Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں تمام کائنات یہ قیامت کے دن ہوگا جب ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے جیسے فرمایا آیت ( وما قدروا اللہ حق قدرہ الخ ) ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی تھی ، جانا ہی نہیں ۔ تمام زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ۔ وہ پاک اور برتر ہے ہر چیز سے جسے لوگ اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ساتوں آسمانوں کو اور وہاں کی کل مخلوق کو ، ساتوں زمینوں کو اور اس کی کل کائنات کو اللہ تعالیٰ اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا وہ اس کے ہاتھ میں ایسے ہوں گے جیسے رائی کا دانہ سجل سے مراد کتاب ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ مراد یہاں ایک فرشتہ ہے ۔ جب کسی کا استغفار چڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے اسے نور لکھ لو ۔ یہ فرشتہ نامہ اعمال پر مقرر ہے ۔ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کی کتاب کو اور کتابوں کے ساتھ لپیٹ کر اسے قیامت کے لئے رکھ دیتا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ نام ہے اس صحابی کا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی تھا ۔ لیکن یہ روایت ثابت نہیں اکثر حفاظ حدیث نے ان سب کو موضوع کہا ہے خصوصا ہمارے استاد حافظ کبیر ابو الحجاج مزی رحمتہ اللہ نے ۔ میں نے اس حدیث کو ایک الگ کتاب میں لکھا ہے امام جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث پر بہت ہی انکار کیا ہے اور اس کی خوب تردید کی اور فرمایا ہے کہ سجل نام کا کوئی صحابی ہے ہی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاتبوں کے نام مشہور ومعروف ہیں کسی کا نام سجل نہیں ۔ فی الواقع امام صاحب نے صحیح اور درست فرمایا یہ بڑی وجہ ہے اس حدیث کے منکر ہونے کی ۔ بلکہ یہ بھی یاد رہے کہ جس نے اس صحابی کا ذکر کیا ہے اس نے اسی حدیث پر اعتماد کرکے ذکر کیا ہے اور لغتا بھی یہی بات ہے پس فرمان ہے جس دن ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے اس طرح جیسے لکھی ہوئی کتاب لپیٹی جاتی ہے ۔ لام یہاں پر معنی میں علیٰ کے ہے جیسے تلہ للجبین میں لام معنی میں علیٰ ہے ۔ لغت میں اس کی اور نظیریں بھی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ یہ یقینا ہوکر رہے گا ۔ اس دن اللہ تعالیٰ نئے سرے سے مخلوق کو پہلے کی طرح پیدا کرے گا ۔ جو ابتدا پر قادر تھا وہ اعادہ پر بھی اس سے زیادہ قادر ہے ۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اس کے وعدے اٹل ہوتے ہیں ، وہ کبھی بدلتے نہیں ، نہ ان میں تضاد ہوتا ہے ۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے وہ اسے پورا کرکے ہی رہے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اپنے ایک وعظ میں فرمایا تم لوگ اللہ کے سامنے جمع ہونے والے ہو ۔ ننگے پیر ننگے بدن بےختنے جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا اسی طرح دوبارہ لوٹائینگے یہ ہمارا وعدہ ہے جسے ہم پورا کرکے رہیں گے ۔ الخ ( بخاری ) سب چیزیں نیست ونابود ہوجائیں گی پھر بنائی جائیں گی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 یعنی جس طرح کاتب لکھنے کے بعد اوراق یا رجسٹر لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ) 39 ۔ الزمر :87) آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہونگے سِجِل کے معنی صحیفے یا رجسٹر کے ہیں لِلْکُتُبِ کے معنی ہیں عَلَی الْکِتَابِ بِمَعْنَی الْمَکْتُوْبِ (تفسیر ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ کاتب کے لئے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ لینا جس طرح آسان ہے، اسی طرح اللہ کے لئے آسمان کی وسعتوں کو اپنے ہاتھ میں سمیٹ لینا کوئی مشکل امر نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٢] یعنی آسمانوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا : (وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 67؀) 39 ۔ الزمر :67) یعنی تمام آسمانوں کو لپیٹ کر اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ میں لے گا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کا آغاز کیا تھا۔ اسی طرح موجودہ زمین و آسمان کی ایک ایک جز کو ختم کرکے نئی زمین، نئے آسمان اور نئی کائنات کو وجود میں لایا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَـطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ : ” طَوٰی یَطْوِيْ طَیًّا “ لپیٹنا۔ ” السِّجِلِّ “ کا معنی ہے صحیفہ، کتاب بھی ہے اور کاتب بھی۔ (قاموس) یہاں کاتب معنی زیادہ موزوں ہے، کیونکہ کاتب کاغذات لکھنے کے بعد آخر میں لپیٹ کر اکٹھے کرلیتا ہے۔ (ابن عاشور) بعض لوگوں نے ایک فرشتے کا نام ” سجل “ بتایا ہے اور بعض نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک کاتب کا نام ” سجل “ بتایا ہے، مگر یہ دونوں درست نہیں، نہ کسی فرشتے کا نام ” سجل “ ثابت ہے اور نہ کسی صحابی کا۔ - ” یَوْمَ “ یعنی جن چیزوں کا ذکر اوپر گزرا یہ سب اس دن ہوں گی جس دن۔۔ (أَيْ تَکُوْنُ ھٰذِہِ الْأَشْیَاءَ یَوْمَ ) ۔ (بقاعی)- نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَـطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ : یعنی جس طرح کاتب اپنے اوراق لپیٹ لیتا ہے اسی طرح ہم آسمانوں کو لپیٹ دیں گے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ یہ بات کچھ تفصیل سے آئی ہے، چناچہ فرمایا : (وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ) [ الزمر : ٦٧ ] ” اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، حالانکہ ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ “ اور ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ یَقْبِضُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْأَرْضَ وَتَکُوْنُ السَّمَاوَاتُ بِیَمِیْنِہِ ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( لما خلقت بیدی ) : ٧٤١٢ ] ” بیشک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام زمینوں کو مٹھی میں لے لے گا اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ “ مزید تفصیل سورة زمر (٦٧) میں دیکھیے۔ سلف صالحین کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات جس طرح قرآن و حدیث میں آئی ہیں ان کا اسی طرح عقیدہ رکھنا چاہیے اور انھیں اسی طرح بیان کرنا چاہیے، نہ ان کا انکار کیا جائے اور نہ تاویل، نہ یہ کہا جائے کہ ان الفاظ کا معنی ہی ہمیں معلوم نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے مشابہ نہ سمجھا جائے۔- كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۔۔ : ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں نصیحت کی خاطر خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : ( یَا أَیُّھَا النَّاسُ إِنَّکُمْ تُحْشَرُوْنَ إِلَی اللّٰہِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمہا، باب فناء الدنیاء : ٥٨؍٢٨٦٠۔ بخاري : ٤٧٤٠ ] ” اے لوگو تم اللہ کی طرف اس حال میں اٹھائے جاؤ گے کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، ختنے کے بغیر ہو گے۔ “ پھر یہ آیت پڑھی : (كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ )

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَـطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ لفظ سجل کے معنے حضرت ابن عباس سے صحیفہ کے منقول ہیں علی بن طلحہ، عوفی، مجاہد، قتادہ وغیرہ نے بھی یہی معنے بیان کئے ہیں۔ ابن جریر ابن کثیر وغیرہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور کتب اس جگہ بمعنے المکتوب ہے معنی یہ ہیں کہ آسمان کو اس طرح لپیٹ دیا جائے گا جس طرح کوئی صحیفہ اپنے اندر لکھی ہوئی تحریر کے ساتھ لپیٹ دیا جاتا ہے (کذا قالہ ابن کثیر و ذکرہ فی الروح) سجل کے متعلق دوسری روایات کہ وہ کسی شخص یا فرشتہ کا نام ہے محدثین کے نزدیک ثابت نہیں (فصلہ ابن کثیر) آیت کے مفہوم کے متعلق صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز سب زمینوں اور آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں رکھیں گے ابن ابی حاتم نے اپنی سند سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کو ان کے اندر کی تمام مخلوقات کے ساتھ اور ساتوں زمینوں کو ان کی تمام مخلوقات کے ساتھ لپیٹ کر ایک جگہ کردیں گے اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک رائی کے دانے کی مثل ہوں گے (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ۝ ٠ۭ كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُہٗ۝ ٠ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا۝ ٠ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ۝ ١٠٤- طوی - طَوَيْتُ الشیءَ طَيّاً ، وذلک كَطَيِّ الدَّرَجِ وعلی ذلک قوله : يَوْمَ نَطْوِي السَّماءَ كَطَيِّ السِّجِلِ- [ الأنبیاء 104] ، ومنه : طَوَيْتُ الفلاةَ ، ويعبّر بِالطَّيِّ عن مُضِيِّ العمر . يقال : طَوَى اللهُ عُمرَهُ ، قال الشاعر :- طَوَتْكَ خطوبُ دهرک بعد نشر«1» وقوله تعالی: وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] ، يصحّ أن يكون من الأوّل، وأن يكون من الثاني، والمعنی: مهلكات . وقوله :إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً [ طه 12] ، قيل : هو اسم الوادي الذي حصل فيه «2» ، وقیل :- إن ذلک جعل إشارة إلى حالة حصلت له علی طریق الاجتباء، فكأنّه طَوَى عليه مسافةً لو احتاج أن ينالها في الاجتهاد لبعد عليه، وقوله : إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً- [ طه 12] ، قيل : هو اسم أرض، فمنهم من يصرفه، ومنهم من لا يصرفه، وقیل : هو مصدر طَوَيْتُ ، فيصرف ويفتح أوّله ويكسر «3» ، نحو : ثنی وثنی، ومعناه : نادیته مرّتين «4» ، والله أعلم .- ( ط و ی )- طویت الشئی طیا کے معنی ہی کسی چیز کو اس طرح لپیٹ لینا ۔ جیسا کہ کپڑے کو اس کی درز پر لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : يَوْمَ نَطْوِي السَّماءَ كَطَيِّ السِّجِلِ [ الأنبیاء 104] جس دن ہم آسمان کو اسی طرح لپیٹ لیں گے جسطرح لکھے ہوئے کاغذوں کا طو مار لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ اسی سے طویت الفلان ( جنگل کو قطع کرنا ) کا محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جنگل کی مسافت کو قطع کیا گویا راستوں کو لپیٹ لیا طوی اللہ عمرہ اللہ تعالیٰ نے اس کی عمر ختم کردی گویا اس کی مدت عمر کو لپیٹ دیا ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 295 ) طوتک خطوب دھرک بعد نشر حوادثات زمانہ نے پھیلا نے کے بعد تمہیں لپیٹ دیا ( یعنی تمہاری عمر ختم کردی اور بعض نے کہا ہے کہ آیت کریمہ : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوں گے ۔ میں مطویات کا لفظ یا تو طویت الشئی کے محاورہ سے ماخوذ ہوگا جس کے معنی لپیٹ دینا کے ہیں اور یا طوی اللہ عمر سے ماخوذ ہوگا اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز آسمان کو فنا کردیا جائے گا ۔ اور آیت ؛إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً [ طه 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ طوی اسی وادی المقدس کا نام ہے جہا حضرت موسٰی پہنچ چکے تھے ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ طوی اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جس سے انہیں اجتباء کے طور پر نوازا گیا تھا اگر وہ اس مرتبہ کو مساعی اور اجتہاد کی راہ سے حاصل کرنا چاہتے تو اس قدر طویل مسافت کو طے نہیں کرسکتے تھے وادی نبوت تک پہنچنے کی تما م مسافتیں ان کے لئے لپیٹ دی گئیں پھر اگر اسے اس وادی کا نام قرار دیا جائے تو اسے غیر منصرف بھی پڑھ سکتے ہیں اور منصرف بھی اور اگر اسے طویت کا مصدر ماناجائے تو منصرف ہی پڑھا جائیگا اور ثنی وثنی کی طرح فا کلمہ ( ط ) پر دونوں حرکتیں جائز ہوں گی اور اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے موسٰی (علیہ السلام) ہ کو دو مرتبہ پکارا ۔- سجل - والسِّجِّيلُ : حجر وطین مختلط، وأصله فيما قيل : فارسيّ معرّب، والسِّجِلُّ : قيل حجر کان يكتب فيه، ثم سمّي كلّ ما يكتب فيه سجلّا، قال تعالی: كطيّ السّجلّ للکتاب [ الأنبیاء 104] «6» ، أي : كطيّه لما کتب فيه حفظا له .- ( س ج ل ) السجل - ۔ السجیل سنگ گل کو کہتے ہیں اور اصل میں جیسا کہ کہا گیا ہے ۔ یہ لفظ فارسی سے معرب ہے بعض نے کہا ہے کہ السجل کے اصل معنی اس پتھر کے ہیں جس پر لکھا جاتا تھا بعد ہ ہر اس چیز کو جس پر لکھا جائے سجل کہنے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے : كطيّ السّجلّ للکتاب [ الأنبیاء 104] جیسے خطول کا مکتوب لپیٹ لیا جاتا ہے ۔ یعنی لکھی ہوئی چیزوں کی حفاظت کے لئے اسے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں ۔- بدأ - يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة 7] - ( ب د ء ) بدء ات - بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٤) اور قیامت کا دن بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ جس دن ہم آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ پر اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ لپیٹ لیا جاتا ہے اور جس طرح پہلی بار ان کو ہم نے نطفہ سے پیدا کیا تھا، اسی طرح پھر دوبارہ قبروں سے پیدا کردیں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے ہم ضرور مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ کریں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ط) ” - یہاں پر ” السَّمَوٰت “ (جمع ) کے بجائے صرف السَّمَآء (واحد) استعمال ہوا ہے ‘ جس سے اس رائے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے کہ یہ صرف آسمان دنیا کے لپیٹے جانے کی خبر ہے اور یہ کہ قیامت کے زلزلے کا عظیم واقعہ : (اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ ) ( الح ج) صرف ہمارے نظام شمسی کے اندر ہی وقوع پذیر ہوگا۔ اسی نظام کے اندر موجودُ کرّے آپس میں ٹکرائیں گے : (وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ) (القیامہ) اور یوں یہ پورا نظام تہہ وبالا ہوجائے گا۔ فرمایا کہ اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے کتابوں کے طومار ( ) لپیٹے جاتے ہیں۔ - (کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ ط) ” - اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ اس نظریہ ( ) کے مطابق یہ کائنات مسلسل وسیع سے وسیع تر ہو رہی ہے۔ اس میں موجود ہر کہکشاں مسلسل چکر لگا رہی ہے اور یوں ہر کہکشاں کا دائرہ ہر لحظہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے آیت زیر نظر کے الفاظ سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ قیامت برپا کرنے کے لیے کائنات کے پھیلنے کے اس عمل کو الٹا دیا جائے گا ‘ اور اس طرح یہ پھر سے اسی حالت میں آجائے گی جہاں سے اس کے پھیلنے کے عمل کا آغاز ہوا تھا۔ اس تصور کو سمجھنے کے لیے گھڑی کے ” فَنّر “ کی مثال سامنے رکھی جاسکتی ہے ‘ جس کا دائرہ اپنے نقطۂ ارتکاز کے گرد مسلسل پھیلتا رہتا ہے ‘ لیکن جب اس میں چابی بھری جاتی ہے تو یہ پھر سے اسی نقطۂ ارتکاز کے گرد لپٹ کر اپنی پہلی حالت پر واپس آجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani