جلدباز انسان ابوجہل وغیرہ کفار قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی ہنسی مذاق شروع کردیتے اور آپ کی شان میں بے ادبی کرنے لگتے ۔ کہنے لگتے کہ لو میاں دیکھ لو ، یہی ہیں جو ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں ۔ اللہ کے منکر ، رسول اللہ کے منکر اور آیت میں ان کے اسی کفر کا بیان کرکے فرمایا گیا ہے آیت ( اِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا لَوْلَآ اَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا ۭ وَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ حِيْنَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِيْلًا 42 ) 25- الفرقان:42 ) یعنی وہ تو کہیے ہم جمے رہے ورنہ اس نے تو ہمیں ہمارے پرانے معبودوں سے برگشتہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی ۔ خیر انہیں عذاب کے معائنہ سے معلوم ہوجائے گا کہ گمراہ کون تھا ؟ انسان بڑا جلدباز ہے ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کی پیدائش کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا شروع کیا شام کے قریب جب ان میں روح پھونکی گئی سر آنکھ اور زبان میں جب روح آگئی تو کہنے لگے الٰہی مغرب سے پہلے ہی میری پیدائش مکمل ہوجائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام دنوں میں بہتر وافضل دن جمعہ کا دن ہے اسی میں حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اسی میں جنت میں داخل ہوئے اسی میں وہاں سے اتارے گئے اسی میں قیامت قائم ہوگی اسی دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت جو بندہ نماز میں ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو کچھ طلب کرے اللہ اسے عطا فرماتا ہے آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کرکے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ وہ ساعت کون سی ہے وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے اسی وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ پہلی آیت میں کافروں کی بدبختی کا ذکر کرکے اس کے بعد ہی انسانی عجلت کا ذکر اس حکمت سے ہے کہ گویا کافروں کی سرکشی سنتے ہی مسلمان کا انتقامی جذبہ بھرک اٹھتا ہے اور وہ جلد بدلہ لینا چاہتا ہے اس لئے کہ انسانی جبلت میں جلدبازی ہے ۔ لیکن عادت الٰہی یہ ہے کہ وہ ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں ۔ اسی لئے فرمایا کہ میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھانے والا ہوں کہ عاصیوں پر کس طرح سختی ہوتی ہے ۔ میرے نبی کو مذاق میں اڑنے والوں کی کس طرح کھال ادھڑتی ہے تم ابھی دیکھ لوگے ۔ جلدی نہ مچاؤ دیر ہے اندھیر نہیں مہلت ہے بھول نہیں ۔
37۔ 1 یہ کفار کے متعلق عذاب کے جواب میں ہے کہ چونکہ انسان کی فطرت میں عجلت اور جلد بازی ہے اس لئے وہ پیغمبروں سے بھی جلدی مطالبہ کرنے لگ جاتا ہے کہ اپنے اللہ سے کہہ کہ ہم پر فوراً عذاب نازل کروا دے۔ اللہ نے فرمایا جلدی مت کرو، میں عنقریب اپنی نشانیاں تمہیں دکھاؤں گا۔ ان نشانیوں سے مراد عذاب بھی ہوسکتا ہے اور صداقت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دلائل وبراہین بھی۔
[٣٥] یعنی جلد بازی انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ وہ چاہتا یہ ہے کہ جو خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی ہے وہ جلد از جلد وقوع پذیر ہوجائے۔ خواہ یہ خواہش اچھی ہو یا بری۔ اس آیت میں چونکہ انسان کی فطرت کا ذکر ہوا ہے۔ لہذا اس آیت کے مخاطب مسلمان بھی ہوسکتے ہیں اور کافر بھی۔ بات یہ تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت اسلام کے سلسلہ میں قرآن میں مذکور وعید سنائی کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرو گے، ان کا مذاق اڑاؤ گے یا یہ راستہ روکو گے تو تم پر اللہ کا عذاب آئے گا۔ جیسا کہ سابقہ اقوام پر آچکا ہے۔ اب کافر یہ سوچتے تھے کہ اس دعوت کا علی الاعلان انکار بھی کر رہے ہیں اور صرف انکار ہی نہیں ان مسلمانوں پر سختیاں بھی کر رہے ہیں۔ اور اتنی مدت گزر چکی ہے تو ہمارا تو بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ لہذا اب وہ بےباک ہو کر کہنے لگے کہ یہ روز روز کی تکرار چھوڑو اور جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے ؟ اور ممکن ہے کہ بعض مسلمانوں کو بھی یہ خیال آتا ہو کہ ان ظالموں پر اگر فوراً عذاب آجائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ ہر کام کا میرے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے اور وقت معین ہے۔ لہذا اپنے وقت تمہیں ایسی سب نشانیاں دکھلا دی جائیں گی اور ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کی داغ بیل آپ کے واقعہ ہجرت سے ہی پڑگئی تھی۔
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ : کسی چیز کے وقت سے پہلے اس کا ارادہ عجلہ (جلد بازی) ہے، یعنی جلد بازی انسان کی فطرت میں شامل ہے، وہ پیدا ہی جلد باز کیا گیا، جیسا کہ فرمایا : (ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا) [ بني إسرائیل : ١١ ] ” اور انسان ہمیشہ سے بہت جلد باز ہے۔ “ ” جلد بازی سے پیدا کیا گیا ہے “ سے مراد مبالغہ ہے، جیسے فرمایا : (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ) [ الروم : ٥٤ ] ” اللہ وہ ہے جس نے تمہیں ضعف سے پیدا کیا۔ “- سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ : ” فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ “ اصل میں ” فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِيْ “ ہے۔ آیات کے آخری حروف کی موافقت کے لیے نون پر کسرہ باقی رکھ کر ” یاء “ حذف کردی گئی۔ اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے، ایک یہ کہ کفار کی شدید مخالفت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑانے پر مسلمان سخت غم زدہ اور پریشان تھے اور کفار پر جلد از جلد عذاب کے منتظر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو جلد بازی قرار دے کر تسلی دی کہ میں تمہیں اپنی نشانیاں ضرور دکھاؤں گا، مگر ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے، اس سے پہلے اس کا مطالبہ مت کرو۔ نشانیوں سے مراد کفار پر آنے والی آفات و مصائب ہیں، مثلاً بدر، احد، خندق، حدیبیہ اور فتح مکہ میں کفار کی شکست اور ان کے اقتدار کا خاتمہ۔ اس مطلب کا قرینہ یہ ہے کہ کفار کے عذاب جلدی لانے کے مطالبے کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان کی سرشت میں جلد بازی ہے، وہ کسی سے ناراض ہو اور اس کے پاس طاقت ہو تو وہ فوراً انتقام لیتا ہے۔ اپنی اس سرشت کے مطابق انھوں نے اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی یہ خیال کیا کہ اگر اس کے پاس انتقام کی طاقت ہوتی تو وہ فوراً عذاب نازل کردیتا، چناچہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے اور عذاب میں دیر کی وجہ سے بار بار اس کے جلد لانے کا مطالبہ کرتے۔ فرمایا، تم عذاب کے جلدی آنے کا مطالبہ کیوں کرتے ہو ؟ اب تک جو ہم نے تمہیں ڈھیل دی ہے اس میں ہماری کئی حکمتیں ہیں، جن میں سے تم پر حجت پوری کرنا اور تم میں سے کئی لوگوں کا اسلام قبول کرنا بھی ہے۔ اس سے تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ہمیں تمہاری کارستانیاں اور شرارتیں گوارا ہیں ؟ ذرا ٹھہرو ابھی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم تم سے کیسے انتقام لیتے ہیں۔ دنیا میں بھی قتل ہو گے اور ذلت و رسوائی برداشت کرنا پڑے گی اور آخرت میں بھی تمہیں جہنم کی آگ کا ایندھن بنایا جائے گا۔
جلد بازی مذموم :- خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ، عجل بمعنے عجلت اور جلدی کے ہے جس کی حقیقت کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے طلب کرنا ہے اور یہ وصف فی نفسہ مذموم ہے قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی اس کو انسانی کمزوری کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا یعنی انسان بڑا جلد باز ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب کوہ طور پر اپنی قوم سے آگے بڑھ کر حق تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو وہاں بھی اس عجلت پر عتاب ہوا اور انبیاء و صلحاء کے بارے میں جو مسارعت اور مسابقت فی الخیرات کو بطور مدح کے ذکر کیا گیا ہے وہ جلد بازی اور عجلت کے مفہوم میں داخل نہیں۔ کیونکہ وہ وقت سے پہلے کسی چیز کی طلب نہیں بلکہ وقت پر تکثیر خیرات و حسنات کی کوشش ہے واللہ اعلم - اور خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں جس طرح کچھ دوسری کمزوریاں رکھ دی گئی ہیں ان میں سے ایک کمزوری عجلت کی بھی ہے اور جو چیز طبیعت اور جبلت میں داخل ہوتی ہے عرب اس کو اسی عنوان سے تعبیر کرتے ہیں کہ یہ شخص اس چیز سے پیدا کیا گیا جیسے کسی کے مزاج میں غصہ غالب ہوگا تو کہا جائے گا کہ یہ غصہ کا بنا ہوا آدمی ہے۔- سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ ، اس میں آیات سے مراد وہ معجزات اور حالات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق و حقانیت پر شہادت دیتے ہیں (قرطبی) جیسے غزوہ بدر وغیرہ میں یہ نشانیاں کھلے طور پر ظاہر ہوئیں اور انجام کار ان مسلمانوں کا غلبہ سب کی آنکھوں نے دیکھ لیا جن کو سب سے زیادہ ضعیف و ذلیل سمجھا جاتا تھا۔
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ٠ۭ سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ ٣٧- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔
(٣٧) انسان جلدی ہی کے خمیر کا بنا ہوا ہے یا یہ کہ انسان سے مراد نضر بن حارث ہے کہ وہ جلدی ہی کے خمیر کا بنا ہوا ہے اسی بنا پر نزول عذاب کے بارے میں جلدی کرتا ہے۔- ہم عنقریب اپنی وحدانیت کے دلائل آفاق میں دکھائے دیتے ہیں یا یہ کہ اپنی عذاب بالسیف کی نشانی عنقریب بدر کے دن دکھائے دیتے ہیں سو تم وقت آنے سے پہلے نزول عذاب کے بارے میں جلدی مت کرو ،
آیت ٣٧ (خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ط) ” - یعنی انسان کی خلقت میں عجلت پسندی رکھی گئی ہے۔ عجلت پسندی انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ انسان کی ذات یا شخصیت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ مادی ‘ جسمانی یا حیوانی ہے جس کی تخلیق زمین یعنی مٹی سے ہوئی ہے۔ اس مادی وجود میں بہت سی کمزوریاں اور کوتاہیاں رکھی گئی ہیں۔ سورة النساء کے یہ الفاظ اس حقیقت پر شاہد ہیں : (وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ) کہ بنیادی طور پر انسان کمزور اور ضعیف پیدا کیا گیا ہے۔ انسانی ذات کا دوسرا پہلو روحانی ہے۔ انسانی روح چونکہ نور سے پیدا کی گئی ہے اس لیے اس کا یہ پہلو بہت بلند اور ارفع ہے۔ اسی پہلو کے بارے میں سورة التین میں فرمایا گیا ہے : (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ) ” ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے “۔ گویا اصل انسان تو وہ روح ہی ہے جو انسانی تخلیق کے مرحلہ اوّل (وضاحت کے لیے الانعام : ٩٤ کی تشریح ملاحظہ ہو) میں اَحْسَنِ تَقْوِیْم کی کیفیت میں پیدا کی گئی۔ اس ” نور “ کو پھر اس انسانی جسم کے اندر رکھا گیا جو مٹی سے بنا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس میں بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ فطری اور جبلی طور پر عجلت پسند ہے۔- (سَاُورِیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ ) ” - کیا عجب کہ تمہارے عذاب کے بارے میں وعیدوں کے پورا ہونے کا وقت قریب ہی آ لگا ہو۔
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :41 اصل میں : خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہے انسان جلد بازی سے بنایا گیا ہے ، یا پیدا کیا گیا ہے ۔ لیکن یہ لفظی معنی اصل مقصود کلام نہیں ہیں ۔ جس طرح ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص عقل کا پتلا ہے ، اور فلاں شخص حرفوں کا بنا ہوا ہے ، اسی طرح عربی زبان میں کہتے ہیں کہ وہ فلاں چیز سے پیدا کیا گیا ہے ، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز اس کی سرشت میں ہے ۔ یہی بات جس کو یہاں : خُلِقَ الْاِنْسَنُ مِنْ عَجَلٍ کہہ کر ادا کیا گیا ہے ، دوسری جگہ : وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا ، انسان جلد باز واقع ہوا ہے ، ( بنی اسرائیل آیت 11 ) کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :42 بعد کی تقریر صاف بتا رہی ہے کہ یہاں نشانیوں سے کیا مراد ہے ۔ وہ لوگ جن باتوں کا مذاق اڑاتے تھے ان میں سے ایک عذاب الہٰی ، اور قیامت اور جہنم کا مضمون بھی تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص آئے دن ہمیں ڈراوے دیتا ہے کہ میرا انکار کرو گے تو خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا ، اور قیامت میں تم پر یہ بنے گی اور تم لوگ یوں جہنم کے ایندھن بنائے جاؤ گے ۔ مگر ہم روز انکار کرتے ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں ۔ نہ کوئی عذاب آتا دکھائی دیتا ہے اور نہ کوئی قیامت ہی ٹوٹی پڑ رہی ہے ۔ اسی کا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے ۔
20: جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا یا آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے تھے تو یہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ عذاب ابھی لے آؤ۔ ان آیتوں میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