Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 یعنی جس طرح میں جانتا ہوں کہ تم میری دعوت توحید و اسلام سے منہ موڑ کر میرے دشمن ہو، اسی طرح تمہیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میں بھی تمہارا دشمن ہوں اور ہماری تمہاری آپس میں کھلی جنگ ہے۔ 109۔ 2 اس وعدے سے مراد قیامت ہے یا غلبہ اسلام و مسلمین کا وعدہ یا وہ وعدہ جب اللہ کی طرف سے تمہارے خلاف جنگ کرنے کی مجھے اجازت دی جائے گی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٧] اِذْانْتُمْ عَلٰی سَوَاءٍ کا معنی یہ کہ میں نے تم کو برابری کی سطح پر خبردار کردیا ہے۔ یعنی تمہیں دو باتوں میں سے کسی بھی ایک کا اختیار ہے۔ چاہے میری دعوت کو قبول کرلو اور چاہے تو انکار کردو۔ انکار کی صورت میں تم پر عذاب آئے گا ضرور، لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ عذاب کب آئے گا ؟ جلد آئے گا یا دیر سے آئے گا کیونکہ عالم الغیب نہیں ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ ۔۔ : ” إِنْ “ کا لفظ شک کے لیے آتا ہے، یعنی اول تو اتنے یقینی دلائل کے بعد ممکن نہیں کہ وہ مسلم نہ بنیں، لیکن اتنے واضح اور قطعی دلائل کے بعد بھی اگر وہ منہ موڑیں اور مسلم نہ بنیں تو ان سے کہہ دیجیے کہ تمہارے اسلام اور توحید سے منہ موڑنے کے بعد میں تمہیں صاف آگاہ کر رہا ہوں کہ تم نے توحید سے منہ موڑا تو میں نے بھی تمہارے شرک سے منہ موڑا، تاکہ یہ بات جاننے میں ہم تم دونوں برابر ہوجائیں۔ سورة کافرون میں بھی یہ اعلان صاف الفاظ میں سنا دیا گیا ہے۔ ۭ وَاِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ ۔۔ : یعنی توحید سے منہ موڑنے کی وجہ سے عذاب کا تم پر آنا لازم ہے، مگر مجھے معلوم نہیں کہ تم سے جس دنیوی یا اخروی عذاب کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا دور ؟ کیونکہ اس کا ٹھیک وقت اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ سورة جن میں فرمایا : (قُلْ اِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ يَجْعَلُ لَهٗ رَبِّيْٓ اَمَدًا) [ الجن : ٢٥ ] ” کہہ دے میں نہیں جانتا آیا وہ چیز قریب ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے، یا میرا رب اس کے لیے کچھ مدت رکھے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۝ ٠ۭ وَاِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ اَمْ بَعِيْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ۝ ١٠٩- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - دری - الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما - يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه «1» ، نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب - ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) - الدریۃ - ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٩) پھر بھی اگر یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے سرکشی کریں تو آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں تمہیں واضح اطلاع کرچکا ہوں جس میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں کہ میری مدد کی جائے گی اور تمہیں انکار پر سزا ملے گی ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُکُمْ عَلٰی سَوَآءٍ ط) ” - میں نے تم سب لوگوں تک برابر اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے۔ میں نے تمہارے سرداروں پر بھی اتمام حجت کردیا ہے اور عوام کے سامنے بھی حق واضح انداز میں پیش کردیا ہے۔ الغرض تمہارے معاشرے کا کوئی چھوٹا ‘ کوئی بڑا ‘ کوئی امیر اور کوئی غریب فرد ایسا نہیں جس تک میری یہ دعوت نہ پہنچی ہو۔ لہٰذا جو کام اللہ نے میرے ذمے لگایا تھا میں نے اپنی طرف سے اس کا حق ادا کردیا ہے۔- (وَاِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ ) ” - تم لوگوں کو جو وعید سنائی جا رہی ہے ‘ جس عذاب یا قیامت کے وقوع پذیر ہونے سے متعلق تم لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے ‘ اس کے بارے میں کوئی ” ٹائم ٹیبل “ میں تم لوگوں کو نہیں دے سکتا۔ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا وہ وعدہ کب پورا ہوگا ‘ البتہ یہ بات طے ہے کہ اپنے کرتوتوں کے نتائج و عواقب بہر حال تم لوگوں کو بھگتنے ہوں گے۔- قیامت کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں قطعی علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے ‘ البتہ قرآن میں جابجا قیامت اور آثار قیامت کے بارے میں اشارے ملتے ہیں۔ احادیث نبویہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب الملاحم ‘ کتاب اشراط الساعۃ اور کتاب الفتن کے اندر بھی قرب قیامت کے زمانہ کے حالات و واقعات بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں سابقہ الہامی کتب کے اندر بھی بہت سی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ اگرچہ ان کتب میں بڑی حد تک ردّ و بدل کردیا گیا ہے ‘ لیکن ان کی بعض عبارات اپنی اصلی حالت میں آج بھی موجود ہیں۔ ان پیشین گوئیوں کے حوالے سے بائبل کی آخری کتاب بھی بہت اہم ہے جو حضرت یوحنا ( ) کے مکاشفات پر مشتمل ہے ‘ جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے حواریوں میں سے تھے اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) پیغمبر (یوحنا : ) کے ہم نام تھے۔ ماضی قریب کی شخصیات میں ‘ نعمت شاہ ولی ‘ گاندھی جی (ان کی ذاتی ڈائری کی دریافت کے بعد یہ پیشین گوئیاں سامنے آئی ہیں) اور وائن برگر کی پیشین گوئیاں ملتی ہیں۔ اس سب کچھ کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت سے پہلے اس دنیا پر بہت مشکل حالات آنے والے ہیں۔ آثار وقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ‘ لیکن اس کے وقوع کے بارے میں قطعی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :101 یعنی خد اکی پکڑ جو دعوت رسالت کو رد کر دینے کی صورت میں آئے گی ، خواہ کسی نوعیت کے عذاب کی شکل میں آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani