Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کتاب النور ہم پہلے بھی اس بات کو جتا چکے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اکثر ملاجلا آتا ہے اور اسی طرح توراۃ اور قرآن کا ذکر بھی عموماً ایک ساتھ ہی ہوتا ہے ۔ فرقان سے مراد کتاب یعنی تورات ہے جو حق وباطل حرام حلال میں فرق کرنے والی تھی ۔ اسی سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو مدد ملی ۔ کل کو کل آسمانی کتابیں حق وباطل ہدایت وگمراہی بھلائی برائی حلال وحرام میں جدائی کرنے والی ہوتی ہیں ۔ ان سے دلوں میں نورانیت ، اعمال میں حقانیت ، اللہ کا خوف وخشیت ڈر اور اللہ کی طرف رجوع حاصل ہوتا ہے ۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یہ کتاب نصیحت وپند اور نور وروشنی ہے ۔ پھر ان متقیوں کا وصف بیان فرمایا کہ وہ اپنے اللہ سے غائبانہ ڈرتے ہیں رہتے ہیں ۔ جیسے جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا آیت ( مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاۗءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبِۨ 33؀ۙ ) 50-ق:33 ) جو رحمن سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور جھکنے والا دل رکھتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے جو لوگ اپنے رب کا غائبانہ ڈر رکھتے ہیں ۔ ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے ۔ ان متقیوں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ قیامت کا کھٹکا رکھتے ہیں ۔ اس کی ہولناکیوں سے لرزاں وترساں رہتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس قرآن عظیم کو بھی ہم نے ہی نازل فرمایا ہے جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آسکتا ۔ جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اترا ہے ۔ افسوس کیا اس قدر وضاحت وحقانیت صداقت ونورانیت والا قرآن بھی اس قابل ہے کہ تم اس کے منکر بنے رہو؟ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 یہ تورات کی صفات بیان کی گئی ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی تھی۔ اس میں بھی متقین کے لئے ہی نصیحت تھی۔ جیسے قرآن کریم کو بھی (ھُدَی لِّلْمُتَّقِیْنَ ) کہا گیا، کیونکہ جن کے دلوں میں اللہ کا تقوٰی نہیں ہوتا، وہ اللہ کی کتاب کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے، تو آسمانی کتاب ان کیلئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ کس طرح بنے، نصیحت یا ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے اور اس میں غور و فکر کیا جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] یعنی یہ ہدایت اور انذار کا سلسلہ قریش مکہ سے ہی مختص نہیں، پہلی قوموں کی طرف بھی ہم رسول اور اپنی کتابیں نازل کرتے رہے ہیں۔ انہی کتابوں میں سے سرفہرست تورات ہے جو ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی تھی۔ یہ حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کتاب تھی۔ ان کے آپس میں اختلافات کی حقیقت واضح کرکے صحیح راہ کی نشاندہی کرتی تھی۔ اور اس کی روشنی میں سیدھا راستہ صاف صاف نظر آنے لگتا تھا۔ نیز وہ اولاد آدم کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے والی نصیحت تھی۔ اور اس میں پندونصیحت کے وافر اسباق موجود تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ ۔۔ : سورت کے شروع سے توحید، نبوت اور قیامت پر بات چلی آرہی ہے، اب چند انبیاء کے واقعات کا آغاز ہوتا ہے۔ مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ ان انبیاء کی طرح آپ بھی پوری تن دہی سے دعوت کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں اور اس راہ میں آنے والی ہر مشکل میں صبر و استقامت سے کام لیں، اس کے علاوہ اس بات کی تفصیل ہے کہ پہلے تمام انبیاء بشر تھے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا۔ قرآن مجید میں اکثر موسیٰ (علیہ السلام) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور دونوں کی کتابوں کا ذکر اکٹھا آتا ہے، کیونکہ دعوت کے ساتھ جہاد کا سلسلہ موسیٰ (علیہ السلام) سے شروع ہوتا ہے اور دعوت کے سلسلے میں دونوں کے درمیان بڑی مماثلت ہے۔- الْـفُرْقَانَ وَضِيَاۗءً وَّذِكْرًا لِّـلْمُتَّـقِيْنَ : ” الْـفُرْقَانَ “ اور ” اَلْفَرْقُ “ کا معنی ایک ہی ہے، الف اور نون کی وجہ سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوگیا ہے، یعنی حق و باطل کے درمیان خوب فرق کرنے والی چیز۔ اس سے مراد تورات بھی ہے، معجزے اور جادو کے درمیان فرق کرنے والے معجزے بھی اور موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو فرعونیوں پر حاصل ہونے والی فتح و نصرت بھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یوم بدر کو یوم الفرقان قرار دیا۔ گویا ” الْـفُرْقَانَ “ کتاب، معجزات اور نصرت الٰہی تینوں کی صفت ہوسکتی ہے، کیونکہ تینوں ہی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہیں۔ اسی طرح ” وَضِيَاۗءً “ اور ” َّذِكْرًا لِّـلْمُتَّـقِيْنَ “ بھی تینوں کی صفت ہیں، کیونکہ تورات، معجزات اور نصرت الٰہی تینوں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی بھی ہیں، ایمان کی روشنی بھی ہیں اور نصیحت بھی۔ مگر کتاب، معجزات اور نصرت الٰہی کے مشاہدے سے حق و باطل کے درمیان فرق، ایمان کی روشنی اور نصیحت اسی کو نصیب ہوتی ہے جو متقی ہو۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٢) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے (آپ کے قبل) موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو ایک فیصلہ کی اور روشنی کی اور متقیوں کے لئے نصیحت کی چیز (یعنی توریت) عطا فرمائی تھی جو (متقی) اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور (خدا ہی سے ڈرنے کے سبب) وہ لوگ قیامت سے (بھی) ڈرتے ہیں (کیونکہ قیامت میں اس کا خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور سزا نہ ہونے لگے) اور (جیسے ان کو وہ کتاب ہم نے دی تھی اسی طرح) یہ (قرآن بھی) ایک کثیر الفائدہ نصیحت (کی کتاب) ہے جس کو ہم نے نازل کیا، سو کیا (بعد اس کے کہ تنزیل کتب کا عادة اللہ ہونا معلوم ہوگیا اور خود اس کا منزل من اللہ ہونا دلیل سے ثابت ہے) پھر بھی تم اس کے (منزل من اللہ ہونے کے) منکر ہو۔ - معارف و مسائل - الْـفُرْقَانَ وَضِيَاۗءً وَّذِكْرًا لِّـلْمُتَّـقِيْنَ ، یہ تینوں صفتیں تورات کی ہیں کہ فرقان یعنی حق و باطل میں امتیاز کرنے والی ہے اور قلوب کے لئے ضیاء و نور ہے اور لوگوں کے لئے ذکر و تذکیر اور ذریعہ ہدایت ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ فرقان سے مراد اللہ تعالیٰ کی مدد ہے جو ہر موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ رہی کہ فرعون کے گھر میں پرورش ہوئی اور پھر اس سے مقابلے کے وقت اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ذلیل کیا پھر لشکر فرعون کے تعاقب کے وقت دریا میں راستے پیدا ہو کر اس سے نجات ملی اور لشکر فرعون غرق کیا گیا اسی طرح بعد کے ہر موقع پر اس مدد خداوندی کا مشاہدہ ہوتا رہا اور ضیاء و ذکر دونوں تورات کی صفتیں ہیں، قرطبی نے اسی کو ترجیح دی ہے کیونکہ الفرقان کے بعد واؤ کے ذریعہ فاصلہ کرنے سے اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ فرقان تورات کے علاوہ کوئی چیز ہے۔ واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى وَہٰرُوْنَ الْـفُرْقَانَ وَضِيَاۗءً وَّذِكْرًا لِّـلْمُتَّـقِيْنَ۝ ٤٨ۙ- هرن - هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .- تَّفْرِيقُ- أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ- [ طه 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] ، وقرئ :- فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] ، أي :- يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ- أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً- [ الأنفال 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، قيل :- أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] .- والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين .- التفریق - اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ - الفرقان - یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور - فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے - الفرق - کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔- ضوأ - الضَّوْءُ : ما انتشر من الأجسام النّيّرة، ويقال : ضَاءَتِ النارُ ، وأَضَاءَتْ ، وأَضَاءَهَا غيرُها . قال تعالی: فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة 17] ، كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور 35] ، يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص 71] ، وسَمَّى كُتُبَهُ المُهْتَدَى بها ضِيَاءً في نحو قوله : وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ- [ الأنبیاء 48] .- ( ض و ء ) الضوء ۔ کے معنی نور اور روشنی کے ہیں ضائت النار واضائت : آگ روشن ہوگئی اور اضائت ( افعال ) کے معنی روشن کرنا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة 17] جب آگ نے اس کے ارد گرد کی چیزیں روشن کردیں ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص 71] جو تم کو روشنی لادے ۔ اور سماوی کتابوں کو جو انسان کی رہنمائی کے لئے نازل کی گئی ہیں ضیاء سے تعبیر فرمایا ہے ۔ چناچہ ( تورات کے متعلق ) فرمایا :۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء 48] وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسٰی اور ہارون کو ( ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی اور ( سرتاپا ) روشنی اور نصیحت ( کی کتاب ) عطاکی ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٨) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) کو ایک فیصلہ یعنی شبہات سے نکالنے کی یا یہ کہ فرعون پر غلبہ اور قوت پانے کی اور گمراہی سے روشنی اور اس کے لیے بیان اور کفر وشرک اور برائیوں سے بچنے والوں کے لیے نصیحت کی چیز عطا فرمائی تھی ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :49 یہاں سے انبیاء علیہم السلام کا ذکر شروع ہوتا ہے اور پے در پے بہت سے انبیاء کی زندگی کے مفصل یا مختصر واقعات کی طرف اشارے کیے جاتے ہیں ۔ یہ ذکر جس سیاق و سباق میں آیا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حسب ذیل باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں : اول یہ کہ تمام پچھلے انبیاء بھی بشر ہی تھے ، یہ نئی نرالی مخلوق نہ تھے ۔ تاریخ میں یہ کوئی نیا واقعہ آج پہلی مرتبہ ہی پیش نہیں آیا ہے کہ ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ دوم یہ کہ پہلے انبیاء بھی اسی کام کے لیے آئے تھے ، جو کام اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کر ہے ہیں ۔ یہی ان کا مشن تھا اور یہی ان کی تعلیم تھی ۔ سوم یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص معاملہ رہا ہے ۔ بڑے بڑے مصائب سے وہ گزرے ہیں ۔ سالہا سال مصائب میں مبتلا رہے ہیں ۔ شخصی اور ذاتی مصائب میں بھی اور اپنے مخالفوں کے ڈالے ہوئے مصائب میں بھی ، مگر آخر کار اللہ کی نصرت و تائید ان کو حاصل ہوئی ہے ۔ اس نے اپنے فضل و رحمت سے انکو نوازا ہے ، ان کی دعاؤں کو قبول کیا ہے ، ان کی تکلیفوں کو رفع کیا ہے ، ان کے مخالفوں کو نیچا دکھایا ہے ، اور معجزانہ طریقوں پر ان کی مدد کی ہے ۔ چہارم یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقبول بارگاہ ہونے کے باوجود ، اور اس کی طرف سے بڑی بڑی حیرت انگیز طاقتیں پانے کے باوجود ، تھے وہ بندے اور بشر ہی ۔ الوہیت ان میں سے کسی کو حاصل نہ تھی ۔ رائے اور فیصلے میں ان سے غلطی بھی ہو جاتی تھی ۔ بیمار بھی وہ ہوتے تھے ۔ آزمائشوں میں بھی ڈالے جاتے تھے ۔ حتٰی کہ قصور بھی ان سے ہو جاتے تھے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ بھی ہوتا تھا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :50 تینوں الفاظ توراۃ کی تعریف میں استعمال ہوئے ہیں ۔ یعنی وہ حق و باطل کا فرق دکھانے والی کسوٹی تھی ، وہ انسان کو زندگی کا سیدھا راستہ دکھانے والی روشنی تھی ، اور وہ اولاد آدم کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے والی نصیحت تھی ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :51 یعنی اگرچہ بھیجی گئی تھی وہ تمام انسانوں کے لیے ، مگر اس سے فائدہ عملاً وہی لوگ اٹھا سکتے تھے جو ان صفات سے متصف ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani