93۔ 1 یعنی اگر انہوں نے تیری بات ماننے سے انکار کردیا تھا، تو تجھ کو فوراً میرے پیچھے کوہ طور پر آ کر مجھے بتلانا چاہیے تھا تو نے بھی میرے حکم کی پروا نہ کی۔ یعنی جانشینی کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔
[٦٤] موسیٰ (علیہ السلام) قوم کی طرف سے یہ عذر لنگ سن کر اسی غصہ کی حالت میں اپنے بھائی ہارون کی طرف متوجہ ہوئے اور جوش غضب میں ان کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ لئے اور کہنے لگے۔ میں تمہیں اپنا نائب بنا کر گیا تھا اور یہ تاکید کی تھی کہ ان لوگوں کے حالات پر کڑی نظر رکھنا تو پھر جب تم نے انھیں شرک میں مبتلا ہوتے دیکھا تو تم نے انھیں کیوں منع نہ کیا ؟ آخر وہ کون سی بات تھی جو تمہارے آڑے آگئی تھی کہ تم نے انھیں منع بھی کیا ؟ کیا تم میری اس تاکید کو یکسر بھول گئے تھے کہ اس بگڑی ہوئیقوم پر کڑی نظر رکھنا اور ان کی اصلاح کی پوری کوشش کرتے رہنا۔
اَلَّا تَتَّبِعَنِ ٠ۭ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْ ٩٣- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے
آیت ٩٣ (اَلَّا تَتَّبِعَنِ ط) ” - اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے ” جو آپ میرے پیچھے نہ آگئے “۔ یعنی آپ ( علیہ السلام) میرے پیچھے کوہ طور پر کیوں نہ آگئے اور آکر کیوں نہ مجھے بتایا کہ وہ لوگ یوں گمراہ ہوگئے ہیں۔ - (اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ ) ” - اگرچہ عمر میں حضرت ہارون (علیہ السلام) بڑے تھے مگر منصب نبوت کے اعتبار سے چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رتبہ ان سے بڑا تھا اس لیے آپ ( علیہ السلام) نے اس انداز میں حضرت ہارون ( علیہ السلام) سے جواب طلبی کی۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :70 حکم سے مراد وہ حکم ہے جو پہاڑ پر جاتے وقت ، اور اپنی جگہ حضرت ہارون کو بنی اسرائیل کی سرداری سونپتے وقت حضرت موسیٰ نے دیا تھا ۔ سورہ اعراف میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : وَقَالَ مُوْسیٰ لِاَخِیْہِ ھٰرْوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُقْسِدِیْنَ ، اور موسیٰ نے ( جاتے ہوئے ) اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میری قوم میں میری جانشینی کرو اور دیکھو ، اصلاح کرنا ، مفسدوں کے طریقے کی پیروی نہ کرنا ( آیت 142 ) ۔
38: جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر جارہے تھے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا نائب بناتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ : اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کے پیچھے نہ چلنا۔ یہاں اپنی اسی ہدایت کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب یہ لوگ گمراہی میں پڑگئے تھے تو آپ کو چاہئے تھا کہ ان سے الگ ہو کر میرے پاس چلے آتے۔ اس طرح آپ مفسدوں کے ساتھی بھی نہ بنتے۔ اور میرے ذریعے ان کی اصلاح بھی کرتے۔