97۔ 1 یعنی عمر بھر تو یہی کہتا رہے گا کہ مجھ سے دور رہو، مجھے نہ چھونا، اس لئے کہ اسے چھو تے ہی چھونے والا بھی اور یہ سامری بھی دونوں بخار میں مبتلا ہوجاتے۔ اس لئے جب کسی انسان کو دیکھتا تو فوراً چیخ اٹھتا کہا جاتا ہے کہ پھر یہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا، جہاں جانوروں کے ساتھ اس کی زندگی گزری اور یوں عبرت کا نمونہ بنا رہا، گویا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو شخص جتنا زیادہ حیلہ و فن اور مکر و فریب اختیار کرے گا، دنیا اور آخرت میں اس کی سزا بھی اسی حساب سے شدید تر اور نہایت عبرت ناک ہوگی۔ 97۔ 2 یعنی آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے جو ہر صورت بھگتنا پڑے گا۔ 97۔ 3 اس سے معلوم ہوا کہ شرک کے آثار ختم کرنا بلکہ ان کا نام ونشان تک مٹا ڈالنا چاہیے ان کی نسبت کتنی ہی مقدس ہستیوں کی طرف ہو، توہین نہیں، جیسا کہ اہل بدعت، قبر پرست اور تعزیہ پرست باور کراتے ہیں بلکہ یہ توحید کا منشا اور دینی غیرت کا تقاضا ہے جیسے اس واقعے میں اس اثرالرسول کو نہیں دیکھا گیا جس سے ظاہری طور پر روحانی برکات کا مشاہدہ بھی کیا گیا اس کے باوجود اس کی پروا نہیں کی گئی اس لیے کہ وہ شرک کا ذریعہ بن گیا تھا۔
[٦٧] یعنی اس کو موسیٰ (علیہ السلام) نے اچھوت قرار دے دیا کہ کوئی شخص اس سے کسی قسم کا بھی تعلق نہ رکھے۔ پھر اس کے لئے مزید سزا یہ تھی کہ وہ خود دوسروں سے کہتا تھا کہ مجھ سے پرے رہنا، مجھ سے بچ کر رہنا، مجھے ہاتھ نہ لگانا، میں ناپاک ہوں لہذا مجھے نہ چھونا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اگر کوئی سامری کو ہاتھ لگاتا یا اسے چھوتا تو سامری کو اور چھونے والے کو دونوں کو تپ چڑھ جاتی تھی۔ لہذا سامری اس بات پر مجبور تھا کہ دوسروں سے کہے کہ مجھے ہاتھ نہ لگانا، ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے یہ بھی بتلا دیا کہ یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے اس جرم کی پوری سزا ہوچکی بلکہ آخرت میں جو تجھے عذاب ہونے والا ہے وہ بھی کبھی ٹل نہ سکے گا۔- ] ـ٦٨] یہ تو رہا تیرا انجام اور اب ہم تیرے الٰہ کا جس کا تو دن رات مجاور بن بیٹھا رہتا تھا، یہ حشر کرنے والے ہیں کہ اس سونے اور مٹی کے بت کے ہم پہلے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے پھر ان کو جلا کر راکھ بنادیں گے۔ اور پھر اس راکھ کو دریا میں پھینک دیں گے تاکہ تجھے اور پیروکاروں سب کو یہ معلوم ہوجائے کہ جو خدا اپنی بھی حفاظت نہیں کرسکتا وہ دوسرے کا کیا سنوار سکتا ہے یا بگاڑ سکتا ہے ؟
قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِي الْحَيٰوةِ ۔۔ :” مِسَاسَ “ ” قَاتَلَ یُقَاتِلُ مَقَاتَلَۃً وَ قِتَالًا “ کی طرح باب مفاعلہ کا مصدر ہے جس میں مشارکت پائی جاتی ہے، یعنی ایک دوسرے کو چھونا، ہاتھ لگانا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ زندگی بھر کے لیے ایسی بیماری اور عذاب میں مبتلا ہوا کہ وہ کسی کو ہاتھ لگاتا یا کوئی اسے ہاتھ لگاتا، دونوں صورتوں میں اسے شدید تکلیف ہوتی، جس کی حقیقت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ وہ اس سے بچنے کے لیے خود ہی کہتا پھرتا کہ نہ میں تمہیں ہاتھ لگاتا ہوں اور نہ تم مجھے ہاتھ لگاؤ۔ بعض تابعین نے کہا ہے کہ ہاتھ لگنے کی صورت میں سامری اور دوسرے شخص دونوں کو بخار چڑھ جاتا تھا، مگر انھوں نے اس خبر کا ذریعہ نہیں بتایا۔ زندگی ہی میں تمام انسانوں سے اس کا تعلق کاٹ دیا گیا اور وہ تنہائی کے بدترین عذاب میں مبتلا ہوگیا۔ اس کے عمل سے سزا کی مناسبت اہل علم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ گائے کی آواز والا بچھڑا بنا کر اسے معبود کی صورت میں پیش کرنے سے اس کا مقصد شہرت اور لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے کی خواہش تھی، اللہ تعالیٰ نے ایسی سزا دی کہ کسی ایک شخص سے بھی نہ مل سکے۔- وَاِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٗ : مراد موت، قبر اور آخرت کا عذاب ہے۔ - وَانْظُرْ اِلٰٓى اِلٰهِكَ الَّذِيْ ۔۔ : ” ظَلْتَ “ ” ظَلَّ یَظَلُّ “ (ع) سے واحد مذکر حاضر ہے، جو اصل میں ” ظَلِلْتَ “ تھا (پہلے لام کے کسرہ کے ساتھ) ، بولنے میں دشواری ختم کرنے کے لیے پہلا لام حذف کردیا گیا۔ وزن ” فَعِلْتَ “ کے بجائے ” فَلْتَ “ رہ گیا۔ ”ۭ لَنُحَرِّقَنَّهٗ “ جلانے میں شدت کے اظہار کے لیے باب تفعیل استعمال ہوا ہے۔ ” نَسَفَ یَنْسِفُ نَسْفًا “ (ض) اڑانا، بکھیرنا۔ ” الْيَمِّ “ نمکین سمندر اور میٹھے دریا دونوں معنوں میں آتا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ سونے یا چاندی کے بچھڑے کو آگ میں جلانے سے وہ دھات اڑانے اور بکھیرنے کے قابل تو نہیں ہوتی بلکہ زیادہ خالص اور مضبوط ہوجاتی ہے۔ اس کا جواب بعض مفسرین نے یہ دیا ہے کہ وہ گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا تھا، مقصد یہ تھا کہ ہم اسے ذبح کرکے اچھی طرح جلا کر دریا یا سمندر میں اڑا کر بکھیر دیں گے، مگر گوشت پوست کا بچھڑا بننے کی بات بالکل بےاصل ہے۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ہم اسے خوب گرم کریں گے، تاکہ وہ نرم ہوجائے، پھر ریتی کے ساتھ اسے ذرہ ذرہ کر کے دریا میں بکھیر دیں گے، مگر قرآن مجید میں ریتی کا ذکر نہیں۔ اس لیے بعض مفسرین نے فرمایا کہ ” حَرَقَ یَحْرُقُ “ کا معنی پیسنا بھی آتا ہے اور باب تفعیل میں مزید مبالغہ ہوگیا۔ یہ جواب بھی زبردستی پر مبنی ہے، کیونکہ ” تَحْرِیْقٌ“ کا معنی جلانا ہی آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے مجھے اس کا بالکل واضح جواب مل گیا، وہ یہ کہ حکیم جس دھات کا چاہتے ہیں کشتہ بنا لیتے ہیں، جو راکھ کی صورت میں اتنا باریک ہوجاتا ہے کہ پھونک سے اڑ جاتا ہے۔ اطباء کو انبیاء کے کمال سے تو کوئی نسبت ہی نہیں، لہٰذا ان کے لیے دھات کو راکھ بنانا کیا مشکل ہے ؟ - 3 موسیٰ (علیہ السلام) کا عمل اس بات کی دلیل ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کے لیے جو چیز بھی استعمال ہو رہی ہو اسے مسمار کرنا، جلانا اور اس کا نام و نشان مٹا دینا لازم ہے، خواہ وہ کوئی بت ہو یا درخت یا قبر۔ ابوالہیاج الاسدی (علی (رض) کے داماد) فرماتے ہیں کہ مجھے علی (رض) نے فرمایا : ( أَلَا أَبْعَثُکَ عَلٰی مَا بَعَثَنِيْ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لاَّ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلَّا طَمَسْتَہٗ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہٗ ) [ مسلم، الجنائز، باب الأمر بتسویۃ القبر : ٩٦٩ ] ” کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا تھا ؟ وہ یہ ہے کہ کسی مجسمے کو نہ چھوڑو جسے مٹا نہ دو اور کسی اونچی قبر کو نہ چھوڑو جسے برابر نہ کر دو ۔ “ اللہ کی شان دیکھیے، اونچی قبریں برابر کرنے پر علی (رض) کو مقرر فرمایا جنھیں تمام قبر پرست، اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی دنیوی و اخروی ذلت و رسوائی کا باعث اہل کتاب کی پیروی میں قبر پرستی اور شرک کی دوسری صورتوں میں مبتلا ہونا اور توحید سے منہ موڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اپنی توحید کی طرف پلٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) ” لَنُحَرِّقَنَّهٗ “ اور ” لَنَنْسِفَنَّهٗ “ میں لام تاکید اور نون ثقیلہ کے ساتھ اور پھر ” نَسْفًا “ مفعول مطلق کے ساتھ تاکید کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر صورت اسے جلائیں گے اور ہر صورت دریا میں اڑا کر بکھیریں گے۔ کسی طرح ایسا کرنے سے نہیں ٹلیں گے، خواہ کوئی مقابلے پر آجائے، یا منت و سماجت کرے، یا اپنے اس معبود کے غیظ و غضب سے ڈراتا رہے، یہ کام ہو کر رہے گا۔
فَاِنَّ لَكَ فِي الْحَيٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کے لئے دنیا کی زندگی میں یہ سزا تجویز کی کہ سب لوگ اس سے مقاطعہ کریں کوئی اس کے پاس نہ جاوے اور اس کو بھی یہ حکم دیا کہ کسی کو ہاتھ نہ لگائے اور زندگی بھر اسی طرح وحشی جانوروں کی طرح سب سے الگ رہے۔ یہ سزا ہوسکتا ہے کہ ایک قانون کی صورت میں ہو جس کی پابندی اس پر اور دوسرے سب بنی اسرائیل پر منجانب موسیٰ (علیہ السلام) لازم کردی گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ قانونی حیثیت کی سزا سے آگے خود اس کی ذات میں بقدرت خداوندی کوئی ایسی بات پیدا کردی گئی ہو کہ نہ وہ دوسروں کو چھو سکے نہ کوئی دوسرا اس کو چھو سکے جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بد دعا سے اس میں یہ کیفیت پیدا ہوگئی تھی کہ اگر یہ کسی کو ہاتھ لگا دے یا کوئی اس کو ہاتھ لگا دے تو دونوں کو بخار چڑھ جاتا تھا، کذا فی المعالم۔ اس ڈر کے مارے وہ سب سے الگ بھاگا پھرتا تھا اور جب کسی کو قریب آتا دیکھتا تو دور سے پکارتا تھا لامساس یعنی کوئی مجھے نہ چھوئے۔- سامری کی سزا میں ایک لطیفہ :- روح المعانی میں بحوالہ بحر محیط نقل کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کو قتل کردینے کا ارادہ کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی سخاوت اور لوگوں کی خدمت کرنے کی وجہ سے قتل کی سزا سے منع فرما دیا۔ (بیان القرآن)- لَنُحَرِّقَنَّهٗ (یعنی ہم اس کو آگ میں جلائیں گے) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بچھڑا سونے چاندی کے زیورات سے گھڑا ہوا تھا تو اس کے آگ میں جلانے کی کیا صورت ہوگی سونا چاندی پگھلنے والی چیز ہے جلنے والی نہیں۔ جواب یہ ہے کہ اول تو خود اس میں اختلاف ہے کہ بچھڑے میں آثار حیات پیدا ہونے کے بعد بھی وہ چاندی سونے ہی کا رہا یا اس کی حقیقت تبدیل ہو کر گوشت اور خون بن گیا۔ اگر وہ گوشت اور لحم و دم بن گیا تھا تو ظاہر ہے کہ اس کو جلانے کا مطلب یہ ہوگا کہ ذبح کر کے جلا دیا جاوے گا اور اگر دوسرا قول لیا جاوے تو اس کے جلانے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کو سوہان سے ریت کر ذرہ ذرہ کردیا جاوے گا (کما فی الدر المنثور) یا کسی حیلہ اکسیریہ سے جلا دیا جاوے گا (کما فی روح المعانی) اور یہ بھی کوئی امر مستبعد نہیں کہ احراق اور جلانا بطور خرق عادت و معجزہ ہو واللہ اعلم (بیان القرآن)
قَالَ فَاذْہَبْ فَاِنَّ لَكَ فِي الْحَيٰوۃِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ ٠۠ وَاِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَہٗ ٠ۚ وَانْظُرْ اِلٰٓى اِلٰہِكَ الَّذِيْ ظَلْتَ عَلَيْہِ عَاكِفًا ٠ۭ لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّہٗ فِي الْيَمِّ نَسْفًا ٩٧- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - خُلف ( عهد شكني)- والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] - ( خ ل ف ) خُلف - الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - عكف - العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] ، أي : محبوسا ممنوعا .- ( ع ک ف ) العکوف - کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بی ٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔- حرق - يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه 97] ، و ( لنحرقنّه) «3» ، قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء :- إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق «4» ، وحَرَقَ الشیء : إذا برده بالمبرد، وعنه استعیر : حرق الناب، وقولهم : يحرق عليّ الأرّم «5» ، وحرق الشعر : إذا انتشر، وماء حُرَاق : يحرق بملوحته، والإحراق : إيقاع نار ذات لهيب في الشیء، ومنه استعیر : أحرقني بلومه : إذا بالغ في أذيّته بلوم .- ( ح ر ق )- احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔ حرق ( ن ) الشئی ریتی سے رگڑنا اسی سے حرق الناب کا محاورہ ہے جس کے معنی دانت پیسنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ یحرق علی الارم یعنی وہ مجھ پر دانت پیستا ہے ۔ حرق الشعر ۔ بالوں کا منتشر ہونا ۔ ماء حراق بہت کھاری پانی جو کھا ری پن سے جلا ڈالے ۔ الاحراق کسی چیز کو جلانا اسی سے استعارۃ جب کہ بہت زیادہ ملامت کرکے اذیت پہنچائے تو کہا جاتا ہے ۔ احرقبی بلومہ یعنی اس نے مجھے ملامت سے جلا ڈالا ۔- نسف - نَسَفَتِ الرِّيحُ الشَّيْءَ : اقتلعتْه وأزالَتْهُ. يقال نَسَفْتَهُ وانْتَسَفْتَهُ. قال تعالی: يَنْسِفُها رَبِّي نَسْفاً- [ طه 105] ونَسَفَ البعیرُ الأرضَ بمُقَدَّمِ رِجْلِهِ : إذا رَمَى بترابه . يقال : ناقة نَسُوفٌ. قال تعالی: ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفاً [ طه 97] أي : نطرحه فيه طَرْحَ النُّسَافَة، وهي ما تثور من غبارِ الأَرْض . وتسمّى الرُّغْوة نُسَافَةً تشبيهاً بذلک، وإناء نَسْفَانٌ: امْتَلأ فعَلَاهُ نُسَافَةٌ ، وانْتُسِفَ لَوْنُهُ. أي : تغيَّر عمّا کان عليه نسافُه، كما يقال : اغبرَّ وجهُه . والنَّسْفَة :- حجارة يُنْسَفُ بها الوسخُ عن القدم، و کلام نَسِيفٌ. أي : متغيِّر ضَئِيلٌ.- ( ن س ف )- نسفت الریح الشئی کے معنی ہوا کے کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کے ہیں ۔ اور نسفتہ وانتسقتہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَنْسِفُها رَبِّي نَسْفاً [ طه 105] خدا ان کو اڑا کر بکھیر دے گا ۔ کے معنی اونٹ کا اپنے اگلے پاؤں کے ساتھ مٹی کو پھینکنا کے ہے اور گھاس کو جڑ سے اکھاڑ کر چرنے والی اونٹنی کو ناقۃ نسوف کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفاً [ طه 97] پھر اس کی راخ کو اڑا کر دریامیں بکھر دیں گے ۔ یعنی ہم نسافۃ کی طرح اسے پھینک دیں گے اور نسا فۃ کے معنی اڑتی ہوئی غبار کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر جھاگ کو بھی نسافہ کہتے ہیں اور اناء نسفان بھرے ہوئے برتن کو کہتے ہیں جس پر جھاگ غالب ہو ۔ انتسف لونہ غبار آلود ہونے کی وجہ سے کسی شخص کی رنگت کا متغیر ہوجانا جیسا کہ اغبر وجھہ کا محاورہ ہے ۔ النسفۃ سنگ پائے خار کلام نسیف سخن پنہاں جو متغیر اور بود اہو
