اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لے آئے گا اس نے گویا اس رحمت کو قبول کرلیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ نتیجتًا دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہوگا اور اور چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پورے جہان کے لیے ہے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پورے جہان کے لیے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین و دنیا کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے آئے ہیں بعض لوگوں نے اس اعتبار سے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہان والوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے یہ امت بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کردی گئی جیسے پچھلی قومیں اور امتیں حرف غلط کی طرح مٹا دی جاتی رہیں امت محمدیہ (جو امت اجابت اور امت دعوت کے اعتبار سے پوری نوع انسانی پر مشتمل ہے) پر اس طرح کا کلی عذاب نہیں آئے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیے بد دعا نہ کرنا یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت کا ایک حصہ تھا انی لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمۃ (صحیح مسلم) اسی طرح غصے میں کسی مسلمان کو لعنت یا سب وشتم کرنے کو بھی قیامت والے دن رحمت کا باعث قرار دینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت کا حصہ ہے ( مسند احمد) اسی لیے ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انما رحمۃ مھداۃ (صحیح الجامع الصغیر) میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں جو اللہ کی طرف سے اہل جہان کے لیے ایک ہدیہ ہے۔
[٩٥] اس آیت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ جہان والوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو مبعوث فرمایا۔ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ آپ کی ذات بابرکات اور آپ کی بعثت دراصل پوری نوع انسانی کے لئے رحمت ہے۔ آپ ہی کے ذریعہ غفلت میں پڑی ہوئی اور راہ بھٹی ہوئی انسانیت کو ایسا علم نصیب ہوا جو حق و باطل کی راہوں کو ممیز کرکے سیدھی راہ دکھلاتا اور اس پر چلاتا ہے۔ جس سے انسان نے دنیا کی زندگی اچھے طور پر گزارنے کے اصول اور ڈھنگ سیکھے۔ پھر اس راہ پر چلنے سے انسان کی اخروی زندگی بھی سنور جاتی ہے۔ آپ کی یہ مہربانی تو ان لوگوں پر تھی جو آپ پر ایمان لائے اور بدکرداروں اور کافروں کے لئے آپ کی ذات باعث رحمت تھی چناچہ ارشاد باری ہے (وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ۭ وَمَا كَان اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ 33) 8 ۔ الانفال :33) یعنی جب تک آپ ان کافروں کے درمیان موجود ہیں اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا علاوہ ازیں آپ ہی کی دعا کی وجہ سے خسف اور مسخ اور بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے والے عذاب موقوف ہوئے اور مسلمانوں پر آپ کی رحمت کی داستان تو اتنی طویل ہے جس کا حصر یہاں ممکن نہیں۔ قرآن نے واضح الفاظ میں بتلا دیا کہ آپ مومنوں کے حق میں رحمت بھی تھے اور رحیم بھی۔- کفار مکہ آپ کی بعثت کو اپنے لئے ایک مصیبت سمجھتے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور باپ سے بیٹے کو اور بھائی سے بھائی کو غرض سب تو یہی رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے جدا کر رکھ دیا ہے۔ ان کے اسی قول کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نادانوں جس ہستی کو تم مصیبت سمجھ رہے ہو۔ مسلمان تو درکنار وہ تمہارے لئے بھی اللہ کی رحمت ہے۔ کیونکہ علوم نبوت اور تہذیب و انسانیت کے جو اصول وہ پیش کر رہا ہے ان سے سب مسلم و کافر اپنے اپنے مذاق کے موافق مستفید ہو رہے ہیں۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ : اعراب القرآن (قرآن کی ترکیب نحوی) کے موضوع پر لکھی ہوئی تقریباً تمام کتابوں میں ” رَحْمَةً “ کو ” اَرْسَلْنٰكَ “ کا مفعول لہ بیان کیا گیا ہے۔ بعض کتابوں میں دوسری تراکیب بھی بیان ہوئی ہیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ نحو کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ مفعول لہ جس فعل کی علت بیان کر رہا ہو اس فعل کا اور مفعول لہ کا فاعل ایک ہوتا ہے، مثلاً ” ضَرَبْتُ زَیْدًا تَأْدِیْبًا “ (میں نے زید کو ادب سکھانے کے لیے مارا) اس میں مارنے والا اور ادب سکھانے والا ایک ہی ہے، اس طرح یہاں بھیجنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے اور رحم کرنے والا بھی۔ چناچہ معنی یہ ہوگا کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرنے کے لیے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجنے کی وجہ اللہ تعالیٰ کا جہانوں پر رحم کرنا ہے۔ چناچہ شاہ ولی اللہ (رض) نے اس کا ترجمہ کیا ہے : ” ونفرستادیم ترا مگر ازروئے مہربانی برعالمہا “ (اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر مہربانی کی وجہ سے) اور شاہ عبد القادر (رض) نے ترجمہ کیا ہے : ” اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہر (یعنی مہربانی) کر کر جہان کے لوگوں پر۔ “ مفسر ابوالسعود نے فرمایا : ” أَيْ مَا أَرْسَلْنَاکَ بِمَا ذُکِرَ لِعِلَّۃٍ مِنَ الْعِلَلِ إِلاَّ لِرَحْمَتِنَا الْوَاسِعَۃِ لِلْعَالَمِیْنَ قَاطِبَۃً “ ” اور ہم نے تجھے مذکورہ وحی دے کر کسی بھی وجہ سے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں پر اپنی وسیع رحمت کی وجہ سے۔ “ امام المفسرین طبری نے فرمایا : ” وَمَا أَرْسَلْنَاکَ یَا مُحَمَّدُ إِلاَّ رَحْمَۃً لِمَنْ أَرْسَلْنَاکَ إِلَیْہِ مِنْ خَلْقِيْ “ ” اور ہم نے اے محمد تجھے نہیں بھیجا مگر اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں پر رحم کے لیے جن کی طرف ہم نے تجھے بھیجا ہے۔ “ پھر امام طبری نے ” رَحْمَةً “ کی تفسیر میں اس قول کو ترجیح دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجنے کی وجہ مومن و کافر سب پر رحم ہے کہ جو آپ پر ایمان لائے گا اس کے لیے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں رحمت لکھی جائے گی اور جو آپ پر ایمان نہیں لائے گا وہ دنیا میں ان عذابوں سے محفوظ رہے گا جو پہلی امتوں پر نبی کو جھٹلانے کی وجہ سے نازل ہوتے تھے، مثلاً زمین میں دھنس جانا، شکلیں بدل جانا وغیرہ۔- ایک ترکیب نحوی یہ ہے کہ ” رَحْمَةً “ حال بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے۔ جس طرح کہتے ہیں ” زَیدٌ عَدْلٌ“ کہ زید عدل ہے، یعنی اتنا عادل ہے گویا سراپا عدل ہے۔ پھر یہ ” اَرْسَلْنٰكَ “ میں ضمیر فاعل ” ہم “ سے بھی حال ہوسکتا ہے اور ” اَرْسَلْنٰكَ “ میں ضمیر ” کاف “ سے بھی۔ پہلی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر اس حال میں کہ ہم جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہیں۔ دوسری صورت میں معنی ہوگا کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر اس حال میں کہ تو جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہے۔ پہلا معنی مفعول لہ والے معنی کے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہانوں پر رحم کی وجہ سے مبعوث کرنا اور اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حال میں بھیجنا کہ اس کی ذات پاک تمام جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہے، دونوں کا مفہوم ایک ہے جو سورة فاتحہ میں ” رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ “ اور ” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ کے اکٹھے بیان سے واضح ہے۔ دوسرا معنی کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حال میں بھیجا کہ آپ جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہیں، بھی درست ہے کہ آپ مومنوں کے لیے تو دنیا و آخرت دونوں میں سراسر رحمت ہیں، فرمایا : ( بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ) [ التوبۃ : ١٢٨ ] ” مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ “ اور فرمایا : (وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ) [ التوبۃ : ٦١ ] ” اور ان کے لیے ایک رحمت ہے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں۔ “ اور کفار کے لیے بھی دنیا میں سراسر رحمت ہیں کہ آپ کی وجہ سے وہ دنیا میں پہلی قوموں جیسے عذابوں سے محفوظ ہوگئے اور آپ کی شریعت میں صلح و جنگ دونوں حالتوں میں ان پر وہ ظلم و جور روا نہیں رکھا جاتا جو دوسری تمام اقوام اپنے مخالفین پر روا رکھتی ہیں اور آپ کو کفار کے ایمان نہ لانے اور ان کے جہنم کا ایندھن بننے کا اتنا غم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : (لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ) [ الشعراء : ٣ ] ” شاید تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہے، اس لیے کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانوروں پر رحم فرماتے اور اس کا حکم دیتے اور ان پر ظلم سے منع فرماتے تھے، فرمایا : ( فِيْ کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ رَطْبَۃٍ أَجْرٌ ) [ بخاري، المظالم، باب الآبار علی الطرق إذا لم یُتأذّبہا : ٢٤٦٦ ] ” ہر تر جگر (زندگی) والی چیز (پر رحم) میں اجر ہے۔ “ حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے پر ایک بدکار عورت کو مغفرت کی نوید سنائی۔ شریعت اسلامیہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ رحمت بھی رب العالمین ہی کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے محبوب رسول میں یہ وصف رکھا۔ چناچہ ابن جزی ” التسہیل “ میں اعراب کی یہ تینوں وجہیں لکھ کر فرماتے ہیں : ” وَالْمَعْنٰی عَلٰی کُلِّ وَجْہٍ أَنَّ اللّٰہَ رَحِمَ الْعَالَمِیْنَ بِإِرْسَالِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ “ ” ان تمام صورتوں میں معنی ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجنے کے ساتھ جہانوں پر رحم فرمایا۔ “
معارف و مسائل - وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ ، عالمین عالم کی جمع ہے جس میں ساری مخلوقات انسان، جن، حیوانات، نباتات، جمادات سبھی داخل ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سب چیزوں کے لئے رحمت ہونا اس طرح ہے کہ تمام کائنات کی حقیقی روح اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت زمین سے یہ روح نکل جائے گی اور زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا تو ان سب چیزوں کی موت یعنی قیامت آجائے گی اور جب ذکر اللہ و عبادت کا ان سب چیزوں کی روح ہونا معلوم ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سب چیزوں کے لئے رحمت ہونا خود بخود ظاہر ہوگیا کیونکہ اس دنیا میں قیامت تک ذکر اللہ اور عبادت آپ ہی کے دم قدم اور تعلیمات سے قائم ہے اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے انا رحمة مھداة میں اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی رحمت ہوں۔ (اخرجہ ابن عساکر عن ابی ھریرة) اور حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انا رحمة مھداة برفع قوم و خفض اخرین، یعنی میں اللہ کی بھیجی ہوئی رحمت ہوں تاکہ (اللہ کے حکم ماننے والی) ایک قوم کو سربلند کردوں اور دوسری قوم (جو اللہ کا حکم ماننے والی نہیں ان کو) پست کر دوں (ابن کثیر)- اس سے معلوم ہوا کہ کفر و شرک کو مٹانے کیلئے کفار کو پست کرنا اور ان کے مقابلے میں جہاد کرنا بھی عین رحمت ہے جس کے ذریعہ سرکشوں کو ہوش آ کر ایمان اور عمل صالح کا پابند ہوجانے کی امید کی جاسکتی ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔- تم تفسیر سورة الانبیاء وللہ الحمد لیلة الرابع والعشرین من ذی الحجة الحرام 1390 من الھجرة النبویة قبل العشاء ولہ الحمد اولا واخرا وظاھرا و باطنا و ھوا المرجو لا تمام الباقی وما ذلک علیہ بعزیز ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَ ١٠٧- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،
(١٠٧۔ ١٠٨) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو اور کسی بات کے لیے رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر جن وانس میں سے جو آپ پر ایمان لائے، اس پر عذاب سے رحمت ونعمت کے لیے بھیجا ہے۔- بس آپ فرما دیجیے کہ میرے پاس تو اس قرآن حکیم کے ذریعے سے یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود حقیقی ایک ہی معبود وحدہ لاشریک ہے، اب بھی مکہ والو تم تم سچے دل سے توحید اور عبادت کا اقرار کرتے ہو یا نہیں۔
آیت ١٠٧ (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ) ” - یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت صرف جزیرہ نمائے عرب تک محدود نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جزیرۂ نمائے عرب میں اسلام کے عملی طور پر غلبے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد پورا ہوچکا ہوتا ‘ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو تمام اہل عالم کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد قرآن میں تین مقامات ( التوبہ : ٣٣ ‘ الفتح : ٢٨ اور الصف : ٩) پر ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے : (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ) ” وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ اسے غالب کر دے تمام ادیان پر “۔ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد تب پورا ہوگا جب دین اسلامُ کل روئے زمین پر غالب ہوجائے گا۔ اسی مضمون کو اقبالؔ نے یوں بیان کیا ہے : - وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے - نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے - نور توحید کا اتمام یعنی اسلام کا بطور دین کلی غلبہ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں ہی ہوگیا تھا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں دین اسلام کے اس اقتدار کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ بڑی شد و مد سے شروع ہوا مگر دور عثمانی میں ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے سازش کے ذریعے عالم اسلام میں ” الفتنۃ الکبرٰی “ کھڑا کردیا۔ اس کے نتیجے میں حضرت عثمان (رض) شہید کردیے گئے اور پھر مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے ہلاک ہوگئے۔ اس فتنہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ نہ صرف غلبہ اسلام کی مزید تصدیر و توسیع کا عمل رک گیا ‘ بلکہ بعض علاقوں سے مسلمانوں کو پسپائی بھی اختیار کرنا پڑی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت چونکہ تا قیام قیامتُ کل روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد ” اِظہار دین ١ لحق “ (دین حق کا غلبہ) ہے ‘ اس لیے یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا یہ مقصد بہ تمام و کمال پورا نہ ہو اور دین اسلامُ کل عالم انسانی پر غالب نہ ہوجائے۔ اس کا صغریٰ و کبریٰ قرآن سے ثابت ہے اور اس کی تفصیلات کتب احادیث میں موجود ہیں۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :100 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت دراصل نوع انسانی کے لیے خدا کی رحمت اور مہربانی ہے ، کیونکہ آپ نے آ کر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکایا ہے ، اور اسے وہ علم دیا ہے جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے ، اور اس کو بالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتا دیا ہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کونسی ہے اور سلامتی کی راہ کونسی ۔ کفار مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے ، ناخن سے گوشت جدا کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ نادانو ، تم جسے زحمت سمجھ رہے ہو یہ درحقیقت تمہارے لیے خدا کی رحمت ہے ۔