2۔ 1 یعنی قرآن جو وقتاً فوقتاً حسب حالات و ضروریات نیا نیا اترتا رہتا ہے، وہ اگرچہ انہی کی نصیحت کے لئے اترتا ہے، لیکن وہ اسے اس طرح سنتے ہیں جیسے وہ اس سے استہزاء مذاق اور کھیل کر رہے ہوں یعنی اس میں تدبر و غور و فکر نہیں کرتے۔
[٣] نئی نصیحت سے مراد کوئی نئی سورت ہے۔ یعنی جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو اسے سن کر بھی ان سنی کردیتے ہیں۔ دنیا کے کاروبار اور مشاغل میں ایسے منہمک ہیں کہ ان آیات الٰہی میں غور کرنے کی نہ انھیں فرصت ملتی ہے اور نہ اس کی ضرورت یا اہمیت سمجھتے ہیں۔ پس اپنے دنیا کے دھندوں میں ہی مست رہتے ہیں۔
مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ ۔۔ :” اِلَّا اسْتَـمَعُوْهُ “ ” سَمِعَ یَسْمَعُ “ کا معنی سننا ہے، باب افتعال میں تاء کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، جو موقع کی مناسبت سے خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے۔ عام طور پر ” اِسْتَمَعَ “ کا معنی کان لگا کر سننا آتا ہے، مگر ظاہر ہے کہ کفار کے لیے نصیحت کو کان لگا کر سننا مشکل ہے، خصوصاً جب وہ اس کا مذاق اڑا رہے ہوں، اس لیے معنی کیا گیا ہے ” مگر وہ اسے مشکل سے سنتے ہیں۔ “- پچھلی آیت میں لوگوں کے غفلت میں گرفتار ہونے اور منہ موڑنے کا ذکر تھا۔ اس آیت میں بتایا کہ انھیں اس غفلت سے بیدار کرنے کے لیے ان کے رب کی طرف سے قرآن و سنت کی صورت میں نئی سے نئی نصیحت آتی رہتی ہے، مگر قبول کرنا تو دور کی بات، وہ اسے توجہ اور اطمینان سے سنتے بھی نہیں، بلکہ کھیلتے اور مذاق اڑاتے ہوئے بڑی مشکل اور گرانی سے سنتے ہیں۔ - ” ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ “ (ان کے رب کی طرف سے نصیحت) سے معلوم ہو رہا ہے کہ رب تعالیٰ صرف کھانے پینے اور دنیوی ضرورتیں پوری کرنے والا رب اور پروردگار ہی نہیں بلکہ انسان کی روحانی ضرورتیں اور آخرت کی نجات کی ضامن چیزوں کو مہیا کرنے والا رب بھی ہے۔ - مُّحْدَثٍ کا معنی ” نیا “ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے لوگوں کی طرف قرآن اور حدیث کی صورت میں نئی سے نئی نصیحت آتی رہتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جو چاہے کلام کرسکتا ہے۔ بعض لوگوں نے قرآن کو اللہ تعالیٰ کا کلام ماننے سے انکار کردیا، بلکہ اسے مخلوق قرار دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا ناممکن ہے۔ اس بحث کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٤٣) ، توبہ (٦) اور کہف (١٠٩) ۔
مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَـمَعُوْهُ وَهُمْ يَلْعَبُوْنَ ، لَاهِيَةً قُلُوْبُهُمْ جو لوگ آخرت اور قبر کے عذات سے غفلت اور اس کے لئے تیاری سے اعراض کرنے والے ہیں یہ ان کے حال کا مزید بیان ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کی کوئی نئی آیت آتی اور پڑھی جاتی ہے تو وہ اس کو اس حالت میں سنتے ہیں کہ کھیل اور ہنسی مذاق کرتے ہیں اور ان کے دل اللہ سے اور آخرت سے بالکل غافل ہوتے ہیں اس کی یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ قرآن کی آیات سننے کے وقت یہ اپنے کھیل اور شغل میں اسی طرح لگے رہتے ہیں قرآن کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ خود آیات قرآن ہی سے کھیل اور ہنسی مذاق کا معاملہ کرنے لگتے ہیں۔
مَا يَاْتِيْہِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّہِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَـمَعُوْہُ وَہُمْ يَلْعَبُوْنَ ٢ۙ- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- حدث - الحدوث : كون الشیء بعد أن لم يكن، عرضا کان ذلک أو جوهرا، وإِحْدَاثه : إيجاده .- وإحداث الجواهر ليس إلا لله تعالی، والمُحدَث : ما أوجد بعد أن لم يكن، وذلک إمّا في ذاته، أو إحداثه عند من حصل عنده، نحو : أحدثت ملکا، قال تعالی: ما يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ [ الأنبیاء 2] ، ويقال لكلّ ما قرب عهده محدث، فعلا کان أو مقالا . قال تعالی: حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً [ الكهف 70] ، وقال : لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] ، وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له :- حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3]- ( ح د ث ) الحدوث )- ( ن) کے معنی ہیں کسی ایسی چیز کو جود میں آنا جو پہلے نہ ہو عام اس سے کہ وہ جوہر ہو یا عرض اور احداث صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ محدث ( صیغہ صفت مفعول ) ہر وہ چیز جو عدم سے وجود میں آئی ہو اور کسی چیز کا احداث کبھی تو نفس شے کے اعتبار سے ہوتا ہے اور کبھی اس شخص کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔ جسے وہ حاصل ہوئی ہو ۔ جیسے ۔ احدثت ملکا ) میں نے نیا ملک حاصل کیا ) چناچہ آیت کریمۃ ؛۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ [ الأنبیاء 2] ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی ( میں اسی دوسرے معنی کے اعتبار ذکر کو محدث کہا گیا ہے اور ہر وہ قول و فعل جو نیا ظہور پذیر ہوا ہو اسے بھی محدث کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً [ الكهف 70] جب تک میں خود ہی پہل کرکے تجھ سے بات نہ کروں ۔ لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] شاید خدا اس کے بعد کوئی ( رجعت کی ) سبیل پیدا کردے ۔ ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری ) قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ - اسْتِمَاعُ :- الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» .- استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے ۔- لعب - أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ،- ( ل ع ب ) اللعب - ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64]
(٢) ان کے نبی کے پاس ان کے رب کی طرف بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) جو نصیحت تازہ آتی ہے۔- یعنی قرآن کریم کی ایک آیت کے بعد دوسری آیت اور ایک سورت کے بعد دوسری سورت نازل ہوتی ہے تو جبریل امین (علیہ السلام) کی تشریف آوری اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کے سامنے آیات قرآنیہ کا تلاوت کرنا، اور ان کا سننا یہ سب چیزیں تازہ اور نئی ہیں تو یہ کفار مکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پڑھنے اور قرآن کریم کو اس طریقے سے سنتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔
آیت ٢ (مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّہِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْہُ وَہُمْ یَلْعَبُوْنَ ) ” - جب بھی ان کی طرف کوئی نئی وحی آتی ہے ‘ کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ اسے اپنے مخصوص لا ابالیانہ انداز میں ہی سنتے ہیں۔ وہ اللہ کے کلام کی طرف کبھی بھی سنجیدگی سے متوجہ نہیں ہوتے۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :3 یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سنائی جاتی ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :4 وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو اوپر ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے اور اس میں کھیل سے مراد یہی زندگی ہے جسے خدا اور آخرت سے غافل لوگ کھیل رہے ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے سنجیدگی کے ساتھ نہیں سنتے بلکہ کھیل اور مذاق کے طور پر سنتے ہیں ۔