(٩٧) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری سے فرمایا جا تیری زندگی میں یہی سزا تجویز ہوئی ہے کہ تو یہ کہتا پھرے گا کہ مجھے کوئی ہاتھ نہ لگائے تاکہ نہ تو کسی کے قریب جائے گا اور نہ تیرے پاس کوئی آئے گا اور قیامت کے دن تیرے لیے ایک اور عذاب کا وقت مقرر ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں اور اب اپنے اس معبود کا بھی نظارہ کرلے جس کی عبادت پر تو جما ہوا بیٹھا تھا دیکھ ہم اس کو آگ میں جلا دیں گے یا یہ کہ ہم اس کو ریزہ ریزہ کردیں گے پھر اس کے ذرات کو دریا میں بکھیر کے اڑا دیں گے۔
آیت ٩٧ (قَالَ فَاذْہَبْ فَاِنَّ لَکَ فِی الْْحَیٰوۃِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَص) ” - سامری بطور سزا جس بیماری میں مبتلا کیا گیا تھا اس کی تفصیل تو نہیں ملتی مگر ان الفاظ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ عملاً وہ اچھوت بن کر رہ گیا تھا۔ نہ وہ کسی کے قریب جاسکتا تھا اور نہ ہی کوئی دوسرا شخص اس کے پاس آسکتا تھا۔ بعض روایات میں اس طرح کی تفصیلات ملتی ہیں کہ اگر کوئی شخص اس کے قریب جاتا تو دونوں سخت بخار میں مبتلا ہوجاتے تھے اور یوں باقی تمام زندگی اسے معاشرتی مقاطعہ کی سزا بھگتنا پڑی۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :74 یعنی صرف یہی نہیں کہ زندگی بھر کے لیے معاشرے سے اس کے تعلقات توڑ دیے گئے اور اسے اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا ۔ بلکہ یہ ذمہ داری بھی اسی پر ڈالی گئی کہ ہر شخص کو وہ خود اپنے اچھوت پن سے آگاہ کرے اور دور ہی سے لوگوں کو مطلع کرتا رہے کہ میں اچھوت ہوں ، مجھے ہاتھ نہ لگانا ۔ بائیبل کی کتاب احبار میں کوڑھیوں کی چھوت سے لوگوں کو بچانے کے لیے جو قواعد بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ : اور جو کوڑھی اس بلا میں مبتلا ہو اس کے کپڑے پھٹے اور اس کے سر کے بال بکھرے رہیں اور وہ اپنے اوپر کے ہونٹ کو ڈھانکے اور چلا چلا کر کہے ناپاک ناپاک ۔ جتنے دنوں تک وہ اس بلا میں مبتلا رہے وہ ناپاک رہے گا اور وہ ہے بھی ناپاک ۔ پس وہ اکیلا رہے ، اس کا مکان لشکر گاہ کے باہر ہو ۔ ( باب 13 ۔ آیت 45 ۔ 46 ) ۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے طور پر اس کو کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیا گیا ہوگا ، یا پھر اس کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہوگی کہ جس طرح جسمانی کوڑھ کا مریض لوگوں سے الگ کر دیا جاتا ہے اسی طرح اس اخلاقی کوڑھ کے مریض کو بھی الگ کر دیا جائے ، اور یہ بھی کوڑھی کی طرح پکار پکار کر ہر قریب آنے والے کو مطلع کرتا رہے کہ میں ناپاک ہوں ، مجھے نہ چھونا ۔
41: سامری کے جرم کی سزا اس کو یہ دی گئی کہ تمام لوگ اس کا بائیکاٹ کریں، نہ کوئی اسے چھوئے اور نہ وہ کسی کو ہاتھ لگائے۔ اب یہ بھی ممکن ہے کہ اس کو یہ سزا قانونی حکم کے ذریعے دی گئی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے، جیسا کہ بعض روایات میں آیا بھی ہے، کہ اس کے جسم میں کوئی ایس بیماری پیدا ہوگئی تھی کہ کوئی شخص اسے ہاتھ لگاتا تو اس کو بھی اور ہاتھ لگانے والے کو بھی بخار چڑھ جاتا۔ 42: اس سے مراد آخرت کے عذاب کا وعدہ ہے۔