سب سے اعلی کتاب فرمان ہے کے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ اصلی رنگ میں آپ کے سامنے بیان ہوا ایسے ہی اور بھی حالات گزشتہ آپ کے سامنے ہم ہو بہو بیان فرما رہے ہیں ۔ ہم نے تو آپ کو قرآن عظیم دے رکھا ہے جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا کیونکہ آپ حکمت وحمد والے ہیں کسی نبی کو کوئی کتاب اس سے زیادہ کمال والی اور اس سے زیادہ جامع اور اس سے بابرکت نہیں ملی ۔ ہر طرح سب سے اعلیٰ کتاب یہی کلام اللہ شریف ہے جس میں گذشتہ کی خبریں آئندہ کے امور اور ہر کام کے طریقے مذکور ہیں ۔ اسے نہ ماننے والا ، اس سے منہ پھیرنے والا ، اس کے احکام سے بھاگنے والا ، اس کے سوا کسی اور میں ہدایت کو تلاش کرنے والا گمراہ ہے اور جہنم کی طرف جانے والا ہے ۔ قیامت کو وہ اپنا بوجھ آپ اٹھائے گا اور اس میں دب جائے گا اس کے ساتھ جو بھی کفر کرے وہ جہنمی ہے کتابی ہو یا غیر کتابی عجمی ہو یا عربی اس کا منکر جہنمی ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ میں تمہیں بھی ہوشیار کرنے والا ہوں اور جسے بھی یہ پہنچے پس اس کا متبع ہدایت والا اور اس کا مخالف ضلالت وشقاوت والا جو یہاں برباد ہوا وہ وہاں دوزخی بنا ۔ اس عذاب سے اسے نہ تو کبھی چٹھکارا حاصل ہو نہ بچ سکے برا بوجھ ہے جو اس پر اس دن ہو گا ۔
99۔ 1 یعنی جس طرح ہم نے فرعون و موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا، اسی طرح انبیاء کے حالات ہم آپ پر بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ ان سے باخبر ہوں، اور اس میں عبرت کے پہلو ہوں، انھیں لوگوں کے سامنے نمایاں کریں تاکہ لوگ اس کی روشنی میں صحیح رویہ اختیار کریں۔ 99۔ 2 نصیحت (ذکر) سے مراد قرآن عظیم ہے۔ جس سے بندہ اپنے رب کو یاد کرتا، ہدایت اختیار کرتا اور نجات وسعادت کا راستہ اپناتا ہے۔
[٦٩] اس سورة کا آغاز بھی ذکر سے کیا گیا تھا۔ یعنی ہم نے یہ ذکر اس لئے نہیں نازل کیا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں بلکہ یہ تو ڈرنے والوں کے لئے یاددہانی ہے۔ یہاں اسی اصل موضوع کی طرف عود کیا گیا ہے۔ جو کہ نوع انسان کی ہدایت ہے۔ درمیان میں جو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کیا گیا تو اس میں بھی یہی رنگ غالب نظر آتا ہے۔
كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ ۔۔ : یعنی جیسے ہم نے آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) ، بنی اسرائیل، فرعون اور اس کی قوم کے حالات بتائے ہیں، ایسے ہی ہم آپ کو ان چیزوں کی کچھ خبریں سناتے ہیں جو آپ سے پہلے گزر چکیں۔ جنھیں نہ آپ نے دیکھا تھا اور نہ آپ کو یا آپ کی قوم کو ان کا علم تھا۔ دیکھیے ہود (٤٩) ان سے مقصود محض وقت گزاری یا لطف اٹھانا نہیں بلکہ مقصود نصیحت ہے اور ہم نے اپنے پاس سے آپ کو یہ عظیم نصیحت عطا کی ہے۔ اس عظیم نصیحت سے مراد وحی الٰہی کے ذریعے سے نازل ہونے والی کتاب و حکمت (قرآن و سنت) ہے۔ اس کے سوا بڑے سے بڑے آدمی کی بات نہ اللہ کے پاس سے ہے اور نہ اس پر عمل کی اجازت ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (٣) ” ذِكْرًا “ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” عظیم نصیحت “ کیا ہے اور ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” کچھ خبریں “ کیا ہے، تمام خبریں سننے کی نہ ضرورت ہے اور نہ سنی جاسکتی ہیں۔ ” مَا “ اکثر غیر ذوی العقول کے لیے آتا ہے، اس لیے ترجمہ ان لوگوں کے بجائے ” ان چیزوں کی کچھ خبریں “ کیا گیا ہے، ” ان احوال کی کچھ خبریں “ بھی ترجمہ ہوسکتا ہے۔
خلاصہ تفسیر - ربط آیات :- سورة طہ میں اصل بیان توحید، رسالت اور آخرت کے اصولی مسائل کا ہے انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات اسی سلسلہ میں بیان ہوئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بڑی تفصیل سے ذکر ہوا ہے اور اس کے ضمن میں رسالت محمدیہ کا اثبات بھی ہے اسی اثبات رسالت محمدیہ کا یہ حصہ ہے جو اگلی آیات میں بیان ہوا ہے کہ ان واقعات و قصص کا اظہار ایک نبی امی کی زبان سے خود دلیل رسالت و نبوت اور وحی الہی کی ہے اور ان سب کا سرچشمہ قرآن ہے اور حقیقت قرآن کے ذیل میں کچھ تفصیل معاد و آخرت کی بھی آگئی ہے (جس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا) اسی طرح ہم آپ سے اور واقعات گزشتہ کی خبریں (اور حکایتیں) بھی بیان کرتے رہتے ہیں (تاکہ نبوت کے دلائل میں زیادتی ہوتی چلی جائے) اور ہم نے آپ کو اپنے پاس سے ایک نصیحت نامہ دیا ہے (یعنی قرآن جس میں وہ خبریں ہیں اور وہ خود بھی استقلالاً بوجہ اپنے اعجاز کے دلیل نبوت ہے اور وہ نصیحت نامہ ایسا ہے کہ) جو لوگ اس (کے مضامین ماننے) سے روگردانی کریں گے سو وہ قیامت کے روز بڑا بھاری بوجھ (عذاب کا) لادے ہوں گے (اور) وہ اس (عذاب) میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بوجھ قیامت کے روز ان کے لئے بڑا (بوجھ) ہوگا جس روز صور میں پھونک ماری جاوے گی ( جس سے مردے زندہ ہوجاویں گے) اور ہم اس روز مجرم (یعنی کافر) لوگوں کو میدان قیامت میں) اس حالت سے جمع کریں گے کہ (نہایت بدصورت ہوں گے کہ آنکھوں سے) کرنجے ہوں گے ( جو آنکھوں کا بدترین رنگ شمار ہوتا ہے اور خوفزدہ اس قدر ہوں گے کہ) چپکے چپکے آپس میں باتیں کرتے ہوں گے ( اور ایک دوسرے سے کہتے ہوں گے) کہ تم لوگ (قبروں میں) صرف دس روز رہے ہوگے (مطلب یہ کہ ہم تو یوں سمجھے تھے کہ مر کر پھر زندہ ہونا نہیں یہ گمان تو بالکل غلط نکلا، نہ زندہ ہونا تو درکنار یہ بھی تو نہ ہوا کہ دیر ہی میں زندہ ہوتے بلکہ بہت ہی جلدی زندہ ہوگئے کہ وہ مدت دس روز کے برابر معلوم ہوتی ہے۔ وجہ اس مقدار کے برابر معلوم ہونے کی اس روز کی درازی اور ہول اور پریشانی ہے کہ قبر میں رہنے کی مدت اس کے سامنے اس قدر کم معلوم ہوگی حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) جس (مدت) کی نسبت وہ بات چیت کریں گے اس کو ہم خوب جانتے ہیں (کہ وہ کس قدر ہے جبکہ ان سب میں کا زیادہ صائب الرائے یوں کہتا ہوگا کہ نہیں تم تو ایک ہی روز (قبر میں) رہے ہو (اس کو صائب الرائی اس لئے فرمایا کہ یوم کے طول اور ہول کے اعتبار سے یہی نسبت اقرب ہے پس اس شخص کو حقیقت شدت کا زیادہ ادراک ہوا اس لئے اس شخص کی رائے پہلے شخص کے اعتبار سے بہتر ہے اور یہ مقصود نہیں کہ اس شخص کی بات بالکل صحیح ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ دونوں مقداریں اصلی تحدید کے اعتبار سے صحیح نہیں اور نہ ان قائلین کا یہ مقصود تھا) اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کا حال سن کر بعضے) لوگ آپ سے پہاڑوں کی نسبت پوچھتے ہیں (کہ قیامت میں ان کا کیا حال ہوگا) سو آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ میرا رب ان کو (ریزہ ریزہ کر کے) بالکل اڑا دے گا پھر زمین کو ایک میدان ہموار کر دے گا کہ جس میں تو (اے مخاطب) نہ ناہمواری دیکھے گا اور نہ کوئی بلندی (پہاڑ ٹیلہ وغیرہ کی) دیکھے گا اس روز سب کے سب (خدائی) بلانے والے (یعنی صور پھونکنے والے فرشتہ) کے کہنے پر ہو لیں گے (یعنی وہ اپنی صور پھونکنے کی آواز سے سب کو قبروں سے بلاوے گا تو سب نکل پڑیں گے) اس کے سامنے (کسی کا) کوئی ٹیڑھا پن نہ رہے گا (کہ قبر سے زندہ ہو کر نہ نکلے جیسے دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) کے سامنے ٹیڑھے رہتے تھے کہ تصدیق نہ کرتے تھے) اور (مارے ہیبت کے) تمام آوازیں اللہ تعالیٰ کے سامنے دب جاویں گی سو (اے مخاطب) تو بجز پاؤں کی آہٹ کے (کہ میدان حشر کی طرف چپکے چپکے چل رہے ہوں گے) اور کچھ (آواز) نہ سنے گا (خواہ بوجہ اس کے کہ اس وقت بولتے ہی نہ ہوں گے گو دوسرے موقع پر آہستہ آہستہ بولیں جیسا اوپر آیا ہے يّتَخَافَتُوْنَ اور خواہ بوجہ اس کے کہ بہت آہستہ بولتے ہوں گے جو ذرا فاصلے سے ہو وہ نہ سن سکے) اس روز (کسی کو کسی کی) سفارش نفع نہ دے گی مگر ایسے شخص کو (انبیاء و صلحاء کی سفارش نفع دے گی) کہ جس (کی سفارش کرنے) کے واسطے اللہ تعالیٰ نے (شافعین کو) اجازت دے دیہو اور اس شخص کے واسطے (شافع کا) بولنا پسند کرلیا ہو ( مراد اس سے مومن ہے کہ شافعین کو اس کی سفارش کے لئے اجازت ہوگی اور اس باب میں شافع کا بولنا پسندیدہ حق ہوگا اور کفار کے لئے سفارش کی کسی کو اجازت ہی نہ ہوگی پس عدم نفع بوجہ عدم شفاعت کے ہے اس میں اعتراض کرنے والے کفار کو ڈرانا ہے کہ تم تو شفاعت سے بھی محروم رہو گے اور وہ (اللہ تعالیٰ ) ان سب کے آگے پچھلے احوال کو جانتا ہے اور اس (کے معلومات) کو ان کا علم احاطہ نہیں کرسکتا (یعنی ایسا تو کوئی امر نہیں جو خلق کو معلوم ہو اور اللہ تعالیٰ کو معلوم نہ ہو اور ایسے بہت امور ہیں جو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں اور خلق کو معلوم نہیں پس مخلوقات کے وہ سب احوال بھی اس کو معلوم ہیں جن پر شفاعت کی قابلیت یا عدم قابلیت مرتب ہے، سو جو اس کا اہل ہوگا اس کے واسطے سفارش کرنے کی شافعین کو اجازت ہوگی اور جو اہل نہ ہوگا اس کے لئے اجازت نہ ہوگی) اور (اس روز) تمام چہرے اس حی وقیوم کے سامنے جھکے ہوں گے ( اور سب متکبرین اور منکرین کا تکبر و انکار ختم ہوجاوے گا) اور (اس وصف میں تو سب مشترک ہوں گے پھر آگے ان میں یہ فرق ہوگا کہ) ایسا شخص تو (ہر طرح) ناکام رہے گا جو ظلم (یعنی شرک) لے کر آیا ہوگا اور جس نے نیک کام کئے ہوں گے اور وہ ایمان بھی رکھتا ہوگا سو اس کو (کامل ثواب ملے گا) نہ کسی زیادتی کا اندیشہ ہوگا اور نہ کمی کا (مثلاً کہ کوئی گناہ اس کے نامہ اعمال میں زیادہ لکھ دیا جاوے یا کوئی نیکی کم لکھ دی جاوے اور یہ کنایہ ہے کمال ثواب سے پس اس کے مقابلہ میں کفار سے ثواب کی نفی مقصود ہوگی بوجہ عدم موجب ثواب کے گو ظلم اور حق تلفی کفار کی بھی نہ ہوگی اور کفار کے نیک اعمال کا حساب میں نہ لکھا جانا یہ کوئی ظلم نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ان کے اعمال شرط ایمان سے خالی ہونے کی وجہ سے کالعدم ہوگئے) اور ہم نے (جس طرح یہ مضامین مذکورہ مقام صاف صاف ارشاد کئے ہیں) اسی طرح اس کو (سارے کو) عربی قرآن کر کے نازل کیا ہے ( جس کے الفاظ واضح ہیں) اور اس میں ہم نے طرح طرح سے وعید (قیامت و عذاب کی) بیان کی ہے (جس سے معنی بھی واضح ہوگئے مطلب یہ کہ سارے قرآن کے مضامین ہم نے صاف صاف بتلائے ہیں) تاکہ وہ (سننے والے) لوگ (اس کے ذریعہ سے بالکل) ڈر جائیں (اور فی الحال ایمان لے آئیں) یا (اگر بالکل نہ ڈریں تو یہی ہو کہ) یہ قرآن کے لئے کسی قدر (تو) سمجھ پیدا کردے (یعنی اگر پورا اثر نہ ہو تو تھوڑا ہی ہو اور اسی طرح چند بار تھوڑا تھوڑا جمع ہو کر کافی مقدار ہوجاوے اور کسی وقت مسلمان ہوجاویں) سو اللہ تعالیٰ جو بادشاہ حقیقی ہے عالی شان ہے (کہ ایسا نافع کلام نازل فرمایا) اور (جس طرح عمل کرنا اور نصیحت ماننا جو اوپر مذکور ہوئے قرآن کی تبلیغ کا حق واجب ہے جس کا ادا کرنا سب مسلمانوں پر جو احکام کے مکلف ہیں فرض ہے اسی طرح بعض آداب قرآن کی تنزیل سے بھی متعلق ہیں جن کے ادا کرنے کا تعلق آپ سے ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ) قرآن (پڑھنے) میں قبل اس کے کہ آپ پر اس کی وحی پوری نازل ہوچکے عجلت نہ کیا کیجئے ( کہ اس میں آپ کو تکلیف ہوتی ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) سے سننا اور اس کو پڑھنا ساتھ ساتھ کرنا پڑتا ہے سو ایسا نہ کیجئے اور اس کا اندیشہ نہ کیجئے کہ شاید یاد نہ رہے یاد کرانا ہمارے ذمہ ہے) اور آپ ( بھی یاد ہونے کے لئے ہم سے) یہ دعا لیجئے کہ اے میرے رب میرا علم بڑھا دے (اس میں علم حاصل کے یاد رہنے کی اور غیر حاصل کے حصول کی اور جو حاصل ہونے والا نہیں اس میں عدم حصول ہی کو خیر اور مصلحت سمجھنے کی اور سب علوم میں خوش فہمی کی یہ سب دعائیں داخل ہیں تو لا تعجل کے بعد اس کا آنا نہایت ہی مناسب ہوا حاصل یہ کہ تدابیر حفظ میں سے تدبیر تعجیل کو ترک کیجئے اور تدبیر دعا کو اختیار کیجئے۔ )- معارف ومسائل - قَدْ اٰتَيْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا ذکر سے مراد اس جگہ جمہور مفسرین کے نزدیک قرآن ہے۔
كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ ٠ۚ وَقَدْ اٰتَيْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا ٩٩ۖۚ- قصص - الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص 11] - ( ق ص ص ) القص - کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - لدن - لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل .- قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76]- ( ل دن ) لدن - ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔
(٩٩) اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ سے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) اور گزشتہ قوموں کے واقعات بیان کرتے ہیں اور ہم نے بذریعہ قرآن کریم آپ کو کرامت وبلندی عطا فرمائی ہے کہ جس قرآن حکیم میں تمام اولین وآخرین کے متعلق معلومات اور باتیں ہیں۔
آیت ٩٩ (کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآءِ مَا قَدْ سَبَقَ ج) ” - اس طرح بذریعہ وحی پچھلی اقوام کے تفصیلی حالات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔- (وَقَدْ اٰتَیْنٰکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا ” - ہم نے اپنے فضل خاص سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ قرآن عطا کیا ہے۔ اس میں پچھلے زمانے کی خبریں بھی ہیں اور یاد دہانی اور تذکیر و نصیحت بھی۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :75 موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ختم کر کے اب پھر تقریر کا رخ اس مضمون کی طرف مڑتا ہے جس سے سورہ کا آغاز ہوا تھا ۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ پلٹ کر سورہ کی ان ابتدائی آیات کو پڑھ لیجیے جن کے بعد یکایک حضرت موسیٰ کا قصہ شروع ہو گیا تھا ۔ اس سے آپ کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آ جائے گی کہ سورہ کا اصل موضوع بحث کیا ہے ، بیچ میں قصہ موسیٰ کس لیے بیان ہوا ہے ۔ اور اب قصہ ختم کر کے کس طرح تقریر اپنے موضوع کی طرف پلٹ رہی ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :76 یعنی یہ قرآن ، جس کے متعلق آغاز سورہ میں کہا گیا تھا کہ یہ کوئی ان ہونا کام تم سے لینے اور تم کو بیٹھے بٹھائے ایک مشقت میں مبتلا کر دینے کے لیے نازل نہیں کیا گیا ہے ، یہ تو ایک یاد دہانی اور نصیحت ( تذکرہ ) ہے ہر اس شخص کے لیے جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو ۔
43: حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر اس جیسے واقعات کا جاری ہونا جبکہ آپ اُمّی ہیں، اور آپ کے پاس ان معلومات کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں، اور جو آیات آپ تلاوت کر رہے ہیں، وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمائی ہوئی ہیں۔