Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 بعض لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا تھا یا مشرکین کی طرف سے پیدا کیا جاسکتا تھا، جیسا کہ فی الواقع کیا جاتا ہے کہ عبادت تو حضرت عیسیٰ و عزیز علیہالسلام، فرشتوں اور بہت سے صالحین کی بھی کی جاتی ہے تو کیا یہ بھی اپنے عابدین کے ساتھ جہنم میں ڈالے جائیں گے ؟ اس آیت میں اس کا ازالہ کردیا گیا ہے کہ یہ لوگ تو اللہ کے نیک بندے تھے جن کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کے لئے نیکی یعنی سعادت ابدی یا بشارت جنت ٹھہرائی جا چکی ہے۔ یہ جہنم سے دور ہی رہیں گے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٩] جب یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرکین سب اپنے معبودوں سمیت جہنم کا ایندھن بنیں گے تو ہم مشرک کہنے لگے کہ ہم تو ان بتوں کے علاوہ فرشتوں کو بھی پوجتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو معبود بنا رکھا ہے تو کیا یہ فرشتے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیر (علیہ السلام) سب جہنم میں جائیں گے ؟ اس سوال کا جواب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیا کہ جو شخص بھی خود یہ چاہتا ہو کہ اس کی عبادت کی جائے وہ یقیناً جہنم میں جائے گا۔ اور اسی حوالہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نازل فرمایا اور ہر دو جواب کی رو سے فرشتے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت عزیر (علیہ السلام) اور ان کے علاوہ تمام ہستیاں بھی مستثنیٰ قرار دے دی گئیں۔ جو خود تو اللہ کے نیک بندے اور صرف اللہ ہی کے عبادت گزار تھے لیکن بعد میں لوگوں نے انھیں پوجنا شروع کردیا۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم جن پانچ بتوں، ود، سواع، یغوث، یغوی اور نسر کو پکارتے تھے وہ حقیقتاً اللہ کے عبادت گزار بندے تھے۔ اور اللہ دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا۔ بعد میں شیطان نے لوگوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر اپنے پاس رکھ لیا کرو۔ تاکہ تمہیں اللہ کی عبادت میں وہی مزا آئے جو ان بزرگوں کی موجودگی میں آتا تھا۔ چناچہ ابتداًء ان کے مجسمے اس غرض سے تراشے گئے تھے پھر بعد کے لوگوں نے انہی مجسموں کی عبادت شروع کردی۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور اس طرح شیطان اپنے شر میں کامیاب ہوگیا اور بنی نوع انسان میں شرک کا آغاز ہوا۔- پھر شرک صرف یہی نہیں ہوتا کہ انسان کسی کے سامنے سجدہ کرے یا ایسے آراء بجا لائے جو اللہ کے لئے مختص ہیں یا ان کے سامنے قربانی یا نذر و نیاز دے بلکہ کسی بھی چیز کو مشکل کشا اور حاحت روا سمجھ کر اسے پکارا جائے تو یہ بھی واضح شرک ہے۔ اور ایسے بزرگوں کی بھی اس دنیا میں کمی نہیں جو اس قسم کی تعظیم و تکریم کے متمنی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی فی الواقع جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اور جن لوگوں کو بعد میں معبود بنادیا گیا۔ حالانکہ وہ خود ان باتوں سے منع کرتے رہے۔ انھیں جہنم کی ہوا بھی نہ لگے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۔۔ :” الْحُسْنٰٓى“ ” اَلْأَحْسَنُ “ کی مؤنث ہے، معنی ہے سب سے اچھی چیز۔ مراد وہ سعادت اور خوش قسمتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کی تقدیر میں لکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی وجہ سے جہنم میں جانے والوں کے ذکر کے بعد اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والوں کا ذکر فرمایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سعادت اور نیک اعمال کی توفیق یا معافی مقدر کردی ہے اور وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ بعض مفسرین نے اس آیت سے مراد وہ صالحین، انبیاء اور فرشتے لیے ہیں جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے۔ ان کے مطابق یہ آیت مشرکین کے جواب میں اتری ہے جنھوں نے اعتراض کیا تھا کہ اگر اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کی گئی ہے وہ جہنم میں جائیں گے تو لوگوں نے عبادت فرشتوں اور پیغمبروں کی بھی کی ہے۔ جواب یہ دیا گیا کہ یہ لوگ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ اگرچہ اس آیت میں اس اعتراض کا جواب بھی موجود ہے، تاہم آیت کے الفاظ عام ہیں، اس لیے اس میں فرشتوں، پیغمبروں اور صالحین کے ساتھ تمام سعادت مند مومن بھی شامل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص اسلوب ہے کہ وہ جنت و جہنم اور نیک و بد دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ فرماتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے سعادت مند لوگوں کو عطا ہونے والی پانچ نعمتیں ذکر فرمائی ہیں، جن میں سے پہلی یہ ہے کہ وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ، یعنی جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے بھلائی اور اچھا نتیجہ مقدر ہوچکا ہے وہ اس جہنم سے بہت دور رہیں گے۔- اور اسی ابن الزبعری کے متعلق قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ ، یعنی جب ابن زبعری نے حضرت ابن مریم کی مثال پیش کی تو آپ کی قوم کے لوگ قریش خوشی سے شور مچانے لگے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى۝ ٠ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ۝ ١٠١ۙ- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠١۔ ١٠٢) اور جن حضرات کے لیے ہماری طرف سے جنت مقدور ہوچکی ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ و عزیر (علیہ السلام) وہ دوزخ سے نجات میں رہیں گے اور اس سے اس قدر دور رکھے جائیں گے کہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے اور وہ لوگ اپنی پسند کی چیزوں سمیت جنت میں ہمیشہ رہیں گے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :97 اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی اور سعادت کی راہ اختیار کی ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ وعدہ فرما چکا ہے کہ وہ اس کے عذاب سے محفوظ رہیں گے اور ان کو نجات دی جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani