3۔ 1 یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو۔
[٤] قریش مکہ قرآن کی دعوت کے شدید مخالف تھے لیکن اس کے انداز بیان، فصاحت و بلاغت اور جادو کی سی تاثیر کے وہ خود بھی معترف تھے اور قرآن کو اسی لحاظ سے جادو کہتے تھے اور اس جادو کو روکنے کا طریقہ ابتداًء انہوں نے یہ اختیار کرلیا تھا کہ سب قریشی سرداروں نے مل کر یہ معاہدہ کیا کہ جہاں تک ہوسکے قرآن کے سننے اور پڑھنے پر پابندی لگا دی جائے۔ سننے پر پابندی تو انہوں نے اپنے آپ پر لگائی تھی مگر یہ قریشی سردار خود بھی اس پابندی کو نباہ نہ سکے اور خود بھی چوری چھپے قرآن سن لیتے تھے کیونکہ ان کے دل اور ان کے کام قرآن کی لذت سے محظوظ ہونا چاہتے تھے۔ چناچہ ایک دفعہ تین سردار رات کے وقت کعبہ کے گرد کھڑے ہو کر آپ کا قرآن سن رہے تھے۔ بعد میں یہ راز فاش ہوگیا تو ان میں سے ایک سردار نے ابو جہل سے پوچھا کہ جو قرآن تم نے سنا ہے اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ اس نے اس سوال کا صحیح جواب دینے کے بجائے رخ کو دوسرا طرف موڑ دیا اور کہا کہ ہم اور بنی عبدمناف سب باتوں میں ایک دوسرے کے ہم پلہ تھے، اب ہم ان کے نبی کو تسلیم کرکے ان کی اس برتری کو کیسے تسلیم کرسکتے ہیں ( ابن ہشام : ص ١٠٨) ابو جہل کے اس جواب سے دو باتوں کا صاف طور پر پتا چلتا ہے۔ ایک یہ کہ سب قریشی سردار قرآن کی تاثیر سے متاثر تھے اور دوسری یہ بات کہ آپ کی نبوت کو تسلیم کرنے میں صرف یہ بات آڑے نہیں آرہی تھی کہ آپ بشر تھے بلکہ اس کی اور بھی کئی وجوہ تھیں۔- اور قرآن کو اونچی آواز سے پڑھنے پر پابندی ان لوگوں نے مسلمان پر لگا رکھی تھی۔ کیونکہ انھیں یہ خطرہ تھا کہ قرآن سن کر ان کی عورتیں اور ان کے بچے متاثر ہوجاتے ہیں اور یہ پابندی مسلمانوں پر ہجرت نبوی تک قائم رہی۔ علاوہ ازیں ایک تدبیر انہوں نے یہ اختیار کی تھی کہ جب کہیں قرآن پڑھا جارہا ہو تو وہاں خوب شوروغل مچاؤ تاکہ قرآن کی آواز کسی کے کان میں پڑنے ہی نہ پائے۔ یہ تھے وہ طریقے جو انہوں نے اس جادو کے شر سے بچنے کے لئے اختیار کئے تھے۔
لَاهِيَةً قُلُوْبُهُمْ ۭ وَاَسَرُّوا النَّجْوَي ۔۔ : ” لَاهِيَةً “ ” لَہِیَ یَلْھٰی “ (ع) یا ” لَھَا یَلْھُوْ “ (ن) سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے۔ ” لَھْوٌ“ وہ چیز ہے جو انسان کو اس کے ضروری اور اہم کاموں سے کسی اور کام میں مشغول کر دے۔ (راغب) جیسا کہ مادہ پرست لوگ آخرت کی فکر چھوڑ کر صرف دنیا کی طلب میں مشغول ہیں۔ آج کل کے علوم و فنون سائنس، آرٹ وغیرہ میں کوئی چیز ایسی نہیں جو آخرت کی یاد دلانے والی ہو، بلکہ یہ سب روشن خیالیاں دن بدن موت اور آخرت کی فکر سے دور لے جا رہی ہیں۔ مزید دیکھیے سورة روم (٦، ٧) ۔- وَاَسَرُّوا النَّجْوَي : یہاں نحو کا ایک مشہور سوال ہے کہ جب فاعل ظاہر ہو تو خواہ وہ واحد ہو یا تثنیہ یا جمع، فعل واحد کے صیغے کے ساتھ آتا ہے۔ یہاں ” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “ فاعل ظاہر ہونے کے باوجود فعل جمع کے صیغے کے ساتھ کیوں آیا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ” وَاَسَرُّوا “ کا فاعل ضمیر جمع ہے اور ” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “ اس سے بدل ہے، یعنی کفار نے باہمی خفیہ مشورے سے لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور رکھنے کے لیے خفیہ مشاورت کرکے طے کیا کہ لوگوں سے یہ کہو اور خفیہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ ان کی طے کردہ بات ہے تو وہ اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔ - هَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۔۔ : یعنی یہ کوئی فرشتہ نہیں ہے، بلکہ تمہاری طرح کا ایک انسان ہے، اب جو یہ معجزات دکھاتا ہے اور اس کلام کو سن کر لوگ گرویدہ ہو رہے ہیں تو یہ سب جادو ہے۔ کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دو طرح سے طعن کیا، ایک یہ کہ آپ بشر ہیں اور بشر نبی نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی ہے، مثلاً دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٩٤) ، تغابن (٦) ، قمر (٢٤) ، مومنون (٣٣، ٣٤) ، فرقان (٧) اور ابراہیم (١٠) پہلے کفار و مشرکین کہتے تھے کہ بشر نبی نہیں ہوسکتا، آج کل کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہوسکتا، بات ایک ہی ہے، (بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْن) [ المؤمنون : ٨١ ] ” بلکہ انھوں نے کہا جیسے پہلوں نے کہا تھا۔ “ اللہ تعالیٰ نے آگے اس کا رد فرمایا۔ دوسرا طعن یہ تھا کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ جادو ہے۔ کفار کا یہ طعن بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، مثلاً دیکھیے سورة مدثر (٢٤) اور ذاریات (٥٢) ۔
اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ، یعنی یہ لوگ آپس میں آہستہ آہستہ سرگوشی کر کے یہ کہتے ہیں کہ یہ جو اپنے کو نبی اور رسول کہتے ہیں یہ تو ہم جیسے ہی انسان ہیں کوئی فرشتہ تو ہیں نہیں کہ ہم ان کی بات مان لیں اور پھر اس کلام الٰہی کو جو ان کے سامنے پڑھا جاتا تھا اور اس کی حلاوت و بلاغت اور دلوں میں تاثیر کا کوئی کافر بھی انکار نہ کرسکتا تھا، اس سے لوگوں کو ہٹانے کی صورت یہ نکالی کہ اس کو سحر اور جادو قرار دیں اور پھر لوگوں کو اسلام سے روکنے کے لئے یہ کہیں کہ جب تم سمجھ گئے کہ یہ جادو ہے تو پھر ان کے پاس جانا اور یہ کلام سننا دانشمندی کے خلاف ہے شاید یہ گفتگو آپس میں آہستہ اس لئے کرتے تھے کہ مسلمان سن لیں گے تو ان کی احمقانہ تلبیس کا پول کھول دیں گے۔
لَاہِيَۃً قُلُوْبُہُمْ ٠ۭ وَاَسَرُّوا النَّجْوَي ٠ۤۖ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ٠ۤۖ ہَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ٠ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ٣- لهي - أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها .- الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کرامت بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - سرر (كتم)- والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] - ( س ر ر ) الاسرار - السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ - نجو) سرگوشي)- والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا - [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80]- ( ن ج و )- النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
(٣) ان لوگوں کے دل یوم حشر سے بالکل غافل ہیں اور یہ ظالم لوگ یعنی مشرکین مکہ ابوجہل اور اس کے ساتھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تکذیب کے بارے میں آپس میں چپکے چپکے سرگوشی کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم جیسے ایک معمولی آدمی ہیں تو کیا پھر بھی ان کے سحر میں مبتلا ہو اور جھوٹ سنتے جاتے، حالانکہ تم خوب جانتے ہو، کہ یہ جادو اور جھوٹ ہے۔
آیت ٣ ( لَاہِیَۃً قُلُوْبُہُمْ ط) ” - ان کا غیر سنجیدہ رویہ اس حد تک ان کے دلوں میں گھر کر گیا ہے کہ انہوں نے زندگی کو بھی ایک کھیل ہی سمجھ رکھا ہے۔- (ہَلْ ہٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ج) ” - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام اللہ سن کر اگر ان کا کوئی ساتھی متاثر ہوتا تو اسے الگ لے جا کر بڑے ناصحانہ انداز میں سمجھاتے کہ ارے تم خواہ مخواہ اپنے جیسے ایک انسان کو اللہ کا رسول اور اس کی باتوں کو اللہ کا کلام سمجھ رہے ہو۔ اس کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔- (اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ) ” - تم جانتے بھی ہو کہ یہ کلام وغیرہ سب جادو کا کمال ہے۔ تو کیا تم جانتے بوجھتے ہوئے اس کا شکار ہونے جا رہے ہو ؟ ان کی اس طرح کی سرگرمیوں کی خبریں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک بھی پہنچتی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقیناً اس سے بہت صدمہ پہنچتا ہوگا کہ اگر کوئی اللہ کا بندہ ہدایت قبول کرنے پر آمادہ ہوا تھا تو اس کو پھر ورغلا کر بھٹکا دیا گیا ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے آپس کے شیطانی مشوروں کا سنتے تو یوں فرماتے :
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :5 پھنسے جاتے ہو بھی ترجمہ ہو سکتا ہے ، اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں ۔ سرگوشیاں کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار آپس میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا مقابلہ کرنے کی بڑی فکر لاحق تھی وہ کہتے تھے یہ شخص بہرحال نبی تو ہو نہیں سکتا ، کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے ، کھاتا ہے ، پیتا ہے ، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ، بیوی بچے رکھتا ہے ۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہو اور ہماری بہ نسبت اس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو ؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اور اس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا کر سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو اس کی سنو اور نہ اس سے میل جول رکھو ، کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے ۔ جس چیز کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق ( متوفی 152 ھ ) نے بیان کی ہیں ۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن رَبیعہ ( ابو سفیان کے خسر ، ہند جگر خور کے باپ ) نے سرداران قریش سے کہا ، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں ۔ یہ حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابر قریش سخت پریشان ہو رہے تھے ۔ لوگوں نے کہا ابو الولید ، تم پر پورا اطمینان ہے ، ضرور جا کر اس سے بات کرو ۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ، بھتیجے ، ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی ، تم خود جانتے ہو ، ور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو ۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو ؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھہرایا ۔ اس کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی ۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنا یا ۔ بھتیجے ، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ ۔ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار مانے لیتے ہیں ۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں ۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کرائے دیتے ہیں ۔ یہ باتیں وہ کرتا رہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش سنتے رہے ۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپ نے فرمایا ابوالولید ، جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں ، یا اور کچھ کہنا ہے ۔ اس نے کہا بس مجھے جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا ۔ آپ نے فرمایا اچھا اب میری سنو ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ، حٰمٓ ، تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اس کے بعد کچھ دیر تک مسلسل آپ سورہ حٰم السجدہ کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا ۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپ نے سجدہ کیا ، اور پھر سر اٹھا کر عتبہ سے فرمایا ، ابو الولید ، جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا ، اب آپ جانیں اور آپ کا کام ۔ عتبہ یہاں سے اٹھ کر سرداران قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں نے دور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا خدا کی قسم ، ابوالولید کا چہرا بدلا ہوا ہے ۔ یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر وہ گیا تھا ۔ اس کے پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا ، کہو ابوالولید ، کیا کر آئے ہو ؟ اس نے کہا خدا کی قسم ، آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا ۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے ، نہ سحر ہے اور نہ کہانت ۔ اے معشر قریش ، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ اس کی باتیں جو میں نے سنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی ۔ اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہو گا ، دوسروں پر ہو گا ۔ اور اگر یہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہو گی ۔ اور اس کی عزت تمہاری عزت ۔ لوگوں نے کہا واللہ ، ابوالولید تم پر بھی اس کا جادو چل گیا ۔ اس نے کہا یہ میری رائے ہے ، اب تم جانو اور تمہارا کام ۔ ( ابن ہشام ، جلد اول ، ص 313 ۔ 314 ) ۔ بیہقی نے اس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سورہ حٰم سجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچے کہ : فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃ عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ ، تو عتبہ نے بے اختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو ۔ دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلہ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ آیا ۔ ابو جہل نے اس کے اونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا ۔ اَرَشی نے تنگ آ کر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کر دی ۔ دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ۔ سرداران قریش نے اس شخص سے کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ، دیکھو ، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں ، ان سے جا کر کہو ، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے ۔ اَرَشی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا ، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا آج لطف آئے گا ۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی ۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان کی طرف روانہ ہو گئے ۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ابو جہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی ۔ اس نے پوچھا کون ؟ آپ نے جواب دیا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا ۔ آپ نے اس سے کہا اس شخص کا حق ادا کر دو ۔ اس نے جواب میں کوئی چوں و چرا نہ کی ، اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی ۔ قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا ، حَکَم بن ہشام ( ابو جہل ) جب نکلا ہے تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا اور جب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام کے جسم میں جان نہیں ہے ۔ ( ابن ہشام ، جلد 2 ، ص 29 ۔ 30 ) ۔ یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر ، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا ۔