یہ نعمت باعث سعادت تھی۔ اور کیا آپ کو موسیٰ کی خبر پہنچی کہ ان کو یہ سعادت ملنے کا آغاز کیسے ہوا ؟ استفہام ان کی خبر سننے کا شوق دلانے کے لیے ہے، پوچھنے کے لیے نہیں۔ آگ دیکھنے کا ذکر مزید شوق دلانے کے لیے ہے کہ معلوم ہو آگ دیکھنے کے بعد کیا ہوا ؟ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب مدین میں دس سال تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اپنے اہل و عیال سمیت مصر آ رہے تھے۔ اس قصے کا کچھ حصہ سورة یونس اور سورة اعراف میں گزر چکا ہے۔ یہاں جو بات ذکر ہوئی ہے اس سے پہلے کی سرگزشت کا ذکر سورة قصص میں ہے۔ - ” جب اس نے آگ دیکھی “ سے معلوم ہوا کہ یہ رات کا وقت تھا اور سردی کا موسم تھا۔ گھر والے ساتھ تھے اور سب کو رات گزارنے کے لیے آگ کی ضرورت تھی۔ سورة قصص (٢٩) اور سورة نمل (٧) میں ہے : (لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ ) ” تاکہ تم تاپ لو۔ “ ” اَوْ اَجِدُ عَلَي النَّارِ هُدًى“ سے معلوم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) راستہ بھول گئے تھے، آگ جلانے کا پتھر (چقماق) پاس نہیں تھا، اگر تھا تو سردی کی شدت یا لکڑیوں کی نمی کی وجہ سے آگ نہیں جل رہی تھی۔ اندھیرے میں آگ کے ذریعے سے متوجہ کرنے میں ایک مناسبت یہ بھی ہے کہ اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) گمراہی کی تاریکی میں ہدایت کی روشنی کا باعث بنیں گے۔ [ التحریر والتنویر ]- اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا : ” آنَسَ “ (افعال) اس نے واضح طور پر دیکھا، اسی لیے آنکھ کی پتلی کو ” انسان العین “ کہتے ہیں، کیونکہ اسی سے کوئی چیز واضح معلوم ہوتی ہے۔ ” إِنَّ “ کے ساتھ تاکید اور لفظ ” اٰنَسْتُ “ کے استعمال سے ظاہر ہو رہا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پورے یقین کے ساتھ ایک بہت بڑی آگ دیکھنے کا ذکر فرما رہے ہیں، کیونکہ ” نَاراً “ کی تنوین بھی تعظیم کے لیے ہے۔ یہ آگ موسیٰ (علیہ السلام) کو متوجہ کرنے کے لیے تھی جو انھیں ایک درخت میں لگی ہوئی نظر آئی اور درخت ہی سے آواز آئی کہ بیشک میں تیرا رب ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نور نہیں تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی درخواست کی تو جواب ” لَنْ تَرَانِیْ “ ملا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٤٣) ۔- لَّعَلِّيْٓ اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِقَبَسٍ : ” قَبَسٌ“ مصدر بمعنی مفعول، اخذ کی ہوئی چیز۔ آگ جلانے کے لیے جلتی ہوئی آگ میں سے لکڑی یا سرکنڈے وغیرہ کے سرے پر آگ کا شعلہ لیا جائے تو اسے ” قَبَسٌ“ کہتے ہیں اور ” جَذْوَۃٌ“ بھی۔ ” جَذْوَۃٌ“ کا ایک معنی انگارا بھی ہے۔ (قاموس)- ھُدیً : یعنی کوئی راستہ بتانے والا مل جائے، یا آگ کی روشنی میں راستے کے آثار مل جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان پر وہی چیز جاری فرما دی جو فی الواقع وجود میں آنے والی تھی، چناچہ انھیں کفر کی برودت سے بچانے والا ایمان کا شعلہ بھی مل گیا اور صراط مستقیم کی رہنمائی بھی حاصل ہوگئی۔ - ” نُوْدِيَ “ (آواز دی گئی) یہ آواز ایک درخت سے آرہی تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة قصص (٣٠) فعل مجہول لانے میں بھی یہ جاننے کا شوق ابھارنا مقصود ہے کہ آواز دینے والا کون تھا اور اس نے کیا آواز دی ؟
خلاصہ تفسیر - اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو موسیٰ (علیہ السلام کے قصہ) کی خبر پہنچی ہے (یعنی وہ سننے کے قابل ہے کہ اس میں توحید و نبوت کے متعلق علوم ہیں جن کی تبلیغ نافع ہوگی وہ قصہ یہ ہے کہ) جب کہ انہوں نے (مدین سے آتے ہوئے ایک رات جس میں سردی بھی تھی اور رستہ بھی بھول گئے تھے کوہ طور پر) ایک آگ دیکھی (کہ واقع میں وہ نور تھا مگر شکل آگ کی سی تھی) سو اپنے گھر والوں سے (جو صرف بی بی تھی یا خادم وغیرہ بھی) فرمایا کہ تم (یہاں ہی) ٹہرے رہو (یعنی میرے پیچھے پیچھے مت آنا کیونکہ یہ تو احتمال ہی نہ تھا کہ بدون ان کے آگے سفر کرنے لگیں گے) میں نے ایک آگ دیکھی ہے (میں وہاں جاتا ہوں) شاید میں اس میں سے تمہارے پاس کوئی شعلہ (کسی لکڑی وغیرہ میں لگا کر) لاؤں (تاکہ سردی کا علاج ہو) یا (وہاں) آگ کے پاس رستہ کا پتہ (جاننے والا کوئی آدمی بھی) مجھ کو مل جاوے سو وہ جب اس (آگ) کے پاس پہنچے تو (ان کو منجانب اللہ) آواز دی گئی کہ اے موسیٰ میں تمہارا رب ہوں، پس تم اپنی جوتیاں اتار ڈالو، (کیونکہ) تم ایک پاک میدان یعنی طویٰ میں ہو (یہ اس میدان کا نام ہے) اور میں نے تم کو (نبی بنانے کے لئے منجملہ دیگر خلائق کے) منتخب فرمایا ہے سو (اس وقت) جو کچھ وحی کی جارہی ہے اس کو غور سے سن لو (وہ یہ ہے کہ) میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود (ہونے کے لائق) نہیں، تو تم میری ہی عبادت کیا کرو اور میری ہی یاد کے لئے نماز پڑھا کرو (دوسری بات یہ سنو کہ) بلاشبہ قیامت آنے والی ہے میں اس کو (تمام خلائق سے) پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں (اور قیامت اس لئے آوے گی تاکہ ہر شخص باز نہ رکھنے پاوے جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی (نفسانی) خواہشوں پر چلتا ہے (یعنی تم ایسے شخص کے اثر سے قیامت کے لئے تیاری کرنے سے بےفکر نہ ہوجانا) کہیں تم (اس بےفکری کی وجہ سے) تباہ نہ ہوجاؤ۔- معارف ومسائل - وَهَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى، سابقہ آیات میں قرآن کریم کی عظمت اور اس کے ضمن میں تعظیم رسول کا بیان ہوا تھا اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ اس مناسبت سے ذکر کیا گیا کہ منصب رسالت و دعوت کی ادائیگی میں جو مشکلات اور تکلیفیں پیش آیا کرتی ہیں اور انبیاء سابقین نے ان کو برداشت کیا ہے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں آجائیں تاکہ آپ اس کے لئے پہلے سے مستعد اور تیار ہو کر ثابت قدم رہیں جیسا کہ ایک آیت میں ارشاد ہے (آیت) وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤ َادَكَ ، یعنی رسولوں کے یہ سب قصے ہم آپ سے اس لئے بیان کرتے ہیں تاکہ آپ کا قلب مضبوط ہوجائے اور منصب نبوت کا بار اٹھانے کے لئے تیار ہوجائے۔- اور موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قصہ جو یہاں مذکور ہے اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ جب وہ مدین پہنچ کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کے مکان پر اس معاہدہ کے ساتھ مقیم ہوگئے کہ آٹھ یا دس سال تک ان کی خدمت کریں گے اور انہوں نے تفسیر بحر محیط وغیرہ کی روایت کے مطابق ابعد الاجلین یعنی دس سال پورے کر لئے تو شعیب (علیہ السلام) سے رخصت چاہی کہ میں اب اپنی والدہ اور بہن سے ملنے کے لئے مصر جاتا ہوں اور جس خطرہ کی وجہ سے مصر چھوڑا تھا کہ فرعونی سپاہی ان کی گرفتاری اور قتل کے درپے تھے عرصہ دراز گزر جانے کے بعد اب وہ خطرہ بھی باقی نہ رہا تھا۔ شعیب (علیہ السلام) نے ان کو مع اہلیہ یعنی اپنی صاحبزادی کے کچھ مال اور سامان دے کر رخصت فرما دیا راستہ میں ملک شام کے بادشاہوں سے خطرہ تھا اس لئے عام راستہ چھوڑ کر غیر معروف راستہ اختیار کیا۔ موسم سردی کا تھا اور اہلیہ محترمہ حاملہ قریب الولادت تھیں کہ صبح شام میں ولادت کا احتمال تھا۔ غیر معروف راستہ اور جنگل میں راستہ سے ہٹ کر طور پہاڑ کی مغربی اور داہنی سمت میں جا نکلے، رات اندھیری سردی برفانی تھی اسی حال میں اہلیہ کو درد زہ شروع ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سردی سے حفاظت کے لئے آگ جلانا چاہا۔ اس زمانے میں دیا سلائی (ماچس) کے بجائے چقماق پتھر استعمال کیا جاتا تھا جس کو مارنے سے آگ پیدا ہوجاتی تھی اس کو استعمال کیا مگر اس سے آگ نہ نکلی۔ اسی حیرانی و پریشانی کے عالم میں کوہ طور پر آگ نظر آئی جو درحقیقت نور تھا تو گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے وہاں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لئے آگ لاؤں اور ممکن ہے کہ آگ کے پاس کوئی راستہ جاننے والا مل جائے تو راستہ بھی معلوم کرلوں۔ گھر والوں میں اہلیہ محترمہ کا ہونا تو متعین ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خادم بھی ساتھ تھا۔ وہ بھی اس خطاب میں داخل ہے بعض روایات میں ہے کہ کچھ لوگ رفیق سفر بھی ساتھ تھے مگر راستہ بھولنے میں یہ ان سے جدا ہوگئے تھے۔ (بحر محیط)
وَہَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى ٩ۘ- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں
(٩۔ ١٠) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی تک آپ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کی خبر نہیں پہنچی ہے، اب آپ کو بتاتے ہیں جب کہ انہوں نے (مدین سے واپسی پر) اپنے بائیں طرف ایک آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں یعنی اپنی بیوی سے کہا تم ٹھہرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے شاید میں اس میں سے تمہارے پاس کوئی شعلہ لاؤں کیوں کہ اس رات میں سردی بھی بہت تھی اور راستہ بھی بھول گئے تھے یا شاید وہاں آگ کے پاس راستہ بتانے والا بھی کوئی مجھے مل جائے۔