Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یعنی تخلیق کائنات کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ یہاں حق و باطل کی جو معرکہ آرائی اور خیرو شر کے درمیان جو تصادم ہے، اس میں ہم حق اور خیر کو غالب اور باطل اور شر کو مغلوب کریں چناچہ ہم حق کو باطل پر یا سچ کو جھوٹ پر یا خیر کو شر پر مارتے ہیں، جس سے باطل، جھوٹ اور شر کا بھیجہ نکل جاتا ہے اور چشم زدن میں وہ نابود ہوجاتا ہے۔ 18۔ 2 یعنی رب کی طرف سے تم جو بےسرو پا باتیں منسوب کرتے یا اس کی بابت باور کراتے ہو، (مثلاً یہ کائنات ایک کھیل ہے، ایک کھلنڈرے کا شوق فضول ہے وغیرہ) یہ تمہاری ہلاکت کا باعث ہے۔ کیونکہ اسے کھیل تماشہ سمجھنے کی وجہ سے تم حق سے گریز اور باطل کو اختیار کرنے میں کوئی تامل اور خوف محسوس نہیں کرتے، جس کا نتیجہ بالآخر تمہاری بربادی اور ہلاکت ہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥] بلکہ تخلیق کائنات کا اصل مقصد یہ ہے کہ یہاں میدان کار زار گرم ہو۔ حق و باطل کا معرکہ جاری رہے۔ حق باطل پر حملہ آور ہو اور اس کا کچھومر نکال کر بھاگنے پر مجبور کردے۔ پھر جن لوگوں نے حق کا ساتھ دیا ہو۔ اللہ انھیں اپنے انعامات سے نوازے اور اہل باطل کو تباہ و برباد کردے۔- یہاں ایک اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ باطل قوتیں ہی غالب نظر آتی ہیں اور حق دبا رہتا ہے۔ انبیاء یا بعض دوسرے مصلحین آتے ہیں حق و باطل کا معرکہ ہوتا ہے اور حق غالب آجاتا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد پھر باطل سر نکال لیتا ہے اور حق دب جاتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حق کی راہ صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ کی وحدانیت اور اس کائنات پر صرف اسی کا مکمل اقتدار و اختیار۔ جبکہ باطل کا راہیں لاتعداد ہیں۔ وہ اپنے روپ کو بدلتی رہتی ہیں اور اپنے الٰہ بھی۔ حق آتا ہے تو باطل کی راہوں کو مٹا دیتا ہے پھر باطل کسی نئے روپ میں ازسر نو جنم لیتا ہے۔ کبھی الٰہ بتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے، کبھی شمس و قمر کو، کبھی ستاروں کو، کبھی فرشتوں کو، کبھی جنوں کو، کبھی انسانوں کو، کبھی ان کے آستانوں اور مزاروں کو اور کبھی شجر و حجر وغیرہ کو۔ تو یہ سب راہیں حق کے مقابلہ میں مغلوب ہی رہی ہیں اور اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر آج تک حق کی راہ ایک ہی رہی ہے اور موجود رہی ہے۔ آج بھی موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی۔ توحید کے پرستار قیامت تک موجود رہیں گے۔ خواہ ان کی تعداد کتنی ہی تھوڑی ہو۔ جبکہ باطل کے تمام راستے ہمیشہ سے بگڑتے اور حق سے زک ہی اٹھاتے رہے ہیں۔ اور حق اکثر اوقات میں دبا رہنے کے باوجود بھی قائم اور برقرار رہتا ہے۔ گویا جن کو جو استقلال میسر ہے وہ باطل کو کبھی نصیب نہیں ہوتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ ۔۔ : ” قَذَفَ یَقْذِفُ “ (ض) کا معنی کسی چیز کو سختی کے ساتھ پھینک مارنا۔ ” فَيَدْمَغُهٗ “ ” دَمَغَ یَدْمَغُ “ (ف) کسی چیز کا دماغ کو توڑنا، یہاں تک کہ اس کی وہ جھلی پھٹ جائے جس کے پھٹنے سے روح نکل جاتی ہے۔ ” زَاهِقٌ“ ” زُھُوْقٌ“ کا معنی کسی چیز کا مکمل طور پر ختم ہوجانا ہے۔ یعنی ہم نے اس کائنات کو بےمقصد نہیں بنایا، بلکہ اس میں حق و باطل کا معرکہ جاری ہے اور اس کا نظام ہم نے اس طرح بنایا ہے کہ باطل نے جب بھی سر اٹھایا حق نے ضرب کاری لگا کر اسے نیست و نابود کردیا۔ اسی طرح اب بھی بالآخر باطل فنا ہوجائے گا اور حق قائم و دائم رہے گا۔- ” فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ“ میں ”إِذَا “ فجائیہ یعنی اچانک کے معنی میں ہے اور ” هُوَ زَاهِقٌ“ جملہ اسمیہ ہے جو استمرار کے لیے ہے اور جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ باطل نہایت تیزی کے ساتھ مٹتا ہے اور اس کا مٹنا عارضی نہیں، دائمی ہوتا ہے۔ (آلوسی)- وَلَـكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ : یعنی اگر تم یہ کہو گے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا یہ سلسلہ ایک کھیل بنایا ہے اور دوبارہ زندہ ہونا، حساب کتاب اور جنت و دوزخ سب فرضی قصے کہانیاں ہیں تو تمہارے اس بیان کا نتیجہ تمہاری بربادی کی صورت میں ظاہر ہوگا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ، قذف کے لغوی معنی پھینکنے اور پھینک مارنے کے، یدمغ کے معنے دماغ پر ضرب لگانے کے ہیں اور زاہق کے معنے جانے والا اور بےنام و نشان ہوجانے والا۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ زمین و آسمان کی عجیب و غریب کائنات ہم نے کھیل کے لئے نہیں بلکہ بڑی حکمتوں پر مبنی کر کے بنائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعہ حق و باطل کا امتیاز ہوتا ہے، مصنوعات قدرت کا مشاہدہ انسان کو حق کی طرف ایسی رہبری کرتا ہے کہ باطل اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ اسی مضمون کی تعبیر اس طرح کی گئی ہے کہ حق کو باطل کے اوپر پھینک مارا جاتا ہے جس سے باطل کا دماغ (بھیجا) نکل جاتا ہے اور وہ بےنام و نشان ہو کر رہ جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَزَاہِقٌ۝ ٠ۭ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ۝ ١٨- قذف - الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة، وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي .- ( ق ذ ف ) القذف ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ - بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - دمغ - قال تعالی: بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ فَيَدْمَغُهُ [ الأنبیاء 18] ، أي : يكسر دِمَاغَهُ ، وحجّة دَامِغَة كذلك . ويقال للطّلعة تخرج من أصل النّخلة فتفسده إذا لم تقطع : دامغة، وللحدیدة التي تشدّ علی آخر الرّحل : دامغة، وكلّ ذلک استعارة من الدَّمْغ الذي هو کسر الدّماغ .- ( د م غ ) الدمغ ( ف) کے اصل معنی دماغ پھوڑ دینے کے ہیں ( اس سے نیست ونابود کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ) قرآن میں ہے ؛۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ فَيَدْمَغُهُ [ الأنبیاء 18] ( نہیں ) بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ اس کا مغز توڑ دیتا ہے ۔ حجۃ دامعۃ ۔ حجت قاطع ۔ سر پھوڑ دلیل ۔ نیز دامغۃ ای ک قسم کے شگوفہ کو کہتے ہیں جو کھجور تنا سے پھوٹ نکلتا ہے ۔ اگر اسے کاٹا نہ جائے تو کھجور کے درخت کو خشک اور خراب کردیتا ہے نیز دامعۃ اس لوہے کو بھی کہتے جو پالان کی لکڑی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے ۔ یہ تمام الفاظ مغ ہے بطور استعارہ ہوتے ہیں ۔ جس کے معنی دماغ کو توڑنا کے ہیں ۔- زهق - زَهَقَتْ نفسه : خرجت من الأسف علی الشیء، قال : وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة 55] .- ( ز ھ ق )- زھقت نفسہ کے معنی ہیں کسی چیز پر رنج وغم سے اس کی جان نکل گئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة 55] اور ان کی جانیں ( اس حال میں ) نکلیں ۔- وصف - الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ :- الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116]- ( و ص ف ) الوصف - کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) بلکہ ہم اس حق بات کو باطل بات پر پھینک مارتے ہیں سو وہ حق اس باطل کا خاتمہ کردیتا ہے یا یہ کہ ہم نے اثبات حق اور ایطال باطل کے لیے پیدا کیا ہے اور تمہارے لیے اس بات پر بڑا عذاب ہوگا جو تم کہتے ہو کہ عیاذ باللہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ط) ” - یہ تاریخ انسانی کا قرآنی فلسفہ ہے۔ دوسری طرف ایک نظریہ سپنگلر کا بھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قوموں کی زندگی ایک فرد کی زندگی سے مشابہ ہے۔ جس طرح ایک بچہ پیدا ہوتا ہے ‘ بچپن گزارتا ہے ‘ جوانی کو پہنچتا ہے ‘ بوڑھا ہوتا ہے اور پھر مرجاتا ہے ‘ ایسے ہی دنیا میں قومیں اور ان کی تہذیبیں پیدا ہوتی ہیں ‘ ترقی کرتی ہیں ‘ بام عروج پر پہنچتی ہیں ‘ اور پھر کمزوریوں اور خرابیوں کے باعث زوال پذیر ہو کر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس ضمن میں کارل مارکس نے جو کا نظریہ ) وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو الرعد : ١٧ کی تشریح) پیش کیا ہے ‘ وہ بھی اپنی جگہ اہم ہے۔- بہر حال آیت زیر نظر میں جو فلسفہ دیا گیا ہے اس کے مطابق دنیا میں حق و باطل کی کشمکش مسلسل جاری ہے۔ ایک طرف ابلیس ‘ اس کی نسل اور اس کے ایجنٹ ہیں ‘ جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ‘ انبیاء ورسل ‘ صدیقین ‘ شہداء اور مؤمنین صادقین ہیں۔ قرآن کے اس فلسفہ کو اقبالؔ نے اس طرح بیان کیا ہے : ؂- ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز - چراغ مصطفوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرار بولہبی - مشیتِ الٰہی سے کبھی کبھی یہ کشمکش دھماکہ خیزہو کر باقاعدہ ایک معرکے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ طالبانِ حق کی مدد کرتا ہے اور ان کی طاقت کے ذریعے باطل کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔- حق و باطل کا ایسا ہی ایک بہت خوفناک معرکہ قرب قیامت کے زمانے میں ہونے والا ہے۔ یہ جنگوں کا ایک طویل سلسلہ ہوگا جس کو عیسائی روایات میں جبکہ احادیث میں ” المَلحَمۃ العُظمٰی “ کا نام دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے مستقبل کے اس معرکے کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے : ؂- دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش - تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا - اللہ کو پامردئ مؤمن پہ بھروسہ - ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا - یہاں علامہ اقبال نے لفظ ” تہذیب “ کے ذریعے اسی مخصوص ذہنیت اور سوچ کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے تحت فرعون نے اپنے عوام کو ” طَرِیقَتکُمُ المُثْلٰی “ کے نام پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ابھارنے کی کوشش کی تھی کہ اس وقت تمہارے مثالی تہذیب و تمدن کو بڑا خطرہ درپیش ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کو جب بھی منظور ہوتا ہے کوئی تحریک یا کوئی جمعیت حق کی علمبردار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے اور باطل اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ایسی ہی قوم یا جماعت اللہ کے دست قدرت کی وہ تلوار ہے جس سے وہ باطل کا قلع قمع کرتا ہے : ؂- صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم - کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب - لیکن یہ مقام رفیع صرف وہی قوم حاصل کرسکتی ہے جو قدم قدم پر خود اپنا احتساب کرنے کی پالیسی پر عمل پیراہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :17 یعنی ہم بازی گر نہیں ہیں ، نہ ہمارا کام کھیل تماشا کرنا ہے ۔ ہماری یہ دنیا ایک سنجیدہ نظام ہے جس میں کوئی باطل چیز نہیں جم سکتی ۔ باطل یہاں جب بھی سر اٹھاتا ہے ، حقیقت سے اس کا تصادم ہو کر رہتا ہے اور آخر کار وہ مٹ کر ہی رہتا ہے ، اس دنیا کو اگر تم تماشا گاہ سمجھ کر جیو گے ، یا حقیقت کے خلاف باطل نظریات پر کام کرو گے تو نتیجہ تمہاری اپنی ہی تباہی ہو گا ۔ نوع انسانی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کہ دنیا کو محض ایک تماشا گاہ ، محض ایک خوان نعیم ، محض ایک عیش کدہ سمجھ کر جینے والی ، اور انبیاء کی بتائی ہوئی حقیقت سے منہ موڑ کر باطل نظریات پر کام کرنے والی قومیں پے در پے کس انجام سے دو چار ہوتی رہی ہیں پھر یہ کونسی عقلمندی ہے کہ جب سمجھانے والا سمجھائے تو اس کا مذاق اڑاؤ ، اور جب اپنے ہی کیے کرتوتوں کے نتائج عذاب الہٰی کی صورت میں سر پر آ جائیں تو چیخنے لگو کہ ہائے ہماری کم بختی ، بے شک ہم خطا وار تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: یعنی کھیل دل لگی ہمارا کام نہیں ہے۔ ہم تو جو کام کرتے ہیں، وہ حق ہی حق ہوتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں باطل آتا ہے تو حق ہی کے ذریعے اس کا توڑ کیا جاتا ہے۔