Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَآ اِلٰــهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ ۭ ۔۔ : یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام ہے جنھوں نے سامری سے خطاب کے بعد اپنی امت کے لوگوں کو مخاطب فرمایا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی دو دلیلیں بیان ہوئی ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ اس صفت میں ساری صفات آجاتی ہیں، تفصیل اس کی علم کلام کی کتابوں میں ” لا الٰہ الا اللہ “ کی تشریح میں مذکور ہے۔ دوسری دلیل خاص صفت علم ہے جس کے گھیرے سے کوئی چیز باہر نہیں۔ ” وَسِعَ “ کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا کہ گھیرا ڈالنے والی چیز میں اس کے اندر والی چیز سے زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔ (ابن عاشور) جو ” كُلَّ شَيْءٍ “ سے بھی وسیع ہے، اس کی وسعت کا اندازہ کون کرسکتا ہے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَآ اِلٰــہُكُمُ اللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ۭ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا۝ ٩٨- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- وسع - السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ :- الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو .- ( و س ع )- اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٨) تمہارا معبود حقیقی تو وہی اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے اور وہ ہمارا پروردگار اپنے علم سے تمام چیزوں سے تمام جزیوں کو احاطہ میں کیے ہوئے ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ) ” - اسرائیلی قوم کے بگڑے ہوئے عقائد اور ان کی عمومی ذہنیت کی جو تفصیلات ہمیں قرآن سے ملتی ہیں اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہندو برہمن کی سوچ ‘ ذہنیت اور عقائد کی اس سے بہت قریبی مشابہت نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں میری ذاتی رائے ہے کہ آج سے ساڑھے تین ہزار سال قبل (چودہ سو سال قبل مسیح) کے لگ بھگ جب آریا نسل کے لوگ ہندوستان کی طرف محو سفر تھے تو ان کے ساتھ کسی مقام پر کچھ اسرائیلی قبائل بھی شامل ہوگئے تھے۔ یہ تقریباً وہی زمانہ تھا جب مصر سے بنی اسرائیل کا خروج ( ) ہوا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں ان کے کچھ ایسے قبائل کا ذکر ملتا ہے جنہیں وہ اپنے گم شدہ قبائل ( ) کہتے ہیں۔ یہ وہ قبائل ہیں جو صحرا میں گم ہوگئے تھے اور ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں چلے گئے۔ میرے خیال کے مطابق بنی اسرائیل کے وہ گم شدہ قبائل کسی نہ کسی طرح آریاؤں (آریا لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت حام کی نسل سے تھے) کے ان گروہوں سے آملے تھے جو اس زمانے میں ہندوستان کی طرف کوچ کر رہے تھے اور اس طرح آریاؤں کے ساتھ وہ لوگ بھی ہندوستان میں آ بسے تھے۔ اس سلسلے میں میرا گمان یہ ہے کہ ہندوبرہمن انہی اسرائیلیوں کی نسل سے ہیں۔ - میرے اس گمان کی بنیاد ہندوؤں اور اسرائیلیوں کے رسم و رواج اور عقائد میں پائی جانے والی گہری مشابہت ہے۔ مثلاً جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کے بچھڑے کو جلا کر اس کی راکھ کو سمندر میں بہایا تھا ‘ بالکل اسی طرح ہندو اپنے ُ مردوں کو جلا کر ان کی راکھ کو گنگا وغیرہ میں بہاتے ہیں۔ اسرائیلیوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنایا تھا ‘ ہندو بھی مذہبی طور پر گائے کو مقدس مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو روایتی طور پر اپنے لیے وہی شوخ یا زرد گیروا رنگ پسند کرتے ہیں جو قرآن میں بنی اسرائیل کے لیے مخصوص گائے کا رنگ بتایا گیا ہے (البقرہ : ٦٩) ۔ پھر سامری کے اچھوت ہوجانے کے تصور کو بھی ہندوؤں نے بعینہٖ اپنایا اور اس کے تحت اپنے معاشرے کے ایک طبقے کو اچھوت قرار دے ڈالا۔ اسی طرح بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ کے اٹھائے جانے سے متعلق قرآنی بیان (الاعراف : ١٧١) سے مماثل ہندوؤں میں یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ ہنومان جی پہاڑ کو اٹھا لائے تھے۔ الغرض اسرائیلیوں اور ہندوؤں کے باہم مشترک عقائد اور رسم و رواج میرے اس خیال کو تقویت دیتے ہیں کہ ہندوستان کے برہمن اسرائیلیوں ہی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ - اس سلسلے میں میرا خیال یہ بھی ہے کہ اپنشدز کی تحریروں میں صحف ابراہیم کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔ میں نے ایک زمانے میں ان کا مطالعہ کیا تھا تو معلوم ہوا کہ ان کی تحریروں میں توحید کا عنصر بہت زیادہ نمایاں ہے۔ قرآن حکیم میں صحف ابراہیم (علیہ السلام) اور صحف موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے (الاعلیٰ : ١٩) ۔ ” صحف موسیٰ (علیہ السلام) ٰ “ تو عہد نامہ قدیم ( ) کی پہلی پانچ کتابوں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں ‘ اگرچہ تحریف شدہ ہیں ‘ لیکن صحف ابراہیم (علیہ السلام) کا بظاہر کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ دوسری طرف اپنشد زکی تحریروں میں توحید کی تعلیمات کا پایا جانا ان میں الہامی اثرات کی موجود گی کا واضح ثبوت ہے۔ اسی بنا پر میں اس نظریے کا قائل ہوں کہ اپنشدز یا تو صحف ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی تحریف شدہ شکلیں ہیں یا کم از کم صحف ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات کے اثرات کسی نہ کسی طرح ان تک ضرور پہنچے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani