Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

گائے پرست سامری اور بچھڑا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے پوچھا کہ تونے یہ فتنہ کیوں اٹھایا ؟ یہ شخص باجروکا رہنے والا تھا اس کی قوم گائے پرست تھی ۔ اس کے دل میں گائے محبت گھر کئے ہوئے تھی ۔ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کیا تھا ۔ اس کا نام موسیٰ بن ظفر تھا ایک روایت میں ہے یہ کرمانی تھا ۔ ایک روایت میں ہے اس کی بستی کا نام سامرا تھا اس نے جواب دیا کہ جب فرعون کی ہلاکت کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے تو میں نے ان کے گھوڑے کے ٹاپ تلے سے تھوڑی سی مٹی اٹھا لی ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات یہی ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لے کر چڑھنے لگے تو سامری نے دیکھ لیا ۔ اس نے جلدی سے ان کے گھوڑے کے سم تلے کی مٹی اٹھا لی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل علیہ السلام آسمان تک لے گئے اللہ تعالیٰ نے تورات لکھی حضرت موسیٰ علیہ السلام قلم کی تحریر کی آواز سن رہے تھے لیکن جب آپ کو آپ کی قوم کی مصیبت معلوم ہوئی تو نیچے اتر آئے اور اس بچھڑے کو جلا دیا ۔ لیکن اس کی اثر کی سند غریب ہے ۔ اسی خاک کی چٹکی یا مٹھی کو اس نے بنی اسرائیل کے جمع کردہ زیوروں کے جلنے کے وقت ان میں ڈال دی ۔ جو بصورت بچھڑا بن گئے اور چونکہ بیچ میں خلا تھا وہاں سے ہوا گھستی تھی اور اس سے آواز نکلتی تھی حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھتے ہی اس کے دل میں خیال گزرا تھا کہ میں اس کے گھوڑے کے ٹاپوں تلے کی مٹی اٹھالوں میں جو چاہوں گا وہ اس مٹی کے ڈالنے سے بن جائے گا اس کی انگلیاں اسی وقت سوکھ گئی تھی ۔ جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ ان کے پاس فرعونیوں کے زیورات رہ گئے اور فرعونی ہلاک ہو گئے اور یہ اب ان کو واپس نہیں ہوسکتے تو غمزدہ ہونے لگے سامری نے کہا دیکھو اس کی وجہ سے تم پر مصیبت نازل ہوئی ہے اسے جمع کر کے آگ لگا دو جب وہ جمع ہو گئے اور آگ سے پگھل گئے تو اس کے جی میں آئی کہ وہ خاک اس پر ڈال دے اور اسے بچھڑے کی شکل میں بنالے چنانچہ یہی ہوا ۔ اور اس نے کہہ دیا کہ تمہارا اور موسیٰ علیہ السلام کا رب یہی ہے ۔ یہی وہ جواب دے رہا ہے کہ میں نے اسے ڈال دیا اور میرے دل نے یہی ترکیب مجھے اچھی طرح سمجھا دی ہے ۔ کلیم اللہ نے فرمایا تو نے نہ لینے کی چیز کو ہاتھ لگایا تیری سزا دنیا میں یہی ہے کہ اب نہ تو تو کسی کو ہاتھ لگا سکے نہ کوئی اور تجھے ہاتھ لگا سکے ۔ باقی سزا تیری قیامت کو ہوگی جس سے چھٹکارا محال ہے ان کے بقایا اب تک یہی کہتے ہیں کہ نہ چھونا اب تو اپنے اللہ کا حشر بھی دیکھ لے جس کی عبادت پر اوندھا پڑا ہوا تھا کہ ہم اسے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں چنانچہ وہ سونے کا بچھڑا اس طرح جل گیا جیسے خون اور گوشت والا بچھڑا جلے ۔ پھر اس کی راکھ کو تیز ہوا میں دریا میں ذرہ ذرہ کر کے اڑا دیا ۔ مروی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کی عورتوں کے زیور جہاں تک اس کے بس میں تھے لئے ان کا بچھڑا بنایا جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جلا دیا اور دریا میں اس کی خاک بہا دی جس نے بھی اس کا پانی پیا اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اس سے سارے گوسالہ پرست معلوم ہوگئے اب انہوں نے توبہ کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ہماری توبہ کیسے قبول ہو گی ؟ حکم ہوا کہ ایک دوسروں کو قتل کرو ۔ اس کا پورا بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارا معبود یہ نہیں ۔ مستحق عبادت تو صرف اللہ تعالیٰ ہے باقی تمام جہان اس کامحتاج ہے اور اس کے ماتحت ہے وہ ہر چیز کا عالم ہے ، اسکے علم نے تمام مخلوق کا احاطہ کر رکھا ہے ، ہر چیز کی گنتی اسے معلوم ہے ۔ ایک ذرہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں ہر پتے کا اور ہر دانے کا اسے علم ہے بلکہ اس کے پاس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا موجود ہے زمین کے تمام جانداروں کو روزیاں وہی پہنچاتا ہے ، سب کی جگہ اسے معلوم ہے سب کچھ کھلی اور واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔ علم الٰہی محیط کل اور سب کو حاوی ہے ، اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِيُّ : ہارون (علیہ السلام) سے جس زبانی اور عملی شدت کے ساتھ سوال ہوا تھا سامری سے سوال کرتے ہوئے وہ شدت نظر نہیں آتی، کیونکہ اپنوں پر غصہ زیادہ آتا ہے اور ان کے معقول عذر بیان کرنے پر غصہ ہی نہیں دل کا ملال بھی ختم ہوجاتا ہے، بلکہ ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔ چناچہ ہارون (علیہ السلام) کی بات سن کر موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی : (قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاَخِيْ وَاَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ ڮ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ) [ الأعراف : ١٥١ ] ” اے میرے رب مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کرلے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم والا ہے۔ “- اس کے برعکس سامری کی بدطینتی پہلے ہی معلوم تھی، سو سوال میں وہ شدت نہیں مگر اس کا عذر گناہ سن کر، جو بدتر از گناہ تھا، اسے ایسی سزا سنائی جو شاید کسی کو بھی نہ دی گئی ہو۔ اس کی مثال جنگ تبوک میں تین مخلص مسلمانوں کے لشکر سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان سے بائیکاٹ ہے، جس کا نتیجہ ان کے اخلاص و امانت کی بدولت ان کی توبہ کی قبولیت اور قرآن میں ہمیشہ کے لیے ذکر خیر کی صورت میں نکلا۔ اس کے برعکس منافقین کا عذر بظاہر قبول کرلیا جاتا ہے، مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں کسی جنگ میں ساتھ لے جانے، ان کا جنازہ پڑھنے، ان کی قبر پر کھڑا ہونے سے منع کردیا جاتا ہے اور آخرت کے بدترین عذاب کی نوید سنا دی جاتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (پھر سامری کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے) کہا کہ اے سامری تیرا کیا معاملہ ہے (یعنی تو نے یہ حرکت کیوں کی) اس نے کہا کہ مجھ کو ایسی چیز نظر آئی تھی جو اوروں کو نظر نہ آئی تھی ( یعنی حضرت جبرئیل (علیہ السلام) گھوڑے پر چڑھے ہوئے جس روز دریا سے پار اترے ہیں جو بمصلحت نصرت مؤمنین و اہلاک کفار کے آئے ہوں گے اور تاریخ طبری میں سدی سے بسند نقل کیا ہے کہ حضرت جبرئیل موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس یہ حکم لے کر گھوڑے پر سوار ہو کر آئے تھے کہ آپ طور پر جاویں تو اس وقت سامری نے دیکھا تھا) پھر میں نے اس فرستادہ (خداوندی کی سواری) کے نقش قدم سے ایک مٹھی ( بھر کر خاک) اٹھا لی تھی (اور خود بخود میرے قلب میں یہ بات آئی کہ اس میں زندگی کے اثرات ہوں گے جس چیز پر ڈالی جائے گی اس میں زندگی پیدا ہوجائے گی) سو میں نے وہ مٹھی (خاک اس بچھڑے کے قالب کے اندر) ڈال دی اور میرے جی کو یہی بات) بھائی اور) پسند آئی، آپ نے فرمایا تو بس تیرے لئے اس (دنیوی) زندگی میں یہ سزا (تجویز کی گئی) ہے کہ تو یہ کہتا پھرے گا کہ مجھ کو کوئی ہاتھ نہ لگانا اور تیرے لئے (اس سزا کے علاوہ) ایک اور وعدہ (حق تعالیٰ کے عذاب کا) ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں (یعنی آخرت میں جدا عذاب ہوگا) اور تو اپنے اس معبود (باطل) کو دیکھ جس (کی عبادت) پر تو جما ہوا بیٹھا تھا ( دیکھ) ہم اس کو جلا دیں گے پھر اس (کی راکھ) کو دریا میں بکھیر کر بہا دیں گے (تاکہ نام و نشان اس کا نہ رہے) بس تمہارا (حقیقی) معبود تو صرف اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ (اپنے) علم سے تمام چیزوں کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِيُّ۝ ٩٥- خطب ( حال)- الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] - ( خ ط ب ) الخطب - والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٥۔ ٩٦) اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سامری کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا سامری یہ تو نے بچھڑے کی پوجا کیوں کی، سامری کہنے لگا کہ مجھے ایسی چیز نظر آئی تھی جو بنی اسرائیل کو نہیں آئی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ان کے بغیر تجھے ایسی کیا چیز نظر آئی، وہ کہنے لگا کہ میں حضرت جبریل امین (علیہ السلام) کو گھوڑے پر سوار دیکھا تھا اور وہ دابۃ الحیاۃ تھا، تو میں نے حضرت جبریل امین (علیہ السلام) کے گھوڑے کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر خاک اٹھالی تو میں نے اس خاک کو اس بچھڑے کے منہ اور اس کی سرین میں ڈال دی جس کی وجہ سے اس کے منہ سے یہ آواز نکلنے لگی اور میری جی کو یہی بات بھائی ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani