103۔ 1 بڑی گھبراہٹ سے موت یا صور اسرافیل مراد ہے یا وہ لمحہ جب دوزخ اور جنت کے درمیان موت کو ذبح کردیا جائے گا۔ دوسری بات یعنی صور اسرافیل اور قیام قیامت سیاق کے زیادہ قریب ہے۔
[٩١] قیامت کے دن گھبراہٹوں سے وہ قطعاً پریشان حال نہ ہوں گے بلکہ انھیں مکمل اطمینان میسر ہوگا۔ اس لئے یہ سب کچھ ان کے عقائد اور ان کی توقعات کے مطابق ہو رہا ہوگا۔ فرشتے آکر انھیں سلام کریں گے اور جنت میں داخل کرنے کے لئے خود ان کے استقبال کو آئیں گے اور کہیں گے کہ جس دائمی راحت و مسرت کا دنیا میں تم سے وعدہ کیا جاتا رہا۔ آج اس کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔
لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ : یہ چوتھی نعمت ہے کہ پہلے کوئی گھبراہٹ ہو تو ہو، آگ سے نجات اور جنت میں داخلے کے بعد وہ ہر گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے، حتیٰ کہ سب سے بڑی گھبراہٹ بھی انھیں غمگین نہیں کرے گی، پھر چھوٹی موٹی گھبراہٹوں کی کیا مجال ہے کہ انھیں غم زدہ کرسکیں ؟- الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ : ابن عطیہ (رض) نے فرمایا : ” یہ نعمت جنت میں داخلے کے بعد حاصل ہوگی۔ “ کیونکہ صحیح احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت کے ساتھ بہت سے اہل ایمان کا جہنم سے نکلنا اور جنت میں جانا ثابت ہے، اس لیے ” الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ “ سے مراد وہ وقت معلوم ہوتا ہے جس کا ذکر ابوسعید خدری (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُوْتٰی بالْمَوْتِ کَھَیْءَۃِ کَبْشٍِ أَمْلَحَ فَیُنَادِيْ مُنَادٍ یَا أَھْلَ الْجَنَّۃِ فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ فَیَقُوْلُ ھَلْ تَعْرِفُوْنَ ھٰذَا ؟ فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ، ھٰذَا الْمَوْتُ ، وَکُلُّھُمْ قَدْ رَآہُ ، ثُمَّ یُنَادِيْ یَا أَھْلَ النَّارِ ، فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ فَیَقُوْلُ ھَلْ تَعْرِفُوْنَ ھٰذَا ؟ فَیَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ ، ھٰذَا الْمَوْتُ ، وَکُلُّھُمْ قَدْ رَآہٗ ، فَیُذْبَحُ ، ثُمَّ یَقُوْلُ : یَا أَھْلَ الْجَنَّۃِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ ، وَ یَا أَھْلَ النَّارِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ ، ثُمَّ قَرَأَ (وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ ۘ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ ) وَھٰؤُلَاءِ فيْ غَفْلَۃٍ أَھْلُ الدُّنْیَا، (وَّهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ عز و جل : ( وأنذرھم یوم الحسرۃ ) : ٤٧٣٠ ] ” موت کو ایک سیاہ و سفید مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا : ” اے جنت والو “ وہ گردن اٹھائیں گے اور دیکھیں گے تو وہ کہے گا : ” کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے : ” ہاں یہ موت ہے “ اور ان سب نے اسے دیکھا ہوگا، پھر وہ آواز دے گا : ” اے آگ والو “ تو وہ گردن اٹھائیں گے اور دیکھیں گے تو وہ کہے گا : ” کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے : ” ہاں یہ موت ہے “ اور ان سب نے اسے دیکھا ہوگا، پھر اسے ذبح کردیا جائے گا، پھر وہ کہے گا : ” اے جنت والو (اب) ہمیشگی ہے اور موت نہیں ہے اور اے آگ والو (اب) ہمیشگی ہے اور موت نہیں ہے۔ “ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : (وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ ۘ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ ) [ مریم : ٣٩ ] ( اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب (ہر) کام کا فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں ) یعنی وہ سراسر دنیا کی غفلت میں ہیں : (وَّهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ )” اور وہ ایمان نہیں لاتے۔ “ ابن کثیر نے ” عبد الرزاق عن یحییٰ بن ربیعہ عن عطاء “ یہ قول ذکر فرمایا ہے : ” گویا ” يَوْمَ الْحَسْرَةِ “ اور ” الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ “ ایک ہی چیز ہے۔ “ اکثر حضرات نے اس سے مراد صور میں آخری پھونک کا وقت مراد لیا ہے۔ بعض نے میدان حشر میں پیش آنے والے ہولناک واقعات مراد لیے ہیں، مگر جو غم یا گھبراہٹ ختم ہوجائے اسے ” الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ “ نہیں کہا جاسکتا۔ ابن کثیر میں ہے کہ سعید بن جبیر نے فرمایا : ( حِیْنَ تُطْبَقُ النَّارُ عَلٰی أَھْلِھَا ) ” اس سے مراد وہ وقت ہے جب جہنم والوں کے اوپر جہنم کو بند کردیا جائے گا۔ “ دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا : ” اسے طبری نے حسن سند سے ذکر کیا ہے۔ “ یہ قول اور موت کو ذبح کرنے کا قول ایک ہی ہے، کیونکہ جہنم کو اسی وقت اوپر سے بند کیا جائے گا جب اس میں وہی لوگ رہ جائیں گے جنھیں ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جنت میں جانے کے بعد جنتی ہر قسم کی گھبراہٹ اور خوف سے محفوظ رہیں گے، حتیٰ کہ سب سے بڑی گھبراہٹ بھی انھیں غم زدہ نہیں کرے گی، بلکہ وہ صرف اور صرف جہنمیوں کے لیے مخصوص ہوگی۔ - وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۔۔ : یہ استقبال جنت میں داخلے کے وقت ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِيْنَ ) [ الزمر : ٧٣ ] ” اور وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈر گئے، گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے، اس حال میں کہ اس کے دروازے کھول دیے گئے ہوں گے اور اس کے نگران ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم پاکیزہ رہے، پس اس میں داخل ہوجاؤ، ہمیشہ رہنے والے۔ “ اس سے پہلے موت کے وقت بھی فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور بشارتیں دیں گے، فرمایا : (اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ 30 نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ 31ۭ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ ) [ حٰآ السجدۃ : ٣٠ تا ٣٢ ] ” بیشک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔ ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور تمہارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمہارے دل چاہیں گے اور تمہارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ یہ بیحد بخشنے والے، نہایت مہربان کی طرف سے مہمانی ہے۔ “ اور فرمایا : (الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) [ النحل : ٣٢ ] ” جنھیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ پاک ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں سلام ہو تم پر، جنت میں داخل ہوجاؤ، اس کے بدلے جو تم کیا کرتے تھے۔ “
لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ ، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ فزع اکبر سے مراد صور کا نفخہ ثانیہ ہے جس سے سب مردے زندہ ہو کر حساب کے لئے کھڑے ہوں گے بعض حضرات نے نفخہ اولے ٰ کو فزع اکبر قرار دیا ہے۔ ابن عربی کا قول یہ ہے کہ نفخات تین ہوں گے پہلا نفخہ فزع ہوگا جس سے ساری دنیا کے لوگ گھبرا اٹھیں گے اسی کو یہاں فزع اکبر کہا گیا ہے۔ دوسرا نفخہ نفخہ صعق ہوگا جس سے سب مر جائیں گے اور فنا ہوجائیں گے، تیسرا نفخہ نفخہ بعث ہوگا جس سے سب مردے زندہ ہوجائیں گے اس کی شہادت میں مسند ابو یعلی اور بیہقی، عبد بن حمید، ابو الشیخ، ابن جریر طبری وغیرہ سے حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث نقل کی گئی ہے (مظھری) واللہ اعلم
لَا يَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىہُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ ٠ۭ ھٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ١٠٣- حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - فزع - الفَزَعُ : انقباض ونفار يعتري الإنسان من الشیء المخیف، وهو من جنس الجزع، ولا يقال : فَزِعْتُ من الله، كما يقال : خفت منه .- وقوله تعالی: لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ [ الأنبیاء 103] ، فهو الفزع من دخول النار .- فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ النمل 87] ، وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ [ النمل 89] ، وقوله تعالی: حَتَّى إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ [ سبأ 23] ، أي : أزيل عنها الفزع، ويقال : فَزِعَ إليه : إذا استغاث به عند الفزع، وفَزِعَ له : أغاثه . وقول الشاعر : كنّا إذا ما أتانا صارخ فَزِعٌ أي : صارخ أصابه فزع، ومن فسّره بأنّ معناه المستغیث، فإنّ ذلک تفسیر للمقصود من الکلام لا للفظ الفزع .- ( ف ز ع ) الفزع انقباض اور وحشت کی اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی خوفناک امر کی وجہ سے انسان پر طاری ہوجاتی ہے یہ جزع کی ایک قسم ہے اور خفت من اللہ کا محاورہ تو استعمال ہوتا ہے لیکن فزعت منہ کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت کریمہ : ۔ لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ [ الأنبیاء 103] ان کو ( اس دن کا ) بڑا بھاری غم غمگین نہیں کرے گا ۔ میں فزع اکبر سے دوزخ میں داخل ہونیکا خوف مراد ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ النمل 87] تو جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سبب گھبرا اٹھیں گے ۔ وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ [ النمل 89] اور ایسے لوگ ( اس روز ) گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے ۔ حَتَّى إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ [ سبأ 23] یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا ۔ یعنی ان کے دلوں سے گبراہٹ دوری کردی جائے گی فزع الیہ کے معنی گھبراہٹ کے وقت کسی سے فریاد کرنے اور مدد مانگنے کے ہیں اور فزع لہ کے معنی مدد کرنے کے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 339 ) ولنا اذا مااتانا صارع خ فزع یعنی جب کوئی فریاد چاہنے والا گھبرا کر ہمارے پاس آتا ۔ بعض نے فزع کے معنی مستغیت کئے ہیں تو یہ لفظ فزع کے اصل معنی نہیں ہیں بلکہ معنی مقصود کی تشریح ہے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔
(١٠٣) اور جب دوزخ بھری جائے گی اور موت کو مینڈھے کی شکل میں جنت اور دوزخ کے درمیان ذبح کیا جائے گا یہ بھی ان کو غم میں نہ ڈالے گی اور جنت کے دروازے پر ان حضرات کا فرشتے بشارت و خوشخبری دینے کے ساتھ استقبال کریں گے اور کہیں گے یہ ہے وہ تمہارا دن جس کا دنیا میں تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔- ( آیت) ”۔ انکم وما تعبدون “۔ سے لے کر یہاں تک یہ آیت عبداللہ بن زبعری کے بارے میں نازل ہوئی اس نے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بتوں کے بارے میں جھگڑا کیا تھا۔
آیت ١٠٣ (لَا یَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ ) ” - قیامت کی صورت حال بہت ہی بھیا نک ہوگی۔ اگلی سورت ( سورة الح ج) کے آغاز میں قیامت کی ہولناک کیفیت کا ذکر یوں کیا گیا ہے : (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْج اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ ) ” اے لوگو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ قیامت کا زلزلہ یقیناً بہت بڑی چیز ہے “۔ لیکن آیت زیر نظر میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کو اس سے کوئی تکلیف اور پریشانی نہیں ہوگی۔ - ” فزع اکبر “ سے مراد یہاں صرف قیامت کے دن کی سختیاں ہی نہیں بلکہ زمانۂ قرب قیامت کی سختیاں بھی ہیں۔ اس صورت حال کا ذکر احادیث میں کافی تفصیل سے ملتا ہے۔ اِن تفصیلات کے مطابق قرب قیامت کے زمانہ میں مسلمانوں کو عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف ایک بہت خوفناک جنگ لڑنا ہوگی۔ اس جنگ کے کئی مراحل ہوں گے۔ مسلمانوں کو اس میں بہت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ‘ لیکن اللہ کی خصوصی مدد مسلمانوں کے شامل حال ہوگی۔ اللہ کی یہ مدد ظاہری اور مادی اسباب کی صورت میں بھی سامنے آئے گی۔ انہی اسباب میں سے ایک سبب سرزمین عرب میں ایک مجددامام مہدی کا ظہور بھی ہوگا۔ پھر جب حضرت مسیح (علیہ السلام) کا نزول ہوگا تو مسلمان حضرت مسیح ( علیہ السلام) اور امام مہدی کی قیادت میں عیسائیوں اور یہودیوں کے اتحاد کا مقابلہ کریں گے۔ اس سے پہلے خراسان اور افغانستان کے علاقوں میں (میرے اندازے کے مطابق اس میں پاکستان کا علاقہ بھی شامل ہوگا) اسلامی حکومت قائم ہوچکی ہوگی اور اس حکومت کی طرف سے مذکورہ جنگ میں مسلمانوں کی مدد کے لیے افواج بھیجی جائیں گی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی کامیابی کے بعد آزمائش کا آخری مرحلہ یا جوج اور ماجوج کی یلغار کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اس کے بعد اسلام کا غلبہ ہوگا اور پوری دنیا میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوجائے گی ‘ جو لگ بھگ چالیس سال (مختلف روایات میں مختلف مدت مذکور ہے) تک رہے گی۔ یہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا پانچواں دور ہوگا ‘ جس کی خبر احادیث میں دی گئی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر (رض) حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- (تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاء اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا ، ثُمَّ تَکُوْنُ خلاَفَۃً عَلٰی مِنْھَاج النُّبُوَّۃِ ، فَتَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَّرْفَعَھَا ، ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا ‘ فَیَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَکُوْنَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا ، ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً ‘ فَتَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا ، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْہَاج النُّبُوَّۃِ ) ثُمَّ سَکَتَ (١)- ” دَور نبوت تم میں اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا ‘ پھر جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا اس کو ختم کر دے گا۔ پھر نبوت کی طرز پر خلافت کا دور ہوگا ‘ پھر وہ دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ‘ پھر وہ اس کو ختم کر دے گا جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا۔ پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی۔ وہ دور بھی اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا ‘ پھر جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا تو ختم کر دے گا۔ پھر جبر کی فرماں روائی ہوگی ‘ وہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا ‘ پھر وہ اس کو ختم کر دے گا جب وہ اسے ختم کرنا چاہے گا۔ پھر نبوت کے طرز پر دوبارہ خلافت قائم ہوگی “۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے۔- اس حدیث کی رو سے پہلا دور دور نبوت ‘ دوسرا دور دور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ‘ تیسرا دور ظالم ملوکیت کا دور ‘ چوتھا غلامی والی ملوکیت کا دور ‘ جبکہ پانچواں اور آخری دور پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا ہے۔ اس خلافت کی خبر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں بھی دی ہے جو حضرت ثوبان (رض) سے مروی ہے۔ فرمایا :- (اِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا ‘ وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھَا ) (١)- ” اللہ تعالیٰ نے مجھے پوری زمین کو لپیٹ کر (یا سکیڑکر) دکھا دیا۔ چناچہ میں نے اس کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے اور تمام مغرب بھی۔ اور یقین رکھو کہ میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو مجھے لپیٹ کر (یا سکیڑ کر) دکھائے گئے۔ “- اسی طرح حضرت مقداد بن الاسود (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : - (لاَ یَبْقٰی عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ الاَّ اَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الْاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ اَوْذُلِّ ذَلِیْلٍ ۔۔ اِمَّا یُعِزُّھُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَیَجْعَلُھُمْ مِنْ اَھْلِھَا اَوْ یُذِلُّھُمْ فَیَدِیْنُوْنَ لَھَا) ۔۔ قُلْتُ : ” فَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ “ (٢)- ” روئے ارضی پر نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی رہے گا نہ کمبلوں کا بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ اسلام کو داخل نہیں کر دے گا ‘ خواہ کسی عزت والے کے اعزاز کے ساتھ خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کی صورت میں ۔۔ (یعنی) یا لوگ اسلام قبول کر کے خودبھی عزت کے مستحق بن جائیں گے یا اسلام کی بالادستی تسلیم کر کے اس کی فرماں برداری قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ “ میں (راوی) نے کہا : تب تو سارے کا سارا دین اللہ کے لیے ہوجائے گا۔ “- بہر حال قرآن میں موجود ” بین السطور “ اشاروں اور احادیث میں وارد صریح پیشین گوئیوں کے مطابق قیامت سے پہلے ان واقعات کا رونما ہونا طے ہے ‘ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ البتہ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ واقعات کے اس سلسلے کا آغاز کب ہوگا۔ - اس کے بعد قیامت کا مرحلہ ہوگا ‘ لیکن قیام قیامت سے قبل ایک خوشگوار ہوا چلے گی جس سے تمام اہل ایمان پر موت طاری ہوجائے گی۔ اس مرحلے کے بعد صرف فساقّ و فجار ہی دنیا میں باقی رہ جائیں گے اور انہی لوگوں پر قیامت قائم ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ الاَّ عَلٰی شِرَار النَّاسِ ) (٣)- ” قیامت صرف شریر لوگوں پر ہی آئے گی۔ “- ” الفزع الاکبر “ اور ” زلزلۃ الساعۃ “ کی سختیوں کا سامنا بھی انہی لوگوں کو کرنا ہوگا ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو قیامت سے پہلے سکون و اطمینان کی موت دے کر اس دن کی سختیوں اور ہولناکیوں سے بچالے گا۔- (وَتَتَلَقّٰٹہُمُ الْمَلآءِکَۃُط ہٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ) ” - آج آپ لوگوں کو انعامات سے نوازا جائے گا ‘ آپ کی قدر افزائی ہوگی ‘ خلعتیں پہنائی جائیں گی اور اعلیٰ درجے کی مہمان نوازی ہوگی۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :98 یعنی روز محشر اور خدا کے حضور پیشی کا وقت ، جو عام لوگوں کے لیے انتہائی گھبراہٹ اور پریشانی کا وقت ہو گا ، اس وقت نیک لوگوں پر ایک اطمینان کی کیفیت طاری رہے گی ۔ اس لیے کہ سب کچھ ان کی توقعات کے مطابق ہو رہا ہو گا ۔ ایمان و عمل صالح کی جو پونجی لیے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہوئے تھے وہ اس وقت خدا کے فضل سے ان کی ڈھارس بندھائے گی اور خوف و حزن کے بجائے ان کے دلوں میں یہ امید پیدا کرے گی کہ عنقریب وہ اپنی سعی کے نتائج خیر سے ہم کنار ہونے والے ہیں ۔