96۔ 1 مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کو گزرتے ہوئے سامری نے دیکھا اور اس کے قدموں کے نیچے کی مٹی اس نے سنبھال رکھ لی، جس میں کچھ کرامات کے اثرات تھے۔ اس مٹی کی مٹھی اس نے پگھلے ہوئے زیورات یا بچھڑے میں ڈالی تو اس میں سے ایک قسم کی آواز نکلنی شروع ہوگئی جو ان کے فتنے کا باعث بن گئی۔
[٦٦] سیدنا موسیٰ اپنی قوم سے پھر اپنے بھائی ہارون سے مخاطب ہونے کے بعد اب سامری سے مخاطب ہوئے اور پوچھا : بتلاؤ سامری یہ کیا معاملہ ہے ؟ واضح رہے کہ قرآن نے یہاں خطب کا لفظ استعمال کیا ہے جو کسی ناگوار صورت حال کو دریافت کرنے کے لئے آتا ہے۔ نیز یہ سامری اگرچہ بظاہر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا تھا۔ مگر وہ ایک منافق اور فتنہ پرداز اور ہوشیار انسان تھا جو کفر و شرک کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا۔ وہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی کھل کر مخالفت تو کر نہ سکتا تھا مگر اس تاک میں رہتا تھا کہ کوئی موقع ملے تو قوم کو پھر سے اپنے آبائی دین یعنی گؤسالہ پرستی کی طرف لے جائے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی میں اسے ایسا موقع میسر آگیا تھا۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے سوال پر کہنے لگا : بات یہ ہے کہ میں نے ایک ایسی چیز دیکھ لی تھی جسے دوسرے نہیں دیکھ سکتے تھے اور وہ یہ تھی کہ فرعون کی موت کے وقت جب جبریل آئے تھے تو میں نے ان کی آمد کو محسوس کرلیا تھا اور ان کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی تھی۔ جب میں نے بچھڑے کی شکل بنائی تو اس میں یہ مٹی بھر دی تھی۔ یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب بچھڑا تیار کیا گیا تو اس میں سے بچھڑے کی سی آواز بھی آنے لگی اور یہ سب کچھ میں نے اس لئے کیا کہ میں اس مٹی کی کچھ کرامت دیکھنا چاہتا تھا۔- یہ تو تھا سامری کا وہ بیان جو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں دیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس کا یہ بیان بھی فریب کاری پر مشتمل تھا۔ وہ صرف یہی نہیں چاہتا تھا کہ پھر سے بت پرستی اور گؤسالہ پرستی کو فروع دے بلکہ حقیقتا وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں خود لیڈر بننا چاہتا تھا۔ آدمی ہوشیار تھا۔ سیدنا ہارون (علیہ السلام) کو کمزور دیکھ کر اس نے اپنے ہشیاری سے اپنے لئے میدان ہموار کرلیا تھا۔ یعنی سامری کا اصل مقصد سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اپنی لیڈری چمکانا تھا۔ اور اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی راہ اور اغراض و مقاصد سے اس کی راہ جدا گانہ ہو لہذا اس نے قوم کو اسی پرانی گؤسالہ پرستی کی راہ پر ڈال دیا جس سے وہ پہلے ہی مانوس تھے اور اس کے دلدادہ تھے۔ اس طرح وہ فی الواقعہ سیدنا موسیٰ کی عدم موجودگی میں قوم کا لیڈر بن گیا تھا۔ اور یہی بات سیدنا ہارون (علیہ السلام) کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے۔ اگر سیدنا ہارون اس شرک کو روکنے میں سختی سے کام لیتے تو قوم دو دھڑوں میں بٹ جاتی اور ان میں خانہ جنگی بپا ہوجاتی پھر حالات قابو سے باہر ہوجاتے۔- بعض علماء نے یہاں رسول سے مراد خود موسیٰ (علیہ السلام) لئے ہیں۔ اس صورت میں یہ جواب سامری کی انتہائی مکاری پر دلالت کرتا ہے، کہ اس طرح اس نے سیدنا موسیٰ کی خوشامد کرکے انھیں بھی اپنے حق میں نرم کرلینے کی ایک کوشش کی تھی۔ قرآن کریم کے انداز سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ سامری کا یہ بیان سب اس کے اپنے مکروفریب پر مشتمل تھا۔ رہی یہ بات کہ بچھڑے میں آواز کیسے پیدا ہوگئی تھی۔ تو یہ بات بھی چنداں مشکل نہ تھی۔ جب اس بچھڑے کے کھلے ہوئے منہ سے ہوا آڑ پار ہوتی تو اس سے بچھڑے کی سی آواز آنے لگتی تھی۔ جیسے باجا میں منہ سے پھونک مارنے سے مختلف قسم کی آوازیں نکلنے لگتی ہیں یا جیسے برقی گھنٹی کا سوچ دبانے سے اس سے مکتلف قسم کی گھنٹیوں سے مکتلف قسم کی اوازیں آتی ہیں۔ اور ان مختلف آوازوں کا تعلق باجے اور برقی گھنٹی کی اندرونی ساخت سے ہوتا ہے۔ اسی طرح سامری نے بچھڑے کے جسم کے اندر پترے اس ترتیب سے رکھ دیئے تھے کہ جب ہوا اس کے جسم سے آڑ پار گزرتی تو وہ آواز نکالنے لگتا تھا۔
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ ۔۔ : میں نے اس آیت کی تفسیر کے لیے بہت زیادہ تفاسیر کا مطالعہ کیا، کئی اہل علم سے بھی پوچھا، جو کچھ تفاسیر میں لکھا ہے، میں وہ نقل کرتا ہوں۔ حافظ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ “ (میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں نے نہیں دیکھی) یعنی میں نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا، جب وہ فرعون کو ہلاک کرنے کے لیے آئے تو ” فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ “ (سو میں نے رسول کے پاؤں کے نشان سے ایک مٹھی اٹھا لی) یعنی جبریل (علیہ السلام) کی گھوڑی کے پاؤں کے نشان سے۔ یہی بات بہت سے مفسرین یا زیادہ تر مفسرین کے ہاں مشہور ہے۔ “ (ابن کثیر) جیسا کہ حافظ ابن کثیر (رض) نے ذکر فرمایا، اکثر مفسرین نے یہی تفسیر کی ہے، بلکہ بعض نے تو اس کے علاوہ کسی تفسیر کو سلف کی تفسیر سے انحراف قرار دیا ہے، یعنی سامری نے مٹی کی وہ مٹھی بچھڑے کے مجسمے میں ڈالی تو اس سے گائے کی آواز آنے لگی۔ مگر اس تفسیر کی قرآن، حدیث یا آیات کے سیاق میں کوئی دلیل نہیں۔ شروع سورت سے یہاں تک جبریل (علیہ السلام) کا کوئی ذکر نہیں کہ الف لام عہد کا مان کر جبریل (علیہ السلام) مراد لیے جائیں۔ نہ پورے قرآن میں جبریل (علیہ السلام) کے متعلق ” الرَّسُوْلِ “ (معرف باللام) آیا ہے کہ ان کا لقب مان لیا جائے۔ پھر گھوڑی کا تو دور دور تک کچھ پتا نہیں۔ بعض تابعین کے اقوال یہاں دلیل نہیں بن سکتے، کیونکہ نہ وہ موقع پر موجود تھے اور نہ انھوں نے بتایا کہ یہ تفسیر انھوں نے کہاں سے لی۔ اگر انھوں نے پہلی کسی کتاب سے لی ہے، جیسا کہ ظاہر ہے، تو ہم اس پر یقین نہیں کرسکتے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تصدیق یا تکذیب دونوں سے منع فرمایا ہے۔ شک والی بات علم نہیں ہوسکتی اور نہ قرآن مجید (جس میں کوئی شک نہیں) کی تفسیر شک والی بات کے ساتھ کرنا علم تفسیر ہے۔ اس تفسیر سے پیدا ہونے والے سوالات، مثلاً تمام لوگوں میں سے سامری نے جبریل (علیہ السلام) کو کیسے پہچانا ؟ اسے کیسے معلوم ہوا کہ اس مٹھی میں کیا کرشمہ ہے وغیرہ، سب کے جوابات کے لیے مزید کہانیاں درج کی گئی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں۔- کئی مفسرین نے ابومسلم اصفہانی (معتزلی) کی تفسیر اختیار کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مفسرین نے جو کچھ فرمایا قرآن میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ چناچہ اس کی اور توجیہ ہوسکتی ہے کہ ” الرَّسُوْلِ “ سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور رسول کے پاؤں کے نشان سے ایک مٹھی پکڑنے سے مراد یہ ہے کہ میں نے ان کی سنت اور ان کے طریقے سے کچھ حصہ اخذ کیا۔ بعض اوقات آدمی کہتا ہے : ” فَلَانٌ یَقْفُوْ أَثَرَ فُلَانٍ وَ یَقْتَصُّ أَثَرَہُ “ ” فلاں شخص فلاں کے نشان قدم کا پیچھا کرتا ہے اور اس کے نشان قدم کے پیچھے جاتا ہے۔ “ جب وہ اس کے طریقے پر چلتا ہو۔ مطلب یہ ہوگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب سامری کو ملامت کی اور اس سے قوم کو گمراہ کرنے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا ” بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ “ یعنی مجھے معلوم ہوگیا کہ تم لوگ جس راہ پر ہو وہ حق نہیں تو ” فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ (وَقَدْ کُنْتُ ) “ اس سے پہلے اے رسول میں نے آپ کے دین اور طریقے کا کچھ حصہ اختیار کیا تھا، ” فَنَبَذْتُهَا “ پھر میں نے اس طریقے کو پھینک دیا اور اسے چھوڑ کر بچھڑے کی پرستش میرے نفس نے میرے لیے خوشنما بنادی۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے دنیا اور آخرت کے عذاب کی اطلاع دی اور اس نے رسول کو غائب کے صیغے سے اسی طرح ذکر کیا جیسے آدمی اپنے سردار سے گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امیر صاحب اس بارے میں کیا فرماتے ہیں اور امیر صاحب کیا حکم دیتے ہیں ؟ رہا اس کا موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا منکر ہونے کے باوجود انھیں رسول کہنا، تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے کفار کا قول ذکر فرمایا : (وَقَالُوْا يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ ) [ الحجر : ٦ ] ” اور انھوں نے کہا اے وہ شخص جس پر یہ نصیحت نازل کی گئی ہے بیشک تو تو دیوانہ ہے۔ “ حالانکہ وہ لوگ آپ پر نصیحت کا نزول تسلیم نہیں کرتے تھے۔ رازی لکھتے ہیں کہ ابومسلم نے جو ذکر کیا ہے وہ تحقیق کے زیادہ قریب ہے اور اس میں (پہلے) مفسرین کی مخالفت کے سوا کوئی خرابی نہیں۔ پھر رازی نے اس کی تائید میں کئی چیزیں ذکر کی ہیں۔ بہت سے بعد میں آنے والے مفسرین نے بھی یہ تفسیر اختیار کی ہے، مگر ” بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ “ کے بعد ” فَقَبَضْتُ قَبْضَةً “ کی تفسیر ” وَقَدْ کُنْتُ قَبَضْتُ “ کے ساتھ کرنا تکلف ہے، اسی طرح کسی کی پیروی کے لیے ” یَقْفُوْ “ اور ” یَقْتَصُّ أَثَرَہُ “ تو معروف ہے مگر اس مفہوم کے لیے ” یَقْبِضُ قَبْضَۃً مِنْ أَثَرِہِ “ کے استعمال کی لغت عرب میں کوئی نظیر نہ ابومسلم نے پیش کی ہے، نہ رازی نے اور نہ بعد میں آنے والے کسی بزرگ نے۔ پہلی تفسیر پر ابومسلم کا اعتراض کہ اس کی قرآن میں تصریح نہیں، اس تفسیر پر بھی وارد ہوتا ہے کہ اس کی تصریح بھی قرآن میں نہیں، محض کھینچ کھانچ کر یہ مطلب نکالا گیا ہے۔- ایک اردو مفسر نے یہ بات نکالی ہے کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا۔ اس نے بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کردی۔ پھر مزید جسارت یہ کی کہ خود موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ایک پر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی، اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آیا تھا اور ساتھ ہی یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقش قدم کی ایک مٹھی بھر مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے۔ رسول سے مراد ممکن ہے جبریل ہی ہوں، یا اس نے رسول کا لفظ خود موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے استعمال کیا تھا تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی، وہ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو ذہنی رشوت دینا چاہتا تھا۔ ( ملخص) مگر ساری قوم کے سامنے اس کے جھوٹ پر موسیٰ (علیہ السلام) جیسے پر جلال پیغمبر کا ذہنی رشوت لے کر خاموش رہنا اور صرف اسے سزا سنانے پر اکتفا کرنا اور قوم کے سامنے اس کے جھوٹ اور فریب کو واضح نہ کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ - ایک اور عقلی بزرگ نے ” بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ “ کی یہ توجیہ کی ہے کہ اس نے کہا کہ مجھے کشفی مشاہدہ ہوا جو صرف مجھی کو ہوا کہ جبریل (علیہ السلام) کے آتے ہی میں نے ان کے (یا ان کے گھوڑے کے) نقش قدم سے ایک مٹھی خاک اٹھالی ہے اور ایک بچھڑا بنا کر اس میں ڈال دی ہے، جس سے وہ بولنے لگا، مگر اب آپ کے ڈانٹنے سے معلوم ہوا کہ یہ محض میرے نفس کا دھوکا تھا۔ (ملخص) تعجب ہوتا ہے کہ یہ حضرات بات بناتے بناتے کہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے کی تفسیر کشفی مشاہدہ قادیانی طرز تفسیر کے سوا کچھ نہیں۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) قوم کے سامنے اس فریب کا پردہ چاک نہ کریں ؟ مجھے تو سلامتی اسی میں نظر آتی ہے کہ جس آیت کی تفصیل قرآن مجید کے الفاظ سے واضح نہ ہو اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آئی ہو، اہل کتاب کی کسی روایت پر یقین کرنے یا زبردستی کوئی مطلب نکالنے کے بجائے متشابہات میں سے سمجھ کر اس پر مجمل ایمان رکھا جائے اور اس کی تفصیل اللہ کے سپرد کردی جائے، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ) [ آل عمران : ٧ ] ” وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری، جس میں کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل ہیں اور کچھ دوسری کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں۔ “ آخر ہم حروف مقطعات، اللہ تعالیٰ کی صفات، سد ذوالقرنین، دابۃ الارض، یاجوج ماجوج اور قرآن مجید کی کتنی ہی باتوں کی تفصیل نہیں جانتے، مگر ہمارا ان پر ایمان ہے۔ سامری کے جواب کی تفصیل میں اگر ہمارا کوئی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور ذکر فرما دیتا۔ سو ہمارا ایمان ہے کہ اگرچہ ہم تفصیل نہیں جانتے مگر جو ہمارے رب نے فرمایا وہ حق ہے۔
معارف و مسائل - بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ ، (یعنی وہ چیز دیکھی جو دوسروں نے نہیں دیکھی) اس سے مراد جبرئیل امین ہیں اور ان کے دیکھنے کے واقعہ میں ایک روایت تو یہ ہے کہ جس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعجاز سے دریائے قلزم میں خشک راستے بن گئے اور بنی اسرائیل ان راستوں سے گزر گئے اور فرعونی لشکر دریا میں داخل ہو رہا تھا تو جبرئیل امین گھوڑے پر سوار یہاں موجود تھے دوسری روایت یہ ہے کہ دریا سے پار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر آنے کی دعوت دینے کے لئے جبرئیل امین گھوڑے پر سوار تشریف لائے تھے ان کو سامری نے دیکھ لیا دوسرے لوگوں کو معلوم نہ ہوسکا اس کی وجہ حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں یہ ہے کہ سامری کی پرورش خود جبرئیل امین کے ذریعہ ہوئی تھی جس وقت اس کی ماں نے اس کو غار میں ڈال دیا تھا تو جبرئیل امین روزانہ اس کو غذا دینے کے لئے آتے تھے اس کی وجہ سے وہ ان سے مانوس تھا اور پہچانتا تھا دوسرے لوگ نہیں پہچان سکے۔ (بیان القرآن)- فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ ، رسول سے مراد اس جگہ فرستادہ خداوندی حضرت جبرئیل امین ہیں۔ سامری کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈالی کہ جبرئیل امین کے گھوڑے کا قدم جس جگہ پڑتا ہے وہاں کی مٹی میں حیات و زندگی کے خاص اثرات ہوں گے یہ مٹی اٹھا لی جاوے اس نے نشان قدم کی مٹی اٹھا لی۔ یہ بات حضرت ابن عباس کی روایت میں ہے القی فی روعہ انہ لا یلقیھا علی شیئی فیقول کن کذا الاکان، یعنی سامری کے دل میں خود بخود یہ بات پیدا ہوئی کہ نشان قدم کی اس مٹی کو جس چیز پر ڈال کر یہ کہا جائے گا کہ فلاں چیز بن جا تو وہ وہی چیز بن جائے گی اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سامری نے گھوڑے کے نشان قدم کا یہ اثر مشاہدہ کیا کہ جس جگہ قدم پڑتا وہیں سبزہ فوراً نمودار ہوجاتا تھا جس سے یہ استدلال کیا کہ اس مٹی میں آثار حیات ہیں، کذا فی الکمالین، اسی تفسیر کو روح المعانی میں صحابہ وتابعین اور جمہور مفسرین سے منقول کہا ہے اور اس میں آج کل ظاہر پرست لوگوں نے جو شبہات نکالے ہیں ان سب کا جواب دیا ہے فجزاہ اللہ خیر الجزاء (بیان القرآن)- پھر جب بنی اسرائیل کے جمع کئے زیورات سے اس نے ایک بچھڑے کی ہئیت بنا لی تو اپنے گمان کے مطابق کہ اس مٹی میں آثار حیات ہیں جس چیز میں ڈالی جائے گی اس میں زندگی پیدا ہوجائے گی اس نے یہ مٹی اس بچھڑے کے اندر ڈال دی۔ بقدرت خداوندی اس میں حیات کے آثار پیدا ہوگئے اور بولنے لگا۔ اور حدیث فتون جو پہلے مفصل آ چکی ہے اس میں یہ ہے کہ اس نے حضرت ہارون (علیہ السلام) سے دعا کرائی کہ میں اپنے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس کو ڈالتا ہوں شرط یہ ہے کہ آپ یہ دعا کردیں کہ جو میں چاہتا ہوں وہ ہوجاوے۔ حضرت ہارون اس کے نفاق اور گو سالہ پرستی سے واقف نہ تھے دعا کردی اور اس نے وہ خاک نشان قدم کی اس میں ڈال دی تو حضرت ہارون کی دعا سے اس میں حیات کے آثار پیدا ہوگئے۔ ایک روایت کے حوالے سے یہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ سامری فارس یا ہندوستان کا باشندہ اس قوم کا فرد تھا جو گائے کی پرستش کرتی ہے، مصر پہنچ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا بعد میں پھر مرتد ہوگیا یا پہلے ہی ایمان کا اظہار منافقانہ کیا تھا پھر نفاق ظاہر ہوگیا۔ اس اظہار ایمان کا فائدہ اس کو یہ پہنچا کہ بنی اسرائیل کے ساتھ دریا سے پار ہوگیا۔
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِہٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُہَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِيْ نَفْسِيْ ٩٦- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - قبض - القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً- [ طه 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ- [ التوبة 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، کقولک : قَبَضْتُ الدّار من فلان، أي : حزتها . قال : تعالی: وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] ، أي : في حوزه حيث لا تمليك لأحد . وقوله : ثُمَّ قَبَضْناهُ إِلَيْنا قَبْضاً يَسِيراً [ الفرقان 46] ، فإشارة إلى نسخ الظّلّ الشمس . ويستعار القَبْضُ للعدو، لتصوّر الذي يعدو بصورة المتناول من الأرض شيئا، وقوله : يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] ، أي : يسلب تارة ويعطي تارة، أو يسلب قوما ويعطي قوما، أو يجمع مرّة ويفرّق أخری، أو يميت ويحيي، وقد يكنّى بِالْقَبْضِ عن الموت، فيقال : قَبَضَهُ الله، وعلی هذا النّحو قوله عليه الصلاة والسلام : «ما من آدميّ إلّا وقلبه بين أصبعین من أصابع الرّحمن» «2» أي : اللہ قادر علی تصریف أشرف جزء منه، فكيف ما دونه، وقیل : راعٍ قُبَضَةٌ: يجمع الإبلَ والِانْقِبَاضُ : جمع الأطراف، ويستعمل في ترک التّبسّط .- ( ق ب ض ) القبض - ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے جیسے محاورہ ہے : ۔ قبضت الدر من فلان یعنی اسے اپنے تصرف میں لے لیا قرآن میں ہے ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی یعنی اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہوگی اور کسی کا ملک نہیں ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ قَبَضْناهُ إِلَيْنا قَبْضاً يَسِيراً [ الفرقان 46] پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ میں سورج کے سایہ کو نقل کرنے کی طرف اشارہ ہے اور استعارہ کے طور پر قبض کے معنی تیز دوڑنے کے بھی آتے ہیں اس لحاظ سے کہ گویا دوڑ نے والا زمین سے کسی چیز کو پکڑتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] اور خدا ہی روزی کو تنگ کرتا اور اسے وہی کشادہ کرتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کبھی چھین لیتا ہے اور کبھی عطا کردیتا ہے ۔ یا ایک قوم سے چھین لیتا ہے اور دوسری کو عطا کردیتا ہے اور یا اس کے معنی زندہ کرنے اور مارنے کے ہیں کیونکہ کبھی قبض موت سے کنایہ ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے : ۔ قبضہ اللہ اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا " ما من آدميّ إلّا وقلبه بين أصبعین من أصابع الرّحمن»کہ ہر آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہے یعنی انسان کے سب سے اشرف جزء پر اللہ تعالیٰ کو تصرف حاصل ہے تو دوسرے اعضاء پر بالا ولٰی تصرف حاصل ہوگا ۔ راعی قبضۃ منتظم چرواہا - الا نقباض - کے معنی اطراف یعنی ہاتھ پاؤں سمیٹ لینے کے ہیں اور ترک تبسط یعنی بےتکلفی چھوڑ دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔- أثر - والإيثار للتفضل ومنه :[ آثرته، وقوله تعالی: وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر 9] وقال : تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 91] وبَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ الأعلی 16] .- وفي الحدیث : «سيكون بعدي أثرة» «5» أي : يستأثر بعضکم علی بعض .- ( ا ث ر )- اور الایثار ( افعال ) کے معنی ہیں ایک چیز کو اس کے افضل ہونے کی وجہ سے دوسری پر ترجیح دینا اور پسندکرنا اس سے آثرتہ ہے یعنی میں نے اسے پسند کیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر : 9] دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا [يوسف : 91] بخدا اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت بخشی ہے ۔ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا [ الأعلی : 16] مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ (5) حدیث میں ہے : سیکون بعدی اثرۃ ۔ ( میرے بعد تم میں خود پسندی آجائے گی ) یعنی تم میں سے ہر ایک اپنے کو دوسروں سے بہتر خیال کرے گا ۔ - نبذ - النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص .- ( ن ب ذ) النبذ - کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔- سول - والتَّسْوِيلُ : تزيين النّفس لما تحرص عليه، وتصویر القبیح منه بصورة الحسن، قال : بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف 18] - ( س و ل )- التسویل ۔ کے معنی نفس کے اس چیز کو مزین کرنا کے ہیں جس پر اسے حرص بھی ہو اور اس کے قبح کو خوشنما بناکر پیش کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف 18] بلکہ تم اپنے دل سے ( یہ ) بات بنا لائے ۔
(وَکَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ ) ” - رسول سے مراد یہاں حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) ہیں۔ حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) کہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے تھے تو سامری نے انہیں دیکھ لیا۔ سامری چونکہ راہب تھا ‘ وہ روحانی اور نفسیاتی نوعیت کے مجاہدے بھی کرتا رہتا تھا۔ اس لیے حضرت جبرائیل کسی اور کو تو نظر نہ آئے مگر اسے نظر آگئے۔ زمین پر جہاں آپ ( علیہ السلام) کا قدم پڑ رہا تھا وہاں سے اس نے کچھ مٹی اٹھا لی۔ یہی مٹی اس نے اس بھٹی میں ڈال دی جس میں وہ بچھڑا تیار کرنے کے لیے زیورات کو پگھلا رہا تھا۔ یوں حضرت روح الامین ( علیہ السلام) کے قدموں کی مٹی کی تاثیر سے اس بچھڑے سے وہ آواز آنے لگی۔ یہ گویا اس معاملے کے بارے میں سامری کی وضاحت ہے۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :73 اس آیت کی تفسیر میں دو گروہوں کی طرف سے عجیب کھینچ تان کی گئی ہے ۔ ایک گروہ جس میں قدیم طرز کے مفسرین کی بڑی اکثریت شامل ہے ، اس کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ سامری نے رسول یعنی حضرت جبریل کو گزرتے ہوئے دیکھ لیا تھا ، اور ان کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر مٹی اٹھا لی تھی ، اور یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب اسے بچھڑے کے بت پر ڈالا گیا تو اس میں زندگی پیدا ہو گئی اور جیتے جاگتے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی ۔ حالانکہ قرآن یہ نہیں کہہ رہا ہے فی الواقع ایسا ہوا تھا ۔ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ حضرت موسیٰ کی باز پرس کے جواب میں سامری نے یہ بات بنائی ۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مفسرین اس کو ایک امر واقعی ، اور قرآن کی بیان کردہ حقیقت کیسے سمجھ بیٹھے ۔ دوسرا گروہ سامری کے قول کو ایک اور ہی معنی پہناتا ہے ۔ اس کی تاویل کے مطابق سامری نے دراصل یہ کہا تھا کہ مجھے رسول ، یعنی حضرت موسیٰ میں ، یا ان کے دین میں وہ کمزوری نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہ آئی ۔ اس لیے میں نے ایک حد تک تو اس کے نقش قدم کی پیروی کی ، مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا ۔ یہ تاویل غالباً سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی کو سوجھی تھی ، پھر امام رازی نے اس کو اپنی تفسیر میں نقل کر کے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ، اور اب طرز جدید کے مفسرین بالعموم اسی کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قرآن معموں اور پہیلیوں کی زبان میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ صاف اور عام فہم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کو ایک عام عرب اپنی زبان کے معروف محاورے کے مطابق سمجھ سکے ۔ کوئی شخص جو عربی زبان کے معروف محاورے اور روز مرہ سے واقف ہو ، کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ سامری کے اس مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے عربی مبین میں وہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے جو آیت زیر تفسیر میں پائے جاتے ہیں ۔ نہ ایک عام عرب ان الفاظ کو سن کر کبھی وہ مطلب لے سکتا ہے جو یہ حضرات بیان کر رہے ہیں ۔ لغت کی کتابوں میں سے کسی لفظ کے وہ مختلف مفہومات تلاش کر لینا جو مختلف محاوروں میں اس سے مراد لیے جاتے ہوں ۔ اور ان میں سے کسی مفہوم کو لا کر ایک ایسی عبارت میں چسپاں کر دینا جہاں ایک عام عرب اس لفظ کو ہرگز اس مفہوم میں استعمال نہ کرے گا ۔ زباں دانی تو نہیں ہو سکتا ، البتہ سخن سازی کا کرتب ضرور مانا جا سکتا ہے ۔ اس قسم کے کرتب فرہنگ آصفیہ ہاتھ میں لے کر اگر کوئی شخص خود ان حضرات کی اردو تحریروں میں ، یا آکسفورڈ ڈکشنری لے کر ان کی انگریزی تحریروں میں دکھانے شروع کر دے ، تو شاید اپنے کلام کی دو چار ہی تاویلیں سن کر یہ حضرات چیخ اٹھیں ۔ بالعموم قرآن میں ایسی تاویلیں اس وقت کی جاتی ہیں جبکہ ایک شخص کسی آیت کے صاف اور سیدھے مطلب کو دیکھ کر اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ یہاں تو اللہ میاں سے بڑی بے احتیاطی ہو گئی ، لاؤ میں ان کی بات اس طرح بنا دوں کہ ان کی غلطی کا پردہ ڈھک جائے اور لوگوں کو ان پر ہنسنے کا موقع نہ ملے ۔ اس طرز فکر کو چھوڑ کر جو شخص بھی اس سلسلہ کلام میں اس آیت کو پڑھے گا وہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھ لے گا کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکر و فریب کی اسکیم تیار کی تھی ۔ اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی اور ساری قوم کے جاہل و نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا ۔ بلکہ اس پر مزید یہ جسارت بھی کی کہ خود حضرت موسیٰ کے سامنے ایک پر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی ۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا ، اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقش قدم کی ایک مٹھی بھر مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے ۔ رسول سے مراد ممکن ہے کہ جبریل ہی ہوں ، جیسا کہ قدیم مفسرین نے سمجھا ہے ۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ اس نے رسول کا لفظ خود حضرت موسیٰ کے لیے استعمال کیا تھا ، تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی ۔ وہ اس طرح حضرت موسیٰ کو ذہنی رشوت دینا چاہتا تھا ، تاکہ وہ اسے اپنے نقش قدم کی مٹی کا کرشمہ سمجھ کر پھول جائیں اور اپنی مزید کرامتوں کا اشتہار دینے کے لیے سامری کی خدمات مستقل طور پر حاصل کرلیں ۔ قرآن اس سارے معاملے کو سامری کے فریب ہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے ، اپنی طرف سے بطور واقعہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ اس سے کوئی قباحت لازم آتی ہو اور لغت کی کتابوں سے مدد لے کر خواہ مخواہ کی سخن سازی کرنی پڑے ۔ بلکہ بعد کے فقرے میں حضرت موسیٰ نے جس طرح اس کو پھٹکارا ہے اور اس کے لیے سزا تجویز کی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے گھڑے ہوئے اس پر فریب افسانے کو سنتے ہی انہوں نے اس کے منہ پر مار دیا ۔
40: رسول سے مراد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لشکر کے ساتھ تھے۔ عام طور سے مفسرین نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) انسانی شکل میں ایک گھوڑے پر سوار تھے، اور سامری نے دیکھا کہ گھوڑے کا پاؤں جس جگہ پڑتا، وہاں زندگی کے کچھ آثار پیدا ہوجاتے تھے۔ سامری نے سمجھا کہ اس مٹی میں جو زندگی کے آثار پیدا ہورہے ہیں، ان سے یہ کام بھی لیا جا سکتا ہے کہ کسی بے جان چیز پر ڈالنے سے اس میں زندگی کے کچھ خصوصیات پیدا ہوجائیں، چنانچہ اس نے ایک مٹھی اس مٹی کی لے کر بچھڑے پر ڈال دی جس سے آواز نکلنے لگی۔ لیکن بعض مفسرین مثلاً حضرت مولانا حقانی نے تفسیر حقانی جلد 3 ص 272، 273 میں فرمایا ہے کہ یہ سامری کی طرف سے ایک جھوٹا بہانہ تھا، ورنہ بچھڑے میں آواز خلا میں ہوا کے گذرنے سے نکلتی تھی، چونکہ قرآن کریم نے نہ کوئی تفصیل خود بیان فرمائی، نہ کسی مضبوط حدیث سے ثابت ہے، اور نہ کوئی دینی ضرورت اس کے جاننے پر موقوف ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس تفصیل کو اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کیا جائے۔