40۔ 1 یعنی انھیں کچھ سجھائی نہ نہیں دے گا کہ وہ کیا کریں ؟ 40۔ 2 کہ وہ توبہ و اعتذار کا اہتمام کرلیں۔
بَلْ تَاْتِيْهِمْ بَغْتَةً ۔۔ : ” بلکہ وہ ان کے پاس اچانک آئے گا۔ “ ” تَاْتِيْهِمْ “ کی ضمیر سے مراد قیامت ہے، کیونکہ آگ کا چاروں طرف سے گھیرنا قیامت کے دن ہوگا۔ اچانک آنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے آنے سے پہلے اس کا وقت معلوم ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں اور نہ اللہ تعالیٰ نے وہ کسی کو بتایا ہے۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (١٥) ، اعراف (١٨٧) اور نازعات (٤٢ تا ٤٦) نہ قیامت آہستہ آہستہ بتدریج آئے گی کہ اس کے آنے کا علم ہوجائے۔ (بقاعی) بلکہ اچانک آئے گی، اسی لیے اس کا ایک نام ” اَلسَّاعَۃُ “ ہے، اس لیے کہ وہ ایک ساعت (گھڑی) میں قائم ہوجائے گی۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلَانِ ثَوْبَھُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہٖ وَلَا یَطْوِیَانِہٖ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہٖ فَلَا یَطْعَمُہٗ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَھُوَ یَلِیْطُ حَوْضَہٗ فَلَا یَسْقِيْ فِیْہِ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أَحَدُکُمْ أُکْلَتَہُ إِلٰی فِیْہِ فَلَا یَطْعَمُھَا ) [ بخاري، الرقاق، بابٌ : ٦٥٠٦۔ مسلم : ٢٩٥٤ ] ” قیامت اس حال میں قائم ہوگی کہ دو آدمیوں نے اپنا کپڑا پھیلایا ہوگا، پھر نہ اس کی خریدو فروخت کرسکیں گے اور نہ اسے لپیٹ سکیں گے اور قیامت اس حال میں قائم ہوگی کہ آدمی اپنے دودھ والے جانور کا دودھ لائے گا تو اسے پیے گا نہیں اور قیامت اس حال میں قائم ہوگی کہ وہ اپنے حوض کی لپائی کر رہا ہوگا تو اس میں اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکے گا اور قیامت اس حال میں قائم ہوگی کہ اس نے لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھایا ہوگا تو کھا نہیں سکے گا۔ “ - فَتَبْهَتُهُمْ : ” بَھَتَ یَبْھَتُ بَھْتًا “ (ع، ن، ک) اچانک آپکڑنا، لاجواب کردینا، حیران کردینا۔ (قاموس) ” یعنی وہ انھیں مبہوت (حیرت زدہ) کر دے گی۔ ” فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ رَدَّهَا “ کیونکہ نہ وہ اسے ہٹا سکیں گے اور نہ اس پر صبر کرسکیں گے۔ ” وَلَا هُمْ يُنْظَرُوْنَ “ اور نہ انھیں کوئی مہلت ملے گی کہ ایک لمحہ آرام کرلیں، کیونکہ مہلت کی مدت تو اس سے پہلے پوری ہوچکی ہوگی۔ (قاسمی)
بَلْ تَاْتِيْہِمْ بَغْتَۃً فَتَبْہَتُہُمْ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ رَدَّہَا وَلَا ہُمْ يُنْظَرُوْنَ ٤٠- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - بغت - البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف 107]- ( ب غ ت) البغت - ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔- تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ - بهت - قال اللہ عزّ وجل : فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] ، أي : دهش وتحيّر، وقد بَهَتَهُ. قال عزّ وجل : هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] أي : كذب يبهت سامعه لفظاعته . قال تعالی: وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] ، كناية عن الزنا «2» ، وقیل : بل ذلک لکل فعل مستبشع يتعاطینه بالید والرّجل من تناول ما لا يجوز والمشي إلى ما يقبح، ويقال : جاء بالبَهِيتَةِ ، أي : بالکذب .- ( ب ھ ت ) بھت ( س ) حیران وششدرہ جانا نا سے مبہوث کردیا : قرآن میں ہے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] یہ سن کر کافر حیران رہ گیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] یہ تو ( بہت ) بڑا بہتان ہے ۔ میں بہتان کے معنی ایسے الزام کے ہیں جسے سن کر انسان ششد ر و حیرانوی جائے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ میں بہتان زنا سے کنایہ ہے ۔ بعض نے کہا ہے نہیں بلکہ اس سے ہر وہ عمل شنیع مراد ہے جسے ہا اور پاؤں سے سر انجام دیا جائے ۔ مثلا ہاتھ سے کسی نادا چیز کو پکڑنا یا کسی عمل شنیع کا ارتکاب کرنے کے لئے اس کی طرف چل کر جانا اس نے جھوٹ بولا ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں
(٤٠) بلکہ قیامت کا عذاب ان پر ایک دم سے آئے گا سو ان کے ہوش و حواس بھلا دے گا پھر اپنے اوپر سے نہ اس کو ہٹانے کی ان کو قدرت ہوگی اور نہ ان کو عذاب کے بارے میں مہلت دی جائے گی۔
آیت ٤٠ (بَلْ تَاْتِیْہِمْ بَغْتَۃً فَتَبْہَتُہُمْ ) ” - یعنی ان کے ہوش کھو دے گی۔ یہ وہی لفظ (ب ہ ت) ہے جو البقرہ : ٢٥٨ میں نمرود کے بارے میں آیا ہے : (فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ ط) ” تو (یہ سن کر ) وہ کافرّ ہکا بکا رہ گیا۔ “