Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 قَصَمَ کے معنی ہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دینا۔ یعنی کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا، توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا قوم نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی بستیاں ہلاک کردیں ( سورة بنی اسرائیل)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] یعنی یہ نہیں ہوا تھا کہ ظالم قوموں کو بلاک کرنے کے بعد یہ زمین بےآباد اور ویران رہ گئی تھی۔ جبکہ اس زمین کو ہم نے فوراً دوسرے لوگو لاکر آباد کردیا تھا اور اس کا اگر کچھ نقصان پہنچتا تھا تو صرف ظالموں ہی کو پہنچا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧوَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً : ” قَصْمٌ“ کا معنی کسی سخت چیز کو توڑنا ہے۔ کہا جاتا ہے : ” فُلاَنٌ قَصَمَ ظَھْرَ فُلاَنٍ “ کہ فلاں نے فلاں کی کمر توڑ دی۔ ” اِنْقَصَمَتْ سِنُّہُ “ فلاں کا دانت ٹوٹ گیا۔ ” کَمْ “ یہاں تکثیر کے لیے ہے، ” کتنی ہی بستیاں “ سے مراد بہت سی بستیاں ہیں، اس سے کوئی خاص بستی مراد نہیں۔ ابن عباس (رض) کی طرف منسوب وہ روایت موضوع ہے جس میں ان سے نقل کیا گیا ہے کہ اس سے مراد یمن کے شہروں کے لوگ ہیں۔ [ الاستیعاب في بیان الأسباب ] آیت کے الفاظ کے مطابق بھی وہ بستیاں عام ہیں اور کوئی خاص علاقہ مراد نہیں۔- وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ : ” اَلإْنْشَاءُ “ کا معنی نئی چیز بنانا ہے۔ ” بَعْدَهَا “ بعض مقامات پر ” مِنْ بَعْدِھَا “ ہوتا ہے، اس میں کچھ دیر بعد مراد ہوتا ہے، یہاں ” بَعْدَهَا “ کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان بستیوں کی ہلاکت کے بعد ساتھ ہی نئے سرے سے اور قومیں وہاں لے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور بعد والی آیات میں اپنا ذکر جمع کے صیغے سے کیا ہے۔ مراد اس سے اپنی عظمت کا اظہار ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے بہت سی بستیاں جن کے رہنے والے ظالم (یعنی کافر) تھے تباہ کر ڈالیں اور ان کے بعد دوسری قوم پیدا کردی تو جب ان ظالموں نے ہمارا عذاب آتا دیکھا تو اس بستی سے بھاگنا شروع کیا (تاکہ عذاب سے بچ جاویں۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ) بھاگو مت اور اپنے سامان عیش اور اپنے مکانات کی طرف واپس چلو شاید تم سے کوئی پوچھے پاچھے (کہ تم پر کیا گزری مقصود اس سے بطور تعریض کے ان کی احمقانہ جسارت پر تنبیہ ہے کہ جس سامان اور مکان پر تم کو ناز تھا اب نہ وہ سامان رہا نہ مکان نہ کسی دوست ہمدرد کا نام و نشان رہا) وہ لوگ (نزول عذاب کے وقت) کہنے لگے کہ ہائے ہماری کم بختی بیشک ہم لوگ ظالم تھے ان کا یہی شور و غل رہا یہاں تک کہ ہم نے ان کو ایسا (نیست و نابود) کردیا جس طرح کھیتی کٹ گئی ہو یا آگ بجھ گئی ہو۔ - معارف ومسائل - ان آیات میں جن بستیوں کے تباہ کرنے کا ذکر ہے بعض مفسرین نے ان کو یمن کی بستیاں حضور اء اور قلابہ قرار دیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک رسول بھیجا تھا جس کے نام میں روایات مختلف ہیں۔ بعض میں موسیٰ بن میشا اور بعض میں شعیب ذکر کیا گیا ہے اور اگر شعیب نام ہے تو وہ مدین والے شعیب (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور ہیں۔ ان لوگوں نے اللہ کے رسول کو قتل کر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک کافر بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں تباہ کرایا۔ بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا جیسا کہ بنی اسرائیل نے جب فلسطین میں بےراہی اختیار کی تو ان پر بھی بخت نصر کو مسلط کر کے سزا دی گئی تھی مگر صاف بات یہ ہے کہ قرآن نے کسی خاص بستی کو معین نہیں کیا اس لئے عام ہی رکھا جائے اس میں یہ یمن کی بستیاں بھی داخل ہوں گی واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَۃٍ كَانَتْ ظَالِمَۃً وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ۝ ١١- قصم - قال تعالی: وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] أي : حطمناها وهشمناها، وذلک عبارة عن الهلاك، ويسمّى الهلاک قَاصِمَةَ الظّهر، وقال في آخر : وَما كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرى [ القصص 59] . والْقُصَمُ : الرجل الذي يَقْصِمُ مَنْ قاومه .- ( ق ص م ) القصم - ( ج ) کے معنی ہلاک کرنے اور کسی چیز کو توڑنے دینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گا ر تھیں ہلاک کر مارا ۔ یعنی انہیں توڑ مروڑ کر ریزہ ریزہ اور ہلاک کردیا ۔ اور ہلاکت کو قاصمۃ الظھر کہا جاتا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَما كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرى [ القصص 59] اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے ۔ القصم وہ آدمی جو ہر مقادمت کرنے والے کو توڑ ڈالے ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١) اور ہم نے بہت سی بستیاں جہاں کے رہنے والے کافر و مشرک تھے برباد کردیں اور ان کی ہلاکت کے بعد دوسری قومی پیدا قوم پیدا کردی جو ان کی بسیتوں میں آباد ہوگئی ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (وَکَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً ) ” - ان کے باسی گنہگار ‘ سرکش اور نافرمان تھے۔ چناچہ انہیں سزا کے طور پر نیست و نابود کردیا گیا۔- (وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ ) ” - جیسے قوم نوح ( علیہ السلام) کے بعد قوم عاد کو موقع ملا اور قوم عاد کے بعد قوم ثمود نے عروج پایا اور اسی طرح یہ سلسلہ آگے چلتا رہا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :13 یعنی جب عذاب الہٰی سر پر آگیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ آ گئی شامت ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani