ۚيُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَايَفْتُرُوْنَ :” اَلْفُتُوْرُ “ کا معنی کسی کام سے رک جانا ہے، جیسا کہ فرمایا : (قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰي فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ ) [ المائدۃ : ١٩ ] ” بیشک تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے، جو تمہارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے، رسولوں کے ایک وقفے کے بعد۔ “ یعنی فرشتے رات دن اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، کبھی نہیں رکتے، وقفہ نہیں کرتے۔ یہاں ایک سوال ہے جو عبداللہ بن حارث بن نوفل نے کعب احبار سے کیا کہ آپ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے متعلق فرمایا : (ۚيُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَايَفْتُرُوْنَ ) تو کیا انھیں آپس کی بات چیت، پیغمبروں کو وحی پہنچانا اور دوسرے کام تسبیح میں رکاوٹ نہیں بنتے ؟ انھوں نے فرمایا : ” بیٹا اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تسبیح ایسے ہی کردی ہے جیسے تمہارے لیے سانس لینا کردیا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ تم بات کرتے ہوئے سانس لیتے جاتے ہو اور چلتے ہوئے سانس لیتے رہتے ہو ؟ “ [ طبری من طرق یقوي أحدھما الآخر، حکمت بن بشیر ] دن رات بغیر وقفے کے تسبیح سے مراد مبالغہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بہت زیادہ تسبیح کرتے ہیں، جیسے کہتے ہیں کہ فلاں تمہاری ہر وقت تعریف کرتا ہے، یا میں دن رات تمہیں یاد کرتا ہوں وغیرہ۔ مفسر آلوسی نے اس توجیہ کی تعریف کی ہے۔ (روح المعانی) یا جس طرح ام المومنین عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا : ( کَان النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ أَحْیَانِہِ ) [ مسلم، الحیض، باب ذکر اللہ في حال الجنابۃ وغیرھا : ٣٧٣ ]” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ “ ظاہر ہے آپ اپنی انسانی ضروریات، دعوت و تبلیغ اور جہاد کے لیے بات بھی کرتے تھے، کھاتے پیتے اور سوتے بھی تھے، اس کے باوجود اللہ کی یاد سے دل غافل نہیں ہوتا تھا۔ یہ توجیہ کعب احبار کی توجیہ سے ملتی جلتی ہے۔
يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَايَفْتُرُوْنَ ، یعنی فرشتے رات دن تسبیح کرتے رہتے ہیں کسی وقت سست بھی نہیں ہوتے۔- عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے کعب احبار سے پوچھا کہ کیا فرشتوں کو تسبیح کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں، اگر ہے تو پھر دوسرے کاموں کے ساتھ ہر وقت کی تسبیح کیسے جاری رہتی ہے۔ کعب نے فرمایا اے میرے بھتیجے کیا تمہارا کوئی کام اور مغشلہ تمہیں سانس لینے سے روکتا ہے اور کام کرنے میں مخل و مانع ہوتا ہے حقیقت یہی ہے کہ تسبیح فرشتوں کے لئے ایسی ہے جیسے ہمارا سانس یا آنکھ جھپکنا کہ یہ دونوں چیزیں ہر وقت ہر حال میں جاری رہتی ہیں اور کسی کام میں مانع اور مخل نہیں ہوتیں (قرطبی و بحر محیط)
يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ لَا يَفْتُرُوْنَ ٢٠- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو :- وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - فتر - الفُتُورُ : سکون بعد حدّة، ولین بعد شدّة، وضعف بعد قوّة . قال تعالی: يا أَهْلَ الْكِتابِ قَدْ جاءَكُمْ رَسُولُنا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ [ المائدة 19] ، أي : سکون حال عن مجیء رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم، وقوله : لا يَفْتُرُونَ [ الأنبیاء 20] ، أي : لا يسکنون عن نشاطهم في العبادة . وروي عن النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أنه قال : «لكلّ عالم شرّة، ولكلّ شرّة فَتْرَةٌ ، فمن فَتَرَ إلى سنّتي فقد نجا وإلّا فقد هلك» «1» فقوله :«لكلّ شرّة فترة» فإشارة إلى ما قيل : للباطل جولة ثمّ يضمحلّ ، وللحقّ دولة لا تذلّ ولا تقلّ. وقوله : «من فَتَرَ إلى سنّتي» أي : سکن إليها، والطّرف الفَاتِرُ : فيه ضعف مستحسن، والفِتْرُ : ما بين طرف الإبهام وطرف السّبّابة، يقال : فَتَرْتُهُ بِفِتْرِي، وشبرته بشبري .- ( ف ت ر ) الفتور کے معنی تیزی کے بعد ٹھہر نے سختی کے بعد نرم اور قوت کے بعد کمزور پڑجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَهْلَ الْكِتابِ قَدْ جاءَكُمْ رَسُولُنا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ [ المائدة 19] اے اہل کتاب پیغمبروں کے آنے کا سلسلہ جو ایک عرصہ تک منقطع رہا تو اب تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آگئے ہیں ۔ یعنی سلسلہ رسالت کے منقطع اور ماند پڑجانے کے بعد آنحضرت تشریف لے آئے ہیں آیت کریمہ : ۔ لا يَفْتُرُونَ [ الأنبیاء 20] کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ عبادت میں سر گرم رہتے ہیں اور کبھی سست نہیں پڑتے اور ایک روایت میں ہے کہ ہر عالم میں تیری ہوتی ہے اور ہر تیزی کے بعد فترۃ یعنی سکون ہوتا ہے تو جو شخص میری سنت سے سکون حاصل کریگا وہ نجات یافتہ ہے ورنہ نہ وہ ہلاک ہوگا پس بکل شرۃ فترۃ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باطن میں پہلے پہل تو جوش ہوتا ہے مگر جلدی ہی مضمحل ہوجاتا ہے اور حق کی سلطنت کبھی ذلیل یا کمزور نہیں ہوتی ۔ اور من الیٰ سنتی کے معنی سنت نبوی کی پناہ میں سکون حاصل کرنے کے ہیں ۔ الطراف الفاتر لگاہ مست اور یہ اچھی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ الفتر انگشت شہادت اور انگوٹھے کے درمیان کا فاصلہ اور شبرتہ بشیری کی طرح فترتہ بفرتی کا محاورہ ہے جس کے معنی انگوٹھا اور انگشت شہادت کے ساتھ کسی چیز کو ناپنے کے ہیں