100۔ 1 یعنی سارے کے سارے شدت غم و الم سے چیخ اور چلا رہے ہونگے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی آواز بھی نہیں سن سکیں گے۔
لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ : ” زَفِيْرٌ“ کے معنی کے لیے دیکھیے سورة ہود (١٠٦) ۔- وَّهُمْ فِيْهَا لَا يَسْمَعُوْن : اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ وہ اتنی اونچی آواز سے گدھے کی طرح رینگیں گے کہ اپنے چیخ پکار کے شور میں کوئی بات نہیں سنیں گے۔ دوسری تفسیر عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمائی کہ جب وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جنھیں ہمیشہ آگ میں رکھا جائے گا، تو انھیں آگ کے تابوتوں میں ڈال دیا جائے گا، جن میں آگ کی میخیں ہوں گی، تو ان میں سے کسی کو نظر نہیں آئے گا کہ اس کے سوا کسی کو عذاب ہو رہا ہے۔ پھر عبد اللہ (رض) نے یہ آیت پڑھی : (لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّهُمْ فِيْهَا لَا يَسْمَعُوْنَ ) ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم، دکتور حکمت بن بشیر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ گویا آگ کے عذاب کے ساتھ تنہائی کا شدید عذاب مزید ہوگا کہ نہ کسی کو دیکھیں گے اور نہ کوئی آواز سنیں گے۔
لَہُمْ فِيْہَا زَفِيْرٌ وَّہُمْ فِيْہَا لَا يَسْمَعُوْنَ ١٠٠- زفر - قال : لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ [ الأنبیاء 100] ، فَالزَّفِيرُ : تردّد النّفس حتی تنتفخ الضّلوع منه، وازْدَفَرَ فلان کذا : إذا تحمّله بمشقّة، فتردّد فيه نفسه، وقیل للإماء الحاملات للماء : زَوَافِرُ.- ( ز ف ر ) الزفیر - اس کے اصل معنی سانس کی اس قدر تیزی سے آمد وشد کے ہیں کہ اس سے سینہ پھول جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ [ الأنبیاء 100] ان کے لئے اس میں چیخنا ہے ۔ ازد فر ( افتعال ) فلان کذا کسی چیز کو مشقت سے اٹھانا جس سے سانس پھول جائے ۔ اس لئے پانی لانے والی لونڈ یوں کو زوافر کہا جاتا ہے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔
(١٠٠) اور ان کا دوزخ میں شور و غل اور گدھے جیسی آوازیں ہوں گی (معاذ اللہ) اور وہ دوزخی رحمت وشفاعت دوزخ سے نکلنے اور نرمی کی کوئی بات بھی نہ سنیں گے اور نہ وہاں دیکھیں گے۔
آیت ١٠٠ (لَہُمْ فِیْہَا زَفِیْرٌ وَّہُمْ فِیْہَا لَا یَسْمَعُوْنَ ) ” - ان کے معبود جو ان کے ساتھ ہی جل رہے ہوں گے ‘ وہ ان کی اس چیخ و پکار کو سن نہیں پائیں گے۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :96 اصل میں لفظ زَفِیْر استعمال ہوا ہے ، سخت گرمی ، محنت اور تکان کی حالت میں جب آدمی لمبا سانس لے کر اس کو ایک پھنکار کی شکل میں نکالتا ہے تو اسے عربی میں زفیر کہتے ہیں ۔