94۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قوم کو شرک کی گمراہی میں دیکھ کر سخت غضب ناک تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید اس میں ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی، جن کو وہ اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے، خوش آمد کا بھی دخل ہو، اس لئے سخت غصے میں ہارون (علیہ السلام) کی داڑھی اور سر پکڑ کر انھیں جھنجھوڑنا اور پوچھنا شروع کیا، جس پر حضرت ہارون (علیہ السلام) نے انھیں اتنا سخت رویہ اپنانے سے روکا۔ 94۔ 2 سورة اعراف میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کا جواب یہ نقل ہوا ہے کہ قوم نے مجھے کمزور خیال کیا اور میرے قتل کے درپے ہوگئی (آیت۔ 142) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنی ذمے داری پوری طرح نبھائی اور انھیں سمجھا نے اور گو سالہ پرستی سے روکنے میں مداہنت اور کوتاہی نہیں کی۔ لیکن معاملے کو اس حد تک نہیں جانے دیا کہ خانہ جنگی شروع ہوجائے کیونکہ ہارون (علیہ السلام) کے قتل کا مطلب پھر ان کے حامیوں اور مخالفوں میں آپس میں خونی تصادم ہوتا اور بنی اسرائیل واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ جاتے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چوں کہ خود وہاں موجود نہ تھے اس لیے صورت حال کی نزاکت سے بیخبر تھے اسی بنا پر حضرت ہارون (علیہ السلام) کو انہوں نے سخت سست کہا لیکن پھر وضاحت پر وہ اصل مجرم کی طرف متوجہ ہوئے اس لیے یہ استدلال صحیح نہیں (جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں) کہ مسلمانوں کے اتحاد وارفاق کی خاطر شرکیہ امور اور باطل چیزوں کو بھی برداشت کرلینا چاہیے کیونکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے نہ ایسا کیا ہی ہے نہ ان کے قول کا یہ مطلب ہی ہے۔
[٦٥] سیدنا ہارون اگرچہ عمر میں بڑے تھے تاہم منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔ علاوہ ازیں سیدنا موسیٰ جلالی طبیعت کے مالک اور سخت جوش غضب میں تھے۔ لہذا اسی کا غضب سے مغلوب ہو کر سیدنا ہارون کی داڑھی اور سر کے بالوں کو پکڑا تھا۔ سیدنا ہارون بڑے تحمل سے کہنے لگے کہ پہلے میری بات سن لو اور میری داڑھی پکڑ کر دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دو ۔ بات یہ تھی کہ جب یہ لوگ شرک میں مبتلا ہوئے تو میں نے انھیں پوری سختی سے روکا تھا۔ لیکن چونکہ اکثریت اس شرک میں مبتلاتھی لہذا انہوں نے مجھے دبا لیا اور مجھے جان سے مار ڈالنے کے درپے ہوگئے تھے اور ان میں اکثر میرے دشمن بن گئے تھے۔ اب اگر میں اس معاملہ میں مزید سختی اختیار کرتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان میں خانہ جنگی چھڑ جاتی، پھر ان کی اصلاح کی کوئی بھی صورت باقی نہ رہ جاتی۔ لہذا مجھے بھی تمہاری ہی انتظار تھی کہ اب ان لوگوں کا کیا علاج کیا جانا چاہئے۔
قَالَ يَبْنَـؤُمَّ لَا تَاْخُذْ ۔۔ : ” يَبْنَـؤُمَّ “ اصل میں ” یَا ابْنَ أُمِّیْ “ تھا، یاء کو الف سے بدلنے کے بعد حذف کردیا۔ ہارون (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کا دل نرم کرنے کے لیے انھیں ماں کا بیٹا کہہ کر مخاطب کیا، کیونکہ ماں کی جانب والی قرابت باپ کی جانب والی قرابت سے زیادہ شفقت، نرمی اور پیار کا تقاضا کرتی ہے۔ (شنقیطی) - اِنِّىْ خَشِيْتُ ۔۔ : ہارون (علیہ السلام) نے سفر جاری نہ رکھنے کا یہ عذر بیان کیا کہ یہ لوگ راستے میں بچھڑا بنا کر وہیں بیٹھ رہنے پر اڑ گئے تھے، اگر میں توحید پر قائم لوگوں کو لے کر آپ کی طرف آتا تو قوم دو حصوں میں بٹ جاتی اور اگر میں انھیں لے کر بچھڑا پوجنے والوں سے لڑتا تو پھر بھی دو دھڑے بن جاتے، جن کی ایک دوسرے کو قتل کرنے کی وجہ سے نہ مٹنے والی شدید دشمنی بن جاتی۔ غالب دھڑا بچھڑے والوں کا تھا اور وہ اس قدر قوت میں تھے کہ انھوں نے مجھے بالکل کمزور سمجھا اور قریب تھے کہ مجھے قتل کردیتے، اس لیے میں نے آپ کے آنے کا انتظار کیا، تاکہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا انتظار نہ کیا، کیونکہ آپ کے احسانات اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معجزات کی وجہ سے آپ کی ہیبت اور آپ کا اکرام ان کے دلوں میں موجود ہے۔ مجھے امید تھی کہ آپ آ کر انھیں سنبھال لیں گے۔ - فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ : بعض صلح کل سیاسی حضرات، جو ووٹ لینے کی خاطر بدعتی اور مشرک لوگوں کے سامنے شرک کی تردید سے اجتناب کرتے ہیں، بلکہ قبروں پر چادریں بھی چڑھا دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اگر شرک کو برداشت کرنا پڑے تو وہ بھی کرلینا چاہیے، مگر پھوٹ ڈال کر سیٹ ضائع کرنے سے بچنا چاہیے۔ ان حضرات نے غور نہیں کیا کہ ہارون (علیہ السلام) نے شرک کے مقابلے میں کسی نرمی یا سمجھوتے سے کام نہیں لیا، بلکہ انھوں نے صاف الفاظ میں شرک کی تردید، توحید کی تبلیغ اور اپنی اتباع و اطاعت کی تاکید فرمائی۔ دیکھیے آیت (٩٠) اگر وہ شرک کی تردید نہ کرتے تو قوم کو ان کے قتل کے درپے ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟ ہاں انھوں نے حالات کو دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کی آمد تک علیحدہ ہونے یا لڑنے کے بجائے ان کے فرمان کا انتظار ضروری سمجھا اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔- لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ : اس سے معلوم ہوا کہ ہارون (علیہ السلام) کی ڈاڑھی تھی، کیونکہ وہ اگر ڈاڑھی منڈے ہوتے تو انھیں ڈاڑھی پکڑنے کا کیا خوف تھا۔ قرآن مجید کی دوسری آیت ساتھ ملانے سے امت مسلمہ کے ہر فرد پر ڈاڑھی رکھنا فرض ثابت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ) [ الأنعام : ٨٤ ] ” اور اس (ابراہیم) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو (ہم نے ہدایت دی) ۔ “ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کئی اور پیغمبروں اور ان کے آباء، اولاد اور بھائیوں میں سے ہدایت یافتہ لوگوں کا ذکر کرکے فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ) [ الأنعام : ٩٠ ] ” یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہارون (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء کی پیروی کا حکم آپ کی امت کے لیے بھی پیروی کا حکم ہے۔ دیکھیے سورة صٓ (٢٤) ڈاڑھی بڑھانا فطرت ہے، کسی نبی سے ڈاڑھی منڈوانا یا کتروانا ثابت نہیں۔ یہود و نصاریٰ ڈاڑھی منڈواتے ہیں تو صرف ہمارے رسول ہی کی نہیں، اپنے پیغمبر کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( عَشْرٌ مِّنَ الْفِطْرَۃِ : قَصُّ الشَّارِبِ وَإِعْفَاء اللِّحْیَۃِ وَالسِّوَاکُ وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ وَ قَصُّ الْأظْفَارِ وَ غَسْلُ الْبَرَاجِمِ وَ نَتْفُ الإِْبِطِ وَ حَلْقُ الْعَانَۃِ وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ ، قَالَ زَکَرِیَّاءُ قَالَ مُصْعَبٌ وَ نَسِیْتُ الْعَاشِرَۃَ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنَ الْمَضْمَضَۃَ ) [ مسلم، الطھارۃ، باب خصال الفطرۃ : ٢٦١ ] ” دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : 1 مونچھیں کترنا۔ 2 ڈاڑھی بڑھانا۔ 3 مسواک کرنا۔ 4 ناک میں پانی ڈالنا۔ 5 ناخن کاٹنا۔ 6 پوروں کو دھونا۔ 7 بغلوں کے بال اکھیڑنا۔ 8 زیر ناف صفائی کرنا۔ 9 پانی سے استنجا کرنا۔ “ زکریا نے کہا کہ حدیث کے راوی مصعب نے کہا کہ میں دسویں چیز بھول گیا، شاید وہ کلی کرنا ہو۔ “ مرد اور عورت کے درمیان فرق کی سب سے بڑی ظاہری نشانی ڈاڑھی ہے۔ کسی مرد کے خصیے نکال دیے جائیں تو اس کی ڈاڑھی بھی معدوم ہوجائے گی۔ یہ خلق اللہ (اللہ کی پیدائش) میں شامل ہے، جس کے متعلق شیطان نے قسم کھا کر کہا تھا کہ میں بنی آدم کو حکم دوں گا تو وہ اللہ کی پیدا کردہ شکل کو بدل ڈالیں گے۔ ڈاڑھی بڑھانے کے حکم کی احادیث معروف ہیں : ” أَعْفُوا اللُّحٰی، أَرْخُوا اللُّحٰی، وَفِّرُوا اللُّحٰی، أَوْفُوا اللُّحٰی “ اور ” لَا تُشَبِّھُوْا بالْمَجُوْسِ “ اس کے متعلق بہت سی تصانیف موجود ہیں۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گھنی ڈاڑھی تھی۔ [ مسند أحمد : ١؍٨٩، ح : ٦٨٧، عن علی بن أبي طالب و حسنہ شعیب الأرنؤوط ] جو آپ کے بےمثال حسن کا حصہ تھی۔ آپ سے ساری زندگی اس کا ایک بال کاٹنا بھی ثابت نہیں۔ صحابہ کرام اور تابعین، جنھوں نے قیصر و کسریٰ کے خزانے فتح کیے اور زمین کے مشرق و مغرب کو اپنا تابع فرمان بنایا، ان میں کوئی ڈاڑھی منڈا نہ تھا۔ افسوس ہے ان مسلمانوں پر جن کی فطرت اس حد تک مسخ ہوچکی کہ وہ شیطان کے پیچھے لگ کر انبیاء اور صحابہ و تابعین کی وضع اور مردانگی کے اس عظیم شرف سے محروم ہی نہیں ہوئے بلکہ مرد ہوتے ہوئے عورتوں اور مخنثوں والا حلیہ بنا کر اس پر فخر کرنے لگے اور الٹا ڈاڑھی کا مذاق اڑانے لگے، جیسے ناک کٹے لوگ ناک والے کو نکو کہنا شروع کردیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے پیغمبر کی اطاعت کی طرف پلٹنے اور اپنی گم کردہ عظمت و مردانگی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
قَالَ يَبْنَـؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ وَلَا بِرَاْسِيْ ٠ۚ اِنِّىْ خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِيْ ٩٤- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- رأس - الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه .- ( ر ء س ) الراس - سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - فرق - الفَرْقُ يقارب الفلق لکن الفلق يقال اعتبارا بالانشقاق، والفرق يقال اعتبارا بالانفصال . قال تعالی: وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] ، والفِرْقُ : القطعة المنفصلة، ومنه : الفِرْقَةُ للجماعة المتفرّدة من النّاس، وقیل : فَرَقُ الصّبح، وفلق الصّبح . قال : فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] ، - ( ف ر ق ) الفرق - والفلق کے قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن معنی انشقاق یعنی پھٹ جانا کے لحاظ سے فلق کا لفظ بولا جاتا ہے اور مغی انفعال یعنی الگ الگ ہونے کے لحاظ سے فرق قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا ۔ اور الفراق کے معنی الگ ہونے والا ٹکڑہ کے ہیں اسی سے فرقۃ ہے جس کے معنی لوگوں کا گروہ یا جماعت کے ہیں ۔ اور طلوع فجر پر فرق اور فلق دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا ( کہ ) گویا بڑا پہاڑ ہے - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - رَّقِيبُ :- الحافظ، وذلک إمّا لمراعاته رقبة المحفوظ، وإما لرفعه رقبته، قال تعالی: وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ [هود 93] ، وقال تعالی: إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] ، وقال : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] ، والْمَرْقَبُ : المکان العالي الذي يشرف عليه الرقیب، وقیل لحافظ أصحاب المیسر الذین يشربون بالقداح رَقِيبٌ ، وللقدح الثالث رَقِيبٌ ، وتَرَقَّبَ : احترز راقبا، نحو قوله : فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ، والرَّقُوبُ : المرأة التي تَرْقُبُ موت ولدها، لکثرة من مات لها من الأولاد، والناقة التي ترقب أن يشرب صواحبها، ثمّ تشرب، وأَرْقَبْتُ فلانا هذه الدار هو : أن تعطيه إيّاها لينتفع بها مدّة حياته، فكأنه يرقب موته، وقیل لتلک الهبة : الرُّقْبَى والعمری.- اسی سے نگران کو رقیب - کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ وہ شخص کی گردن پر نظر رکھتا ہے جس کی نگرانی منظور ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ وہ نگرانی کے لئے بار بار اپنی گردن اٹھا کر دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ [هود 93] تم بھی منتظر رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ۔ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] مگر ایک چوکیدار ( اس کے لکھنے کو ) تیار رہتا ہے ۔ المرقب ۔ بلند جگہ جہاں رقیب ( نگران ) بیٹھ کر چوکسی کرتا ہے اور قمار بازوں کے محافظ کو بھی رقیب کہا جاتا ہے ۔ جو قمار بازی کے بعد شراب نوشی کرتے ہیں ۔ اسی طرح قمار بازی کے تیسرے درجہ کے تیر کو بھی رقیب کہتے ہیں ۔ ترقب ( تفعل ) کے معنی ہیں انتظار کرتے ہوئے کسی چیز سے بچنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] چناچہ موسیٰ ٰ (علیہ السلام) شہر سے نکل بھاگے اور دوڑتے جاتے تھے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ رقوب اس عورت کو کہتے ہیں جو کثرت اولاد کی وجہ سے اپنے بچوں کی موت کی منتظر ہو ۔ نیز وہ اونٹنی جو پانی پینے کے لئے باری کے انتظار میں ہو اسے بھی رقوب کہا جا تا ہے ارقب ( افعال ) کے معنی رقبی ٰکرنے کے ہیں یعنی کسی کو اس کی زندگی بھر کے لئے مکان وغیرہ ہبہ کردینا اور اس کی موت کے بعد اس عطا کو واپس لے لینا ۔ اور اسے رقبی اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہبہ کے بعد گویا وہ اس کی موت کا انتظار کرتا ہے ۔ اور ایسے ہبہ کو عمریٰ بھی کہا جاتا ہے ۔
(٩٤) اس پر حضرت ہارون (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا اے میرے ماں جائے میری داڑھی نہ پکڑیں اور نہ میرے سر کے بال پکڑیں ، (ماں کا ذکر) اس لیے کردیا تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ ٹھنڈا ہو) مجھ کو یہ اندیشہ ہوا کہ تم کہنے لگو کہ قتل کے ذریعے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے آنے کا انتظار نہ کیا اس بنا پر میں نے ان کو قتل بھی نہ کیا (اور نہ آپ کے پاس آیا)
(اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ) ” - کہ تم نے ان کو تقسیم کر کے ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔ - (وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ ) ” - حضرت ہارون ( علیہ السلام) سے باز پرس کرنے کے بعد اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری سے جواب طلب کیا۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :71 ان آیات کے ترجمے میں ہم نے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ حضرت موسیٰ چھوٹے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے بڑے تھے ، اور حضرت ہارون بڑے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :72 حضرت ہارون کے اس جواب کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قوم کا مجتمع رہنا اس کے راہ راست پر رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ، اور اتحاد چاہے وہ شرک ہی پر کیوں نہ ہو ، افتراق سے بہتر ہے خوہ اس کی بنا حق اور باطل ہی کا اختلاف ہو ۔ اس آیت کا یہ مطلب اگر کوئی شخص لے گا تو قرآن سے ہدایت کے بجائے گمراہی اخذ کرے گا ۔ حضرت ہارون کی پوری بات سمجھنے کے لیے اس آیت کو سورہ اعراف کی آیت 150 کے ساتھ ملا کر پڑہنا چاہیے ۔ وہاں وہ فرماتے ہیں کہ : اَبْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ کَادُوْا یَقْتُلُوْ نَنِیْ ۗ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَلٓا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ میری ماں کے بیٹے ، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے ۔ پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ میں مجھے شمار نہ کر ۔ اب ان دونوں آیتوں کو جمع کر کے دیکھیے تو صورت واقعہ کی یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ حضرت ہارون نے لوگوں کو اس گمراہی سے روکنے کی پوری کوشش کی ، مگر انہوں نے آنجناب کے خلاف سخت فساد کھڑا کر دیا اور آپ کو مار ڈالنے پر تل گئے ۔ مجبوراً آپ اس اندیشے سے خاموش ہو گئے کہ کہیں حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے یہاں خانہ جنگی برپا نہ ہو جائے ، اور وہ بعد میں آ کر شکایت کریں کہ تم اگر اس صورت حال سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تھے تو تم نے معاملات کو اس حد تک کیوں بگڑنے دیا ، میرے آنے کا انتظار کیوں نہ کیا ۔ سورہ اعراف والی آیت کے آخری فقرے سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ قوم میں دونوں بھائیوں کے دشمنوں کی ایک تعداد موجود تھی ۔
39: یعنی میرے چلے جانے سے قوم دو ٹکڑوں میں بٹ جاتی، کچھ لوگ میرا ساتھ دیتے، اور کچھ ان گمراہوں کا جو مجھے قتل تک کرنے کے درپے تھے جیسا کہ سورۃ اعراف :150 میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی زبانی بیان فرمایا گیا ہے۔ لہذا آپ نے جو فرمایا تھا کہ اصلاح کرتے رہنا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ ایسا کرنے سے آپ اس حکم کی خلاف ورزی ہوجاتی۔