19۔ 1 سب اسی کی ملک اور اسی کے غلام ہیں، پھر جب تم کسی غلام کو اپنا بیٹا اور کسی لونڈی کو بیوی بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے مملوکین اور غلاموں میں سے بعض کو بیٹا اور بعض کو بیوی کس طرح بنا سکتا ہے ؟ 19۔ 2 اس سے مراد فرشتے ہیں، وہ بھی اس کے غلام اور بندے ہیں، ان الفاظ سے ان کا شرف و اکرام بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اس کی بارگاہ کے مقربین ہیں۔ اس کی بیٹیاں نہیں ہیں جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔
[١٦] یعنی فرشتے اللہ کی ایسی مخلوق ہے۔ جو ہر آں اللہ کی تسبیح و تمحید میں مشغول رہتے ہیں اور وہ اللہ کی بندگی کو ناگوار سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ نہایت خوشدلی سے بجا لاتے ہیں۔ قرآن نے یہاں یستحسرون کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور استحسار ایسی تھکاوٹ یا اکتاہٹ کو کہتے ہیں جو کسی ناگوار کام کے کرنے سے لاحق ہوتی ہے۔ اور ان کی یہ تسبیح بالکل ایسے ہی بلاوقفہ ہوتی ہے جیسے انسان مسلسل سانس لیتا ہے اور اس میں کبھی وقفہ نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا انسان کی تخلیق سے مقصود محض اپنی عبادت ہی ہوتی تو فرشتے یہ کام بطریق احسن بجا لارہے تھے۔ لیکن اصل مقصد یہ تھا کہ یہاں حق و باطل کا معرکہ بپا ہو اور وہ انسان کو پیدا کرنے اور اسے عقل اور قوت ارادہ و اختیار رہنے سے ہی ہوسکتا تھا اور انسانوں کی آزمائش اسی طرح ہوسکتی تھی۔
وَ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : ” مَنْ “ کا لفظ عموماً عقل والی مخلوقات کے لیے استعمال ہوتا ہے، اگرچہ یہاں زمین و آسمان کے عقلاء کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت قرار دیا گیا ہے مگر اس میں آسمان و زمین، ان کے اندر پائے جانے والے تمام اجرام فلکی اور دوسری تمام مخلوقات بھی شامل ہیں اور وہ سب اللہ کی ملکیت ہیں۔ کیونکہ یہ زمین آسمانوں کے اندر ہے اور ہر آسمان اپنے سے اوپر والے آسمان کے اندر ہے اور سب سے اوپر والا آسمان عرش کے اندر ہے اور اللہ سبحانہ عرش عظیم کا مالک ہے، جیسا کہ آگے آیت (٢٢) میں آ رہا ہے : (فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ ) تو اس سے عقلاً یہ بات ثابت ہوئی کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے اور ملک یعنی بادشاہ بھی۔ (بقاعی)- وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ : یعنی عرش اٹھانے والے (حاقہ : ١٧) اور دوسرے فرشتے اور اللہ کی وہ مخلوق جسے وہی جانتا ہے۔ یعنی اتنی عظمت والے فرشتے جب ہمیشہ اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے بڑا نہیں سمجھتے تو پھر انسان کی کیا بساط ہے کہ اپنے آپ کو اس کی عبادت سے بالا تر سمجھے ؟- وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ : ” حَسَرَ یَحْسِرُ حُسُوْرًا (ض) “ تھک کر رہ جانا۔ سورة ملک میں ہے : (يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِيْرٌ) [ الملک : ٤ ] ” نظر ناکام ہو کر تیری طرف پلٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔ “ یہاں ایک سوال ہے کہ ” يَسْتَحْسِرُوْنَ “ باب استفعال سے ہے جس میں طلب کا معنی پایا جاتا ہے، یا حروف میں اضافے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ ہوجاتا ہے، یہاں باب استفعال لانے میں کیا نکتہ ہے ؟ اہل علم نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ” وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ أَيْ لَا یَطْلُبُوْنَ أَنْ یَّنْقَطِعُوْا عَنْ ذٰلِکَ فَأَنْتَجَ ذٰلِکَ قَوْلُہُ ” ۚيُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ “ ” یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے تھکنا چاہتے ہی نہیں اور انھیں اس کی طلب ہی نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ رات دن اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں، وقفہ نہیں کرتے۔ “ (بقاعی) اس کا سب سے اچھا جواب وہ ہے جو ابوالسعود اور آلوسی ; نے دیا ہے کہ جب حرف نفی مبالغہ کے لفظ پر آئے تو مراد مبالغہ کی نفی نہیں ہوتی بلکہ نفی میں مبالغہ ہوتا ہے، جیسا کہ ” وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ “ کا معنی یہ نہیں ہوگا کہ ” تیرا رب بندوں پر بہت زیادہ ظلم کرنے والا نہیں “ بلکہ یہ ہوگا کہ ” تیرا رب بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں۔ “ دیکھیے سورة آل عمران (١٨٢) اور انفال (٥١) چناچہ ” وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ “ کا معنی ہوگا ” اور وہ ذرا برابر نہیں تھکتے۔ “ ” لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ “ کی بھی یہی توجیہیں ہیں۔ اس کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورة نحل (٤٩، ٥٠) اور نساء (١٧٢) ۔
وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ ، یعنی ہمارے جو بندے ہمارے پاس ہیں مراد اس سے فرشتے ہیں وہ ہر وقت ہماری عبادت میں بغیر کسی وقفہ کے ہمیشہ مشغول رہتے ہیں اگر تم ہماری عبادت نہ کرو تو ہماری خدائی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ انسان چونکہ دوسروں کو بھی اپنے حال پر قیاس کرنے کا عادی اور خوگر ہوتا ہے اس کو دائمی عبادت سے دو چیزیں مانع ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ کسی کی عبادت کرنے کو اپنے درجہ اور مقام کے خلاف سمجھے اس لئے عبادت کے پاس ہی نہ جائے دوسرے یہ کہ عبادت تو کرنا چاہتا ہے مگر دائمی مسلسل اس لئے نہیں کرسکتا کہ بمقتضائے بشریت وہ تھوڑا کام کر کے تھک جاتا ہے اس کو آرام کرنے اور سونے کی ضرورت پیش آتی ہے اس لئے آخر آیت میں فرشتوں سے ان دونوں موانع کی نفی کردی گئی کہ وہ نہ تو ہماری عبادت سے استکبار کرتے ہیں کہ اس کو اپنی شان کے خلاف جانیں اور نہ عبادت کرنے سے کسی وقت تھکتے ہیں اسی مضمون کی تکمیل بعد کی آیت میں اس طرح فرمائی
وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَمَنْ عِنْدَہٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا يَسْتَحْسِرُوْنَ ١٩ۚ- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - حسر - الحسر : كشف الملبس عمّا عليه، يقال :- حسرت عن الذراع، والحاسر : من لا درع عليه ولا مغفر، والمِحْسَرَة : المکنسة، وفلان کريم المَحْسَر، كناية عن المختبر، وناقة حَسِير : انحسر عنها اللحم والقوّة، ونوق حَسْرَى، والحاسر : المُعْيَا لانکشاف قواه، ويقال للمعیا حاسر ومحسور، أمّا الحاسر فتصوّرا أنّه قد حسر بنفسه قواه، وأما المحسور فتصوّرا أنّ التعب قد حسره، وقوله عزّ وجل : يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] ، يصحّ أن يكون بمعنی حاسر، وأن يكون بمعنی محسور، قال تعالی: فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً [ الإسراء 29] . والحَسْرةُ : الغمّ علی ما فاته والندم عليه، كأنه انحسر عنه الجهل الذي حمله علی ما ارتکبه، أو انحسر قواه من فرط غمّ ، أو أدركه إعياء من تدارک ما فرط منه، قال تعالی: لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ، وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] ، وقال تعالی: يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] ، وقال تعالی: كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] ، وقوله تعالی: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] ، وقوله تعالی: في وصف الملائكة : لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] ، وذلک أبلغ من قولک : ( لا يحسرون) .- ( ح س ر ) الحسر - ( ن ض ) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور حسرت عن الذارع میں نے آستین چڑھائی الحاسر بغیر زرہ مابغیر خود کے ۔ المحسرۃ فلان کریم الحسر کنایہ یعنی ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اور کمزور اونٹنی جسکا گوشت اور قوت زائل ہوگئی ہو اس کی جمع حسریٰ ہے الحاسر ۔ تھکا ہوا ۔ کیونکہ اس کے قویٰ ظاہر ہوجاتے ہیں عاجز اور درماندہ کو حاسربھی کہتے ہیں اور محسورۃ بھی حاسرۃ تو اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے خود اپنے قوٰی کو ننگا کردیا اور محسور اس تصور پر کہ درماندگی نے اس کے قویٰ کو ننگا دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] تو نظر ( ہر بار ) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔ میں حسیر بمعنی حاسرۃ بھی ہوسکتا ہے اور کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہوکر بیٹھ جاؤ ۔ الحسرۃ ۔ غم ۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا گویا وہ جہالت اور غفلت جو اس کے ارتکاب کی باعث تھی وہ اس سے دیر ہوگئی یا فرط غم سے اس کے قوی ننگے ہوگئے یا اس کوتاہی کے تدارک سے اسے درماند گی نے پالیا قرآن میں ہے : ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کردے ۔ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] نیز یہ کافروں کے لئے ( موجب ) حسرت ہے ۔ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا ۔ يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] بندوں پر افسوس ہے اور فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] وہ اس کی عبادت سے نہ کنیا تے ہیں اور نہ در ماندہ ہوتے ہیں ۔ اس میں سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔
(١٩۔ ٢٠) تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں جو اللہ کے نزدیک مقرب فرشتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت سے عار نہیں کرتے، دن رات اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں کسی وقت بھی عبادت خداوندی اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری سے اکتاتے نہیں۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :18 یہاں سے توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر گفتگو شروع ہوتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان اصل بنائے نزاع تھی ۔ اب مشرکین کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ کائنات کا یہ نظام جس میں تم جی رہے ہو ( جس کے متعلق ابھی یہ بتایا جا چکا ہے کہ یہ کسی کھلندڑے کا کھلونا نہیں ہے ، جس کے متعلق یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ ایک سنجیدہ اور با مقصد اور مبنی بر حقیقت نظام ہے ، اور جس کے متعلق یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ اس میں باطل ہمیشہ حقیقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ہے ) اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس پورے نظام کا خالق ، مالک ، حاکم اور رب صرف ایک خدا ہے ، اور اس حقیقت کے مقابلے میں باطل یہ ہے کہ اسے بہت سے خداؤں کی مشترک سلطنت سمجھا جائے ، یا یہ خیال کیا جائے کہ ایک بڑے خدا کی خدائی میں دوسرے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا بھی کچھ دخل ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :19 یعنی وہی فرشتے جن کو مشرکین عرب خدا کی اولاد سجھ کر ، یا خدائی میں دخیل مان کر معبود بنائے ہوئے تھے ۔