Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

106۔ 1 فی ‌ھذا سے مراد وہ وعظ و تنبیہ ہے جو اس سورت میں مختلف انداز سے بیان کی گئی ہے بلاغ سے مراد کفایت ومنفعت ہے یعنی وہ کافی اور مفید ہے یا اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں مسلمانوں کے لئے بڑا فائدہ اور کفالت ہے عابدین سے، خشوع خضوع سے اللہ کی عبادت کرنے والے، اور شیطان اور خواہشات نفس پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دینے والے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٤] یعنی عبادت گزاروں کے لئے ان آیات میں ایک بڑی خوشخبری ہے کہ اگر وہ ان آیات پر عمل پیرا ہوں گے تو یقیناً وہی منزل مقصود کو پالیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

؁ اِنَّ فِيْ ھٰذَا لَبَلٰغًا ۔۔ : یعنی اس قرآن میں یا اس سورت میں توحید، آخرت، انبیاء کے واقعات اور جو دوسرے مضامین بیان ہوئے ہیں ان میں ان لوگوں کے لیے بہت بڑا پیغام ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے والے ہیں۔ جو لوگ اللہ کی عبادت پر آمادہ ہی نہیں، بلکہ شیطان اور نفس کی پیروی پر ڈٹے ہوئے ہیں انھیں اس قرآن سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آنکھوں میں روشنی ہو تو سورج یا چراغ کی روشنی کا فائدہ ہوتا ہے، اندھے کو چراغ سے کچھ دکھائی نہ دے تو اس میں چراغ کا کوئی قصور نہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٢) میں ” ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ “ کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بلاشبہ اس (قرآن یا اس کے جز، یعنی سورت مذکورہ) میں کافی مضمون ہے ان لوگوں کے لئے جو عبادت کرنے والے ہیں (اور جو عبادت اور اطاعت سے سرکشی کرنے والے ہیں یہ ہدایت تو ان کے لئے بھی ہے مگر ان میں ہدایت کی طلب نہیں، اس لئے اس کے فائدے سے محروم ہیں) اور ہم نے آپ کو کسی اور بات کے واسطے (رسول بنا کر) نہیں بھیجا مگر دنیا جہان کے لوگوں پر (اپنی) مہربانی کرنے کے لئے (وہ مہربانی یہی ہے کہ لوگ رسول سے ان مضامین کو قبول کریں اور ہدایت کے ثمرات حاصل کریں اور جو قبول نہ کرے وہ اس کا قصور ہے اس سے اس مضمون کی صحت میں کوئی فرق نہیں پڑتا) آپ ان لوگوں سے (بطور خلاصہ کلام کے مکرر) فرما دیجئے کہ میرے پاس تو (موحدین اور مشرکین کے باہمی اختلاف کے بارے میں) صرف یہ وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو (اس کی حقانیت ثابت ہوجانے کے بعد) اب بھی تم مانتے ہو (یا نہیں یعنی اب تو مان لو) پھر بھی اگر یہ لوگ (اس کے قبول کرنے سے) سرتابی کریں تو آپ (بطور اتمام حجت کے) فرما دیجئے کہ میں تم کو نہایت واضح اطلاع کرچکا ہوں (جس میں ذرہ برابر خفاء پوشیدگی نہیں رہی توحید اور حقانیت اسلام کی اطلاع بھی اور اس کے انکار پر جو سزا ملے گی وہ بھی صاف صاف بیان ہوچکی ہے اب نہ مجھ پر تبلیغ حق کی کوئی ذمہ داری باقی رہی نہ تمہارا کوئی عذر باقی رہا) اور اگر (اس کے حق ہونے میں تم کو اس وجہ سے شبہ ہو کہ جو سزا بتلائی گئی ہے وہ مل کیوں نہیں جاتی تو سمجھ لو کہ سزا کا ملنا تو یقینی ہے مگر) میں یہ نہیں جانتا کہ جس (سزا) کا تم سے وعدہ ہوا ہے آیا وہ قریب (واقع ہونے والی ہے) یا دور دراز (زمانے میں واقع ہونے والی) ہے (البتہ اس کا واقع ہونا ضروری ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ کو (تمہاری) پکار کر کہی ہوئی بات کی بھی خبر ہے اور جو تم دل میں رکھتے ہو اس کی بھی خبر ہے اور (تاخیر عذاب سے اس کے واقع نہ ہونے کے دھوکے میں نہ رہنا یہ تاخیر کسی مصلحت و حکمت سے ہو رہی ہے) میں نہیں جانتا (کہ وہ مصلحت کیا ہے ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ) شاید (یہ تاخیر عذاب) تمہارے لئے امتحان ہو (کہ شاید متنبہ ہو کر ایمان لے آویں) اور ایک وقت (محدود یعنی موت کے وقت) فائدہ پہنچانا ہو (کہ خوب غفلت بڑھے اور عذاب بڑھتا چلا جائے۔ پہلا معاملہ یعنی امتحان رحمت ہے اور دوسرا معاملہ یعنی عمر دراز اور اس کی سہولتیں دینا یہ عقوبت و سزا ہے، اور جب ان سب مضامین سے ہدایت نہ ہوئی تو) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (باذن الٰہی) کہا کہ اے میرے رب (ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان) فیصلہ کر دیجئے (جو کہ ہمیشہ) حق کے موافق (ہوا کرتا ہے مطلب یہ ہے کہ عملی فیصلہ فرما دیجئے کہ مسلمانوں سے جو فتح و نصرت کے وعدے ہیں وہ واقع کر دیجئے تاکہ ان پر اور زیادہ حجت تمام ہوجائے) اور (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار سے یہ بھی فرمایا کہ) ہمارا رب بڑا مہربان ہے جس سے ان باتوں کے مقابلے میں مدد چاہی جائے جو تم بنایا کرتے ہو (کہ مسلمان جلد نیست و نابود ہوجاویں گے یعنی ہم اسی مہربان رب سے تمہارے مقابلہ میں مدد چاہتے ہیں) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٦) بیشک اس قرآن حکیم میں مؤحدین کے لیے کافی مضمون ہے یا یہ کہ اوامرو نواہی کے ذریعے سے نصیحت ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :99 اس آیت کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس سے ایک ایسا مطلب نکال لیا ہے جو پورے قرآن کی تردید اور پورے نظام دین کی بیخ کنی کر دیتا ہے ۔ وہ آیت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ زندگی میں زمین کی وراثت ( یعنی حکومت و فرمانروائی اور زمین کے وسائل پر تصرف ) صرف صالحین کو ملا کرتی ہے اور ان ہی کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نوازتا ہے ۔ پھر اس قاعدہ کلیہ سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صالح اور غیر صالح کے فرق و امتیاز کا معیار یہی وراثت زمین ہے ، جس کو یہ وراثت ملے وہ صالح ہے اور جس کو نہ ملے وہ غیر صالح ۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھ کر ان قوموں پر نگاہ ڈالتے ہیں جو دنیا میں پہلے وارث زمین رہی ہیں اور آج اس وراثت کی مالک بنی ہوئی ہیں ۔ یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کافر ، مشرک ، دہریے ، فاسق ، فاجر ، سب یہ وراثت پہلے بھی پاتے رہے ہیں اور آج بھی پا رہے ہیں ۔ جن قوموں میں وہ تمام اوصاف پائے گئے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں جنہیں قرآن صاف الفاظ میں کفر ، فسق ، فجور ، معصیت اور بدی سے تعبیر کرتا ہے ، وہ اس وراثت سے محروم نہیں ہوئیں بلکہ نوازی گئیں اور آج بھی نوازی جا رہی ہیں ۔ فرعون و نمرود سے لے کر اس زمانے کے کمیونسٹ فرمانرواؤں تک کتنے ہی ہیں جو کھلم کھلا خدا کے منکر ، مخالف ، بلکہ مدمقابل بنے ہیں اور پھر بھی وارث زمین ہوئے ہیں ۔ اس منظر کو دیکھ کر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ قرآن کا بیان کردہ قاعدہ کلیہ تو غلط نہیں ہو سکتا ، اب لامحالہ غلطی جو کچھ ہے وہ صالح کے اس مفہوم میں ہے جو اب تک مسلمان سمجھتے رہے ہیں ۔ چنانچہ وہ صلاح کا ایک نیا تصور تلاش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کے وارث ہونے والے سب لوگ یکساں صالح قرار پا سکیں ، قطع نظر اس سے کہ وہ ابوبکر صدیق اور عمر فاروق ہوں یا چنگیز اور ہلاکو ۔ اس نئے تصور کی تلاش میں ڈارون کا نظریہ ارتقاء ان کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ قرآن کے تصور صلاح کو ڈار دینی تصور صلاحیت ( سے لے جا کر ملا دیتے ہیں ۔ اس نئی تفسیر کی رو سے آیت زیر بحث کے معنی یہ قرار پاتے ہیں کہ جو شخص اور گروہ بھی ممالک کو فتح کرنے اور ان پر زور و قوت کے ساتھ اپنی حکومت چلانے اور زمین کے وسائل کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کی قابلیت رکھتا ہو وہی خدا کا صالح بندہ ہے اور اس کا یہ فعل تمام عابد انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ عبادت اس چیز کا نام ہے جو یہ شخص اور گروہ کر رہا ہے ، اگر یہ عبادت تم نہیں کرتے اور نتیجہ میں وراثت زمین سے محروم رہ جاتے ہو تو نہ تمہارا شمار صالحین میں ہو سکتا ہے اور نہ تم کو خدا کا عبادت گزار بندہ کہا جا سکتا ہے ۔ یہ معنی اختیار کرنے کے بعد ان حضرات کے سامنے یہ سوال آیا کہ اگر صلاح اور عبادت کا تصور یہ ہے تو پھر وہ ایمان ( ایمان باللہ ، ایمان بالیوم الآخر ، ایمان بالرُّسل اور ایمان بالکُتُب ) کیا ہے جس کے بغیر ، خود اسی قرآن کی رو سے ۔ خدا کے ہاں کوئی عمل صالح مقبول نہیں ؟ اور پھر قرآن کی اس دعوت کے کیا معنی ہیں کہ اس نظام اخلاق اور قانون زندگی کی پیروی کرو جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ بھیجا ہے ؟ اور پھر قرآن کا بار بار یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ جو رسول کو نہ مانے اور خدا کے نازل کردہ احکام کا اتباع نہ کرے وہ کافر ، فاسق ، عذاب کا مستحق اور مغضوب بار گاہ خداوندی ہے ؟ یہ سوالات ایسے تھے کہ اگر یہ لوگ ان پر ایمانداری کے ساتھ غور کرتے تو محسوس کر لیتے کہ ان سے اس آیت کا مطلب سمجھنے اور صلاح کا ایک نیا تصور قائم کرنے میں غلطی ہوئی ہے ۔ لیکن انہوں نے اپنی غلطی محسوس کرنے کے بجائے پوری جسارت کے ساتھ ایمان ، اسلام ، توحید ، آخرت ، رسالت ، ہر چیز کے معنی بدل ڈالے تاکہ وہ سب ان کی اس ایک آیت کی تفسیر کے مطابق ہو جائیں ، اور اس ایک چیز کو ٹھیک بٹھانے کی خاطر انہوں نے قرآن کی ساری تعلیمات کو الٹ پلٹ کر ڈالا ۔ اس پر لطیفہ یہ ہے کہ جو لوگ ان کی اس مرمت دین سے اختلاف کرتے ہیں ان کو یہ الٹا الزام دیتے ہیں کہ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ۔ یہ دراصل مادی ترقی کی خواہش کا ہیضہ ہے جو بعض لوگوں کو اس بری طرح لاحق ہو گیا ہے کہ وہ قرآن کی معنوی تحریف کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے ۔ ان کی اس تفسیر میں پہلی بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جو قرآن کی مجموعی تعلیمات کے خلاف پڑتی ہے ، حالانکہ اصولاً قرآن کی ہر آیت کی وہی تفسیر صحیح ہو سکتی ہے جو اس کے دوسرے بیانات اور اس کے مجموعی نظام فکر سے مطابقت رکھتی ہو ۔ کوئی شخص جس نے کبھی قرآن کو ایک دفعہ بھی سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کی ہے ، اس بات سے نا واقف نہیں رہ سکتا کہ قرآن جس چیز کو نیکی اور تقویٰ اور بھلائی کہتا ہے وہ مادی ترقی اور حکمرانی کی صلاحیت کی ہم معنی نہیں ہے ، اور صالح کو اگر صاحب صلاحیت کے معنی میں لے لیا جائے تو یہ ایک آیت پورے قرآن سے ٹکرا جاتی ہے ۔ دوسرا سبب ، جو اس غلطی کا موجب ہوا ہے ، یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کر کے بے تکلف جو معنی چاہتے ہیں اس کے الفاظ سے نکال لیتے ہیں ، حالانکہ ہر آیت کے صحیح معنی صرف وہی ہو سکتے ہیں جو سیاق و سباق سے مناسبت رکھتے ہوں ۔ اگر یہ غلطی نہ کی جاتی تو آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا کہ اوپر سے جو مضمون مسلسل چلا آ رہا ہے وہ عالم آخرت میں مومنین صالحین اور کفار و مشرکین کے انجام سے بحث کرتا ہے ۔ اس مضمون میں یکایک اس مضمون کے بیان کرنے کا آخر کونسا موقع تھا کہ دنیا میں وراثت زمین کا انتظام کس قاعدے پر ہو رہا ہے ۔ تفسیر کے صحیح اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب صاف ہے کہ دوسری تخلیق میں ، جس کا ذکر اس سے پہلے کی آیت میں ہوا ہے ، زمین کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے اور اس ابدی زندگی کے نظام میں موجودہ عارضی نظام زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہو جاتا ہے ۔ یہ مضمون سورہ مومنون آیات 10 ۔ 11 میں ارشاد ہوا ہے اور اس سے زیادہ صریح الفاظ میں سورہ زُمَر کے خاتمہ پر بیان کیا گیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ قیامت اور نفخ صور اول و ثانی کا ذکر کرنے کے بعد اپنی عدالت کا ذکر فرماتا ہے ، پھر کفر کا انجام بیان کر کے نیک لوگوں کا انجام یہ بتاتا ہے کہ : وَسِیقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَراً ؕ حَتّٰی اِذَا جَآءُوْھَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَقَالَ لَھُمْ خَذَنَتُھَا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ ۔ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہ وَاَوْرَثْنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ اور جن لوگوں نے اپنے رب کے خوف سے تقویٰ اختیار کیا تھا وہ جنت کی طرف گروہ در گروہ لے جائے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اس کے منتظم ان سے کہیں گے کہ سلام ہو تم کو ، تم بہت اچھے رہے ، آؤ اب اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہو جاؤ ۔ اور وہ کہیں گے کہ حمد ہے اس خدا کی جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہم کو زمین کا وارث کر دیا ، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے ۔ دیکھیے ، یہ دونوں آیتیں ایک ہی مضمون بیان کر رہی ہیں ، اور دونوں جگہ وراثت زمین کا تعلق عالم آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا سے ۔ اب زبور کو لیجیے جس کا حوالہ آیت زیر بحث میں دیا گیا ہے ۔ اگرچہ ہمارے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں زبور کے نام سے جو کتاب اس وقت پائی جاتی ہے یہ اپنی اصلی غیر محرف صورت میں ہے کہ نہیں ۔ کیونکہ اس میں مزامیر داؤد کے علاوہ دوسرے لوگوں کے مزامیر بھی خلط ملط ہو گئے ہیں اور اصلی زبور کا نسخہ کہیں موجود نہیں ہے ۔ تاہم جو زبور اس وقت موجود ہے اس میں بھی نیکی اور راستبازی اور توکل کی نصیحت کے بعد ارشاد ہوتا ہے : کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے ۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہو جائے گا ، تو اس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا تا پر وہ نہ ہوگا ، لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادماں رہیں گے ............ ان کی میراث ہمیشہ کے لیے ہو گی .................. صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے ( 37 داؤد کا مزمور ۔ آیات 9 ۔ 10 ۔ 11 ۔ 18 ۔ 29 ) ۔ دیکھیے ، یہاں راستباز لوگوں کے لیے زمین کی دائمی وراثت کا ذکر ہے ، اور ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں کی رو سے خلود اور ابدی زندگی کا تعلق آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا کی زندگی سے ۔ دنیا میں زمین کی عارضی وراثت جس قاعدے پر تقسیم ہوتی ہے اسے سورہ اعراف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ : اِنَّ الْاَرْضَ لِلہِ یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ ۔ ( آیت 128 ) زمین اللہ کی ہے ، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے ۔ مشیت الہٰی کے تحت یہ وراثت مومن اور کافر ، صالح اور فاسق ، فرماں بردار اور نافرمان ، سب کو ملتی ہے ، مگر جزائے اعمال کے طور پر نہیں بلکہ امتحان کے طور پر ، جیسا کہ اسی آیت میں فرمایا : وَیَسْتَخْلِفَنَّکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ( آیت 129 ) ۔ اور وہ تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ۔ اس وراثت میں دوام اور ہمیشگی نہیں ہے ۔ یہ مستقل اور دائمی بندوبست نہیں ہے ۔ یہ محض ایک امتحان کا موقع ہے جو خدا کے ایک ضابطے کے مطابق دنیا میں مختلف قوموں کو باری باری دیا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس آخرت میں اسی زمین کا دوامی بندوبست ہو گا ، اور قرآن کے متعدد واضح ارشادات کی روشنی میں وہ اس قاعدے پر ہو گا کہ زمین اللہ کی ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے صرف مومنین صالحین کو اس کا وارث بنائے گا ، امتحان کے طور پر نہیں ، بلکہ اس نیک رویے کی ابدی جزاء کے طور پر جو انہوں نے دنیا میں اختیار کیا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، النور ، حاشیہ 83 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani