جلدباز انسان ابوجہل وغیرہ کفار قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی ہنسی مذاق شروع کردیتے اور آپ کی شان میں بے ادبی کرنے لگتے ۔ کہنے لگتے کہ لو میاں دیکھ لو ، یہی ہیں جو ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں ۔ اللہ کے منکر ، رسول اللہ کے منکر اور آیت میں ان کے اسی کفر کا بیان کرکے فرمایا گیا ہے آیت ( ان کاد لیضلناعن الہتنا ) ۔ یعنی وہ تو کہیے ہم جمے رہے ورنہ اس نے تو ہمیں ہمارے پرانے معبودوں سے برگشتہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی ۔ خیر انہیں عذاب کے معائنہ سے معلوم ہوجائے گا کہ گمراہ کون تھا ؟ انسان بڑا جلدباز ہے ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کی پیدائش کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا شروع کیا شام کے قریب جب ان میں روح پھونکی گئی سر آنکھ اور زبان میں جب روح آگئی تو کہنے لگے الٰہی مغرب سے پہلے ہی میری پیدائش مکمل ہوجائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام دنوں میں بہتر وافضل دن جمعہ کا دن ہے اسی میں حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اسی میں جنت میں داخل ہوئے اسی میں وہاں سے اتارے گئے اسی میں قیامت قائم ہوگی اسی دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت جو بندہ نماز میں ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو کچھ طلب کرے اللہ اسے عطا فرماتا ہے آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کرکے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ وہ ساعت کون سی ہے وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے اسی وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ پہلی آیت میں کافروں کی بدبختی کا ذکر کرکے اس کے بعد ہی انسانی عجلت کا ذکر اس حکمت سے ہے کہ گویا کافروں کی سرکشی سنتے ہی مسلمان کا انتقامی جذبہ بھرک اٹھتا ہے اور وہ جلد بدلہ لینا چاہتا ہے اس لئے کہ انسانی جبلت میں جلدبازی ہے ۔ لیکن عادت الٰہی یہ ہے کہ وہ ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں ۔ اسی لئے فرمایا کہ میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھانے والا ہوں کہ عاصیوں پر کس طرح سختی ہوتی ہے ۔ میرے نبی کو مذاق میں اڑنے والوں کی کس طرح کھال ادھڑتی ہے تم ابھی دیکھ لوگے ۔ جلدی نہ مچاؤ دیر ہے اندھیر نہیں مہلت ہے بھول نہیں ۔
36۔ 1 اس کے باوجود یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہنسی و مذاق اڑاتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ ( اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا ۭ اَھٰذَا الَّذِيْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا) 25 ۔ الفرقان :41) جب اے پیغمبر یہ کفار مکہ تجھے دیکھتے ہیں تو تیرا مذاق اڑانے لگ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ؟
[٣٤] یعنی مشرکین مکہ کے نزدیک ان کے اپنے معبودوں کی شان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں بہت ارفع و اعلیٰ تھی۔ لہذا وہ آپ کو دیکھ کر از راہ مذاق و استہزا یوں کہتے کہ دیکھو یہ شخص ہے جو تمہارے معبودوں کی باتیں کرتا ہے (یعنی ان کے مقابلہ میں اس کی اوقات ہی کیا ہے ؟ ) حالانکہ آپ ان کے معبودوں کو نہ گالی دیتے تھے اور نہ برا بھلا کہتے تھے۔ اور کہتے تھے تو صرف یہ کہتے تھے کہ تمہارے یہ معبود تمہارا نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں۔ اور اسے ہی وہ اپنے لئے سب سے بڑی گالی سمجھتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے نزدیک آپ کے اس نظریہ سے ان کے معبودوں کی، ان کی اپنی اور ان کے آباؤ و اجداد کی سب کی توہین ہوجاتی تھی۔ اب وہ سنجیدگی سے معاملہ کو سمجھنے کی کوشش تو کرتے نہیں تھے۔ مگر ضد اور تعصب میں آکر آپ کا مذاق اڑانے لگتے تھے۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ جب اس ہستی کا ذکر ہوتا جو فی الواقعہ ہر ایک کے نفع و نقصان کی مالک ہے تو انھیں یہ تکلیف شروع ہوجاتی کہ اللہ اکیلے کا کیوں ذکر کرتا ہے اور ہمارے معبودوں کو کیوں ساتھ شامل نہیں کرتا، حالانکہ اللہ کو وہ خود بھی اپنے معبودوں سے بڑا معبود سمجھتے تھے اور جب موت سامنے کھڑی نظر آتی تو اسے ہی پکارتے تھے۔ لہذا اللہ اکیلے کو پکارنے میں بھی تکلیف ہوتی تھی۔ اور رحمن کے لفظ سے تو انھیں ویسے بھی چڑ تھی جیسا کہ پہلا سورة رعد کی آیت نمبر ٣٠ کے حاشیہ نمبر ٣٩ میں گزر چکا ہے۔
وَاِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا ۔۔ : ” هُـزُوًا “ مصدر بمعنی مفعول ہے، یعنی جسے مذاق کیا جائے۔ پچھلی آیت میں لوگوں کو خیر و شر کے ساتھ آزمانے کا ذکر فرمایا۔ بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑی خیر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہے اور آپ کی آمد لوگوں کے لیے سب سے بڑی آزمائش بھی ہے کہ کون نعمت کی قدر کرتے ہوئے آپ پر ایمان لاتا ہے اور کون ناشکری اور کفر کرتا ہے۔ اس آیت میں اس نعمت کے عطا ہونے پر ناشکری کرنے والے لوگوں یعنی کافروں کے رویے کا ذکر فرمایا کہ جب وہ آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کو مذاق ہی بناتے ہیں، سنجیدگی سے نہ کوئی بات سنتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں۔ - اَھٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ : یہ جملہ ان کے ٹھٹھے کی تفسیر ہے، یعنی وہ آپ کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے ؟ ذکر کرنے سے مراد اچھائی سے ذکر کرنا بھی ہوتا ہے اور برائی سے بھی، تعین اس کا حال کے قرینے سے ہوتا ہے، مثلاً کوئی شخص آپ سے آپ کے کسی دوست کے متعلق بیان کرتا ہے کہ وہ آپ کا ذکر کر رہا تھا، تو ظاہر ہے اس کی مراد یہی ہے کہ وہ آپ کی تعریف کر رہا تھا اور اگر آپ کے کسی مخالف کے متعلق بیان کرے کہ وہ آپ کا ذکر کر رہا تھا تو اس سے مراد یہی ہوگی کہ وہ برائی کے ساتھ آپ کا ذکر کر رہا تھا۔ جیسا کہ بت توڑنے والے کو تلاش کرتے ہوئے ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے لوگوں نے کہا تھا : (سَمِعْنَا فَـتًى يَّذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهٗٓ اِبْرٰهِيْمُ ) [ الأنبیاء : ٦٠ ] ” ہم نے ایک جوان کو سنا ہے، وہ ان کا ذکر کرتا ہے، اسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ “ ” اَھٰذَا “ (کیا یہی ہے) میں ہمزہ تعجب کے اظہار کے لیے اور ” ھٰذَا “ تحقیر کے لیے استعمال ہوا ہے۔ - وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ : یعنی ان کے معبودوں کا برائی سے ذکر کرنے پر آپ کا مذاق اڑانا انھیں کس طرح زیب دیتا ہے، جب کہ خود ان کا حال یہ ہے کہ وہ رحمٰن کے ذکر ہی سے منکر ہیں ؟ انھیں اس بیحد رحم والے کا ذکر گوارا نہیں جس نے انھیں پیدا کیا، ان پر انعام فرمایا اور جس اکیلے کے ہاتھ میں ان کا نفع اور ان کا نقصان ہے۔ پھر مذاق کے حق دار یہ لوگ ہیں یا ہمارا رسول ؟ ” بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ “ کی تفسیر بعض مفسرین نے قرآن مجید فرمائی ہے کہ (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ ) [ الحجر : ٩ ] یعنی وہ خود رحمٰن کے نازل کردہ ذکر کے منکر ہیں۔
وَاِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّـتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا ہُـزُوًا ٠ۭ اَھٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِہَتَكُمْ ٠ۚ وَہُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ ہُمْ كٰفِرُوْنَ ٣٦- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- هزؤ - والاسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] - ( ھ ز ء ) الھزء - - الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،
(٣٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوجہل اور اس کے ساتھی جب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ سے اپنی گفتگو میں مذاق کرنے لگتے ہیں اور آپس میں کہتے ہیں کیا یہی صاحب ہیں جو تمہارے بتوں کا برائی سے ذکر کرتے ہیں حالانکہ یہ خود اللہ تعالیٰ کے ذکر پر انکار اور کفر کیا کرتے ہیں اور بدبخت کہا کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو نہیں جانتے مسیلمہ کذاب جانتا ہے۔- شان نزول : ( آیت) ” واذا ارک الذین کفروا “۔ (الخ)- اور ابن ابی حاتم (رح) نے سدی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ابوجہل اور ابوسفیان کے پاس سے گزر ہوا یہ دونوں آپس میں گفتگو کررہے تھے جب ابوجہل نے آپ کو دیکھا تو بدبخت ہنسا اور ابوسفیان سے کہا کہ یہ بنی عبد مناف کے نبی ہیں، یہ سن کر ابوسفیان کو غصہ آیا اور کہا کیا تم اس بات کا انکار کرتے ہو کہ بنی عبد مناف میں کوئی نبی ہو غرض کہ دونوں کی یہ گفتگو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنی اور آپ ابوجہل کے پاس لوٹ کر آئے اور اس کو ڈرایا اور فرمایا کہ تو اس وقت تک اپنی باتوں سے باز نہیں آئے گا جب تک کہ تیرے اوپر بھی وہی عذاب نازل نہ ہو جو دوسروں پر ہوا اس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی یہ کافر لوگ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ سے مذاق کرنے لگتے ہیں۔
آیت ٣٦ (وَاِذَا رَاٰکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ہُزُوًا ط) ” - یہ مشرکین مختلف انداز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر استہزائیہ فقرے کستے ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے ہیں تو ایک دوسرے سے مخاطب ہو کر اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تمسخر اڑاتے ہیں :- (اَہٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرُ اٰلِہَتَکُمْ ج) ” - یعنی کہتا ہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ اور اس طرح ان کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتا ہے - (وَہُمْ بِذِکْرِ الرَّحْمٰنِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ ) ” - انہیں تو اپنے معبودوں کا ذکر اچھا لگتا ہے۔ لات و عزیٰ کا ذکر ہو تو یہ لوگ خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان کے دل بجھ جاتے ہیں۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :39 یعنی برائی کے ساتھ ان کا ذکر کرتا ہے ۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ فقرہ ان کے مذاق کا مضمون نہیں بتا رہا ہے ، بلکہ مذاق اڑانے کی وجہ اور بنیاد پر روشنی ڈال رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ فقرہ بجائے خود کوئی مذاق کا فقرہ نہیں ہے ۔ مذاق تو وہ دوسرے ہی الفاظ میں اڑاتے ہوں گے اور کچھ اور ہی طرح کے آوازے کستے اور فقرے چست کرتے ہوں گے ۔ البتہ یہ سارا دل کا بخار جس وجہ سے نکالا جاتا تھا وہ یہ تھی کہ آپ ان کے خود ساختہ معبودوں کی خدائی کا رد کرتے تھے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :40 یعنی بتوں اور بناوٹی خداؤں کی مخالفت تو انہیں اس قدر ناگوار ہے کہ اس کا بدلہ لینے کے لیے تمہاری تضحیک و تذلیل کرتے ہیں ، مگر انہیں خود اپنے حال پر شرم نہیں آتی کہ خدا سے پھرے ہوئے ہیں اور اس کا ذکر سن کر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں ۔
19: یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کی خدائی کی کوئی حقیقت نہیں، اس پر یہ لوگ عیب لگاتے ہیں کہ آپ ہمارے خداؤں کا برائی سے ذکر کر رہے ہیں، لیکن ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کا نام ’’ رحمن‘‘ ذکر کرتے ہیں تو یہ اس کا انکار کرتے ہیں کہ رحمن کیا ہوتا ہے؟ دیکھئے سورۃ فرقان : 60